منزل کی تلاش

وحید اشرف
اس کے گھر کے پیچھے کئی کئی فرلانگ تک رمل (ریت) کے ٹیلے اُبھرتے ڈوبتے رہتے تھے۔ شام کی تیزہوائیں جوں ہی ان ٹیلوں کا نشان مٹاتی، پیچھے سے آنے والی ہواوں کی دوسری لہر نئے ٹیلے بنادیتی ۔ ہر شام کام سے آتے ہی وہ اپنے مکان کے پیچھے ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پر بیٹھ جاتا اور ذہن میں ابھرنے والے نئے اور خوبصورت نقوش کاعکس ریت پر اتارتا جب آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگتیں تو جاکر سوجاتا اور ساری رات ان نقوش کو خوش نظر رنگ اور خوبصورت اشکال بدلتے دیکھتا رہتا۔ انسان مزاج میں توازن کی برقراری کا نظام عجیب و غریب ہے۔ جیسے جیسے رات گہری ہوتی جاتی ہے تو افکار میں منفی رجحانات بھی ترقی کریت ہںی ان کے اثر سے بعض وقت نیند بھی غائب ہوجاتی ہے لیکن جیسے ہی سورج طلوع ہوا تمام خبیث خیالات و فکریں غائب ہوجاتی ہیں اور انسان ایک نئی جستجو اور حوصلہ کے ساتھ نئی امیدیں لے کر مستقبل کے لئے مضبوط بنیادیں کھودنے میں مصروف ہوجاتا ہے ۔

1975ء میلوں دور دور تک ہوکاعالم،رات میں چلنے والی سیٹیاں بجاتی تیز ہوائیں خوف و ہیبت سے ماحول کو آسیب زدہ کردیتی تھیں۔ سمندری سیپیوں اور ریت سے بنے مکانات جن کے سحر سے دیکھنے والا مبہوت و مسحو ہوجائے۔ جیسے ان مکانات میں جنات بستے ہوں ۔ ان مکانات کی پرپیچ گلیوں میں گدھوں پر مٹی کا تیل اور مینڈھے کے چمرے سے بے مشکیزوں میں پینے کا پانی لئے ماء، ماء، گاس ،گاس پکارتے ہوئے بدو (دیہاتوں کے عربی باشندے) عجیب جدوئی ماحول سے معمور بستیاں، یہ بستیاں ان ترقی یافتہ الف لیلوی شہریوں کا پتہ دیتی تھیں جو اسی ریگستان میں دفن ہوکر اولین دور کی ان بستیوں کو اوپر اچھا دیا ہو۔

وہ مسلسل عکس بنانے کی کوشش کرتا رہا لیکن عکس بنتے ہی نہیں تھے کیسے بنیں گے ذہن میں کسی قسم کا کوئی نقش ہی نہیں وہ نابننے والے عکس کو ہتھیلی سے صاف کردیتا۔
صاحب جی! کیا سفید چادر پر باریک مٹی یا گرد ہے آپ بار بار اس پر کچھ لکھتے جارہے ہیں اور پھر میٹ دیتے ہیں، وہ چونک پڑا ۔ تب ہی تو یاد آیا کہ عکس بنیں گے کیسے اور نقش ذہن میں ابھریں گے کیوں کر زندگی تو مکمل ہوچکی اپنا دور، دو حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا یعنی پوتروں والا ہوگیا۔

تیس سال کی عمر میں اس نے خلیج عربی میں قدم رکھا،تیس سالو ہاںکام کیا اور جب واپس آیا تو سال کا ہوچکا تھا اس تمام عرصہ میں اس نے خوشیاں ہی خوشیاں دیکھیں ۔ ہر سورج اپنے ساتھ ایک نئی خوشی لاتا۔ لیکن دکھ اس بات کا تھا کہ اس نے اپنے بچوں کا بچپن اور ان کو بڑا ہوتا ہوا دیکھ نہ سکا اور ایسا ممکن بھی نہیںکیوں کہ قدرتی نظام میں اثبات اور نفی کے ساتھ اس کی ضد ضروری ہے۔ جب وہ واپس آیا تو اس کے لڑکے جواب ہوچکے،تعلیم مکمل ہوچکی زندگی کے چکرویو میں داخل ہوچکے تھے زمانہ اپنی رفتار بڑھاتا رہا اتنا تیز دوڑ رہا تھا کہ اس کے آخری حصہ کو دیکھنا بھی ممکن نہ رہا۔ بڑی لڑکی کی شادی ہوئی ہاتھوں کی مہندی اپنا رنگ پھیکا بھی نہ کرسکی کہ امریکہ پرواز کر گئی۔ سوچا تھا کہ بیٹی کے بپچن کی جھلکیاں نواسوں،نواسیوں میں دیکھوں ان کو بڑا ہوتا ہوا بیٹی کا قد ناپوں۔ دو لڑکوں نے اعلی تعلیم حاصلکرنے کے ساتھ ہی کناڈا اور آسٹریلیا میں اپنا مسکن بنالیا ۔

ایک لڑکا ساتھ رہ گیا اس کے لڑکوں یعنی پوتروں نے ان تمام کمیوں کو پورا کردیا جو اس میں رہ گئی تھیں۔ دو ہی کیفیتیں انسان کے تفکرات کا سبب بنتی ہیں ایک بہت زیادہ خوشی میں رنج و الم میں اور یہی دو کیفیتیں اس کے مزاج پر حاوی رہتی ہیں اور یہی دو کیفیتیں ہی جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ جب بڑا پوترا کسی آر سے آواز دیتا دادا جی تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی جب چھوٹا کسی آڑ میں چھپ جاتا اور آواز دیتا دادا مجھے ڈھونڈو تو انتہائی خوشی سے اس کا دل باہر آنے کیلئے بیتاب ہوجاتا تب وہ اپنے لئے دعائیں مانگتا کہ یا اللہ صحت و تندرستی کے ساتھ میری حیات میں اتنا اضافہ ضرورت کردینا کہ اپنے پوتروں کے بچوں کا بچپن دیکھوں ان کو بڑا اور جوان ہوتا ہوا دیکھوں ۔ مگر انسان کی سوچ پر خود انسان کا اختیار نہیں ہاں سوچ انسانی مزاج میں تغیر تبدیلی اور انقلاب کے اسباب مہیا کرتی ہے اور کچھ کر جانے کیلئے فیصلہ کی طرف راغب کرتی ہے۔

چند دن سے اس کے مزاج میں عجیب سی بے چینی تھی جیسے سینہ بالکل خالی ہو ۔ گھر میں کچھ سرگوشیاں سی گونج رہی تھیں جیسے قدیم دیواری گھڑی نے چرخ دار جرس پر ہتھوڑا مار دیا ہو ۔یہ ارتعاش پیدا کرتی ہوئی جھنکار نے اس کی نیند غائب کردیں تھیں۔ ’’داداجی، داداجی ہم لوگ کناڈا جارہے ہیں’’چھوٹے پوترے نے کہا ’’تم بھی چلو‘’ اس اطلاع پر کسی قسم کا کوئی تاثر پیدا نہ ہوسکا کیوں کہ یہ تو ہونا ہی تھا وہی ہوا جس کیلئے وہ تیار بیٹھا تھا۔
بیٹے اور گھر کے دوسرے افراد نے اسے ایسے سمجھانے والے انداز میں کہنا شروع کیا جیسے بچوں سے کہا جاتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ضعیفی کے بعد کا راستہ بچپن سے ہوکر گذرتا ہے ۔ بیوی نے کہا ’’ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس ملک کو، اپنے عزیزوں کو اپنے ماحول اور آپ کو چھوڑ کر جائیں لیکن امیگریشن آیا ہے، بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ ہم جلد جلد آتے رہیں گے ویسے بھی الیکٹرانک ذرائع دنیا کوہتھیلی پر رکھ دیا ہے ۔ رات کے آخری پہر میںہماری فلائٹ ہے آپ کا پاسپورٹ تجدید شدہ ہوتا تو آپ کا بھی امیگریشن ہوجاتا۔ ویسے بھی آپ وزٹ پر بار بار آسکتے ہیں۔‘’

خادمہ نے آدھی رات کے بعد اس کو جگایا۔ گاڑی تیاری تھی۔ یہ اچھا ہوا کہ پوترے سو رہے تھے۔ سب نے گلے ملے بیٹے نے باپ کے ہاتھ میں گھر کیچابیاں دیتے ہوئے کہا ۔’’آخری تین کمروں کی چابیاں ہم اپنے ساتھ لے جارہے ہیں کیوں کہ اس میں آپ کی ضرورت کی کوئی بھی چیز نہیںہے۔‘‘ بیوی نے کہا ’’ہم لوگ گھر کی خادمہ کو خادمہ اس لئے نہیںکہتے کہ گذشتہ تین پشتوں سے اس کے آباو اجداد اس گھر کا ایک حصہ رہے ہیں آپ کا پورا خیال رکھے گی کسی بات کی کمی نہیں ہوگی۔ وغیرہ وغیرہ، گھر کی چابیاں کافی دیر اس کی ہتھیلیوں پر رکھی رہیں آہستہ آہستہ اس جھیلے کا بوجھ بڑھتا گیا اتنا کہ ہاتھ اٹھانا دشوار معلوم ہوتا تھا۔

آسیب ویاس، رات اپنے ساتھ لے کر چلی گئی۔ ہر صبح کو نئی صبح کہا جاتا ہے جب کہ ہر صبح ماضی سے نکلتی ہے نئی صبح تو وہ تھی جس کو آدم نے زمین پر نزول کے ساتھ دیکھا تھا۔ ہاں یہ نئی صبح یوں ہوسکتی ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے کے بعد اپنے بچوں کے بغیر جاگا تھا۔ خادمہ نے روز کے معمولی کی طرح بسکٹ اورچائے دے کر اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کر جب واپس آئی تو دیکھا کہ چائے اسی طرح رکھی ہے۔ ناشتہ کا وقت ہوگیا تھا۔ جب تک وہ ناشتہ کرتا رہا خادمہ اس کا حوصلہ بڑھاتی رہی اس کا غم کم کرتی رہی۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں،پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں،دلجوئی کے تمام عصری سامان موجود ہیں وقت کے گذرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ آج ہے وہ کل نہیں اور کل کی کسے خبر صبح سے شام تک کا وقت اچھاگ ذر جائے اور کیا چاہئے۔
غیر ارادی طور پر اس نے اپنی ہتھیلی پر دوبارہ چابیاں رکھ لیں پتہ نہیں کیوں؟ کل کی طرح اس کا بوجھ بڑھتا گیا یہاں تک کہ ہاتھ اٹھانا مشکل ہوگیا تھا۔ اچانک اس کے دماغ میں ایک برق سی چمکی۔ اس کے دماغ میں ایک برق سی چمکی۔ کسی دور دراز ایک دیہات سے اس کے ہم مسلک کچھ لوگ اس کے پاس یہ التجا لے آئے تھے کہ ہمارے گاوں میں بچوں کی تربیت اور دینی تعلیم کے ساتھ ساگھ گاوں والوں کو پانچ وقت کی نماز بھی پڑھادیں ۔ اس مسجد کی کمیٹی کے دمہ داروں نے کہا کہ اس کیلئے تمام تر سہولتوں کا بندوبست کیا گیا ہے۔
ایک عزم مصمم کے ساتھ وہ اٹھا اور چابیوں کا بوجھ خادمہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’چند دن میں اپنے دوست کے پاس اس کے گاوں جارہا ہوں ۔ تم اپنے میاں بچوں کے ساتھ خوش رہوگی۔

سفر کا مزہ تو ٹرین میں آتا ہے، بشرط یہ کہ ٹرین بھاپ سے چلنے والی ہو ۔ جہاں یہ جارہا تھا۔ میٹر گیج پر یہی ٹرین چلیت تھی۔ جیسے ہی اس نے کھرکی سے باہر جھانکا اسٹیم انجن نے شوخیس ے اس کے منہ پر کالج پوت دی اور آنکھوں میں کوئے کے ذرے جھونکے دیئے ۔ وہ ہنس پڑا اسے ایسا ہی محسوس ہوا جیسے نواسے یا پوتروں نے اس کے منہ پر مٹھی بھر آٹا پھینک دیا ہو اور نانا اور بھوت بھوت کہتے ہوئے ہنستے ہنستے نڈھال ہو رہے ہوں ۔ ٹرین اپنے مسافر کی دل جوئی کا پورا پورا خیال رکھتی ہے وہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں،آواز کے ذریعہ راستہ کی ہیئت کا پتہ بھی دیتی ہے پٹریوں کا جوڑ ہو یا اور چھوٹے سے نالے اور ٹرین سے گذرنے والے راستے یا ہیبت ناک طویل و عریض ندی کا پل وہ ’’چل چھیاں چھیاں‘‘ کہتی ہوئی مست ناگن کی طرح لہراتی ہے ۔ ابھی فضاء روشن تھی سورج کے غریب ہونے میں کافی وقت تھا۔ ایک ویران لیکن پر سکون اسٹیشن پر ٹرین رکی پتہ چلا کہ اس کا یہاں تقریبا ایک گھنٹہ سے زیادہ توقف ہے ۔ وہ ٹرین سے اتر پڑا اور ایک انتہائی کونے میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا ۔ چاروں طرف خاموشی کا عالم تھا۔ ایسے میں بہار کا موسم۔

ہوا کے زور پر درختوں کے خشک پتے آپس میں رگڑتے ہوئے ماحول کو افسانوی اور سحر انگیز کررہے تھے ۔ چند لمحوں کے لئے وہ سب کچھ بھول گیا تب ہی اسے کاندھوں پر کسی کا بوجھ محسوس ہوا پلٹ کر دیکھا تو ایک قدیم دوست کو مسکراتا ہوا پایا ۔ اس نے اپنے دوست سے پوچھا تم!! ادھر کدھر؟ تقریبا ایک سال سے غائب ہو،، اس نے دوست کے اسی سوال کو دھرا دیا۔ دوست نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس نے پوچھا یہ بتاو تم یہاں کہاں؟۔ دوست نے اطمینان سے جواب دیا کہ میں نے یہاں گھر لے لیا ہے ۔ بہت بڑا ہے۔ چاہو تم بھی میرے ساتھ رہ سکتے ہو۔ تمہارے ساتھ اور کون کون ہیں؟ بہت لوگ ہیں مختلف مذہب دین و مسلک کے ۔ دوست نے پلٹ کر ایک طرف اشارہ کیا۔ وہ ادھر دیکھو بڑا سا بنگلہ یہ بات صاف عیاں تھی کہوہ اپنی بھری ہوئی آنکھیں اس کی آنکھوں سے بچارہا ہے ۔ تم ضرور آو تمہارا انتظار کررہا ہوں اور تیزی سے اسی طرف چلا گیا ۔ اس نے ایک لمبی سانس کھینچی،گردن کے پیچھے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس پھنسایا اور آنکھیں موندلیں۔ اسی لمحہ گارڈ نے سیٹی بجائی اور ہری جھنڈی لہرا کر مسافروں کو خبردار کیا کہ ٹرین چھوڑ رہی ہے ۔ ٹرین آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے رفتار پکڑ لی ۔ اس کے جیب میں پڑے موبائیل فون نے بھی اس کو جگانے کی کوشش کی اور بالآخر خاموش ہوگیا۔