مملکت شام میں خونریزی ، سوشیل میڈیا پر عرب دنیا کی بے حسی تنقید کا نشانہ

سابق صدر عراق صدام حسین کی حوصلہ شکن تصویر و نعرہ ، شام میں ظلم و زیادتی سے کربناک صورتحال
حیدرآباد۔یکم۔مارچ(سیاست نیوز) مملکت شام میں جاری خونریزی پر سوشل میڈیا پر موجود مسلم دنیا میں کرب و بے چینی پائی جاتی ہے اور تمام سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بشارالاسد پر لعن طعن کا سلسلہ جاری ہے ساتھ ہی عرب دنیا کی بے حسی کو بھی شدید نشانہ بنایا جانے لگا ہے لیکن دنیائے سوشل میڈیا پر نہ صرف بشارالاسد اور عرب حکمرانوں کو نشانہ بنایا جا رہاہے بلکہ سابق صدر عراق صدام حسین کو بھی یاد کیا جانے لگا ہے اور کہا جا رہاہے کہ اگر صدام حسین زندہ ہوتے تو یہ حالات پیدا نہیں ہوتے اور نہ ہی معصوموں کا خون بہتا۔ سوشل میڈیا پر کئے جانے والے تبصروں میں عرب دنیا کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ صدر ترکی رجب طیب اردگان سے خونریزی کو رکوانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن شامی افواج کی تباہ کاریوں اور انہیں حاصل روسی افواج کی مدد کو دیکھتے ہوئے پوٹین کو بھی سوشل میڈیا پر تنقیدوں کا نشانہ بنایا جا رہاہے ۔ صدام حسین جنہیں قید کرنے کے بعد امریکی زیر تسلط عدلیہ نے پھانسی کا حکم سنایا تھا اور انہیں پھانسی دے دی گئی تھی۔ ان کی تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر گشت کر رہی تصویر میں دکھا یا جا رہاہے کہ ان کے گود میں ایک معصوم ہے اور یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر میں ہوتا تو یہ حالات نہ ہوتے‘ نہ لیبیاء لوٹا گیا ہوتا اور نہ شام تباہ ہوا ہوتا ۔جہاں میں کھڑا ہوجاتا ان کی نسلیں کانپ جاتی۔ اسی طرح کی متعدد تحریریں اور دعائیہ کلمات سے بھری ہوئی پوسٹ سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہیں جس میں سوشل میڈیا کی حد تک انسانیت کو شرمسار کرنے والی اور خون مسلم کی ارزانی کا کرب بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔شام کے علاقہ غوطہ میں جاری وحشیانہ بمباری سے معصوموں کی اموات اور انہیں کسی بھی طرح کی فوری طبی امداد کی فراہم نہ کئے جانے کو بھی شدید تنقیدکا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔شام میں جاری حکومت اور باغیوں کے درمیان جنگی حالات پر قابو پانے کے بعد اب شامی افواج روسی افواج کی مدد سے ان علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جن علاقوں میں باغیوں کو آسان پناہ گاہیں دستیاب ہوئی تھیں ۔ شامی افواج کی جانب سے اب کی جانے والی کاروائی میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو بدلے کی کاروائی قرار دیا جا رہاہے ۔ سوشل میڈیا پر جاری مباحث میں سابق صدر عراق صدام حسین کی کمی کو شدت سے محسوس کرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور کہا جا رہاہے کہ صدام حسین زندہ ہوتے تو شامی افواج یہ جرأت نہ کرتے ۔ اسی طرح صدر ترکی رجب طیب اردگان سے بھی کئی توقعات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہاہے کہ ترکی ان حالات پر خاموش نہیں رہے گا اور وہ اتحاد کی تشکیل کے ذریعہ معصوم جانوں کے تحفظ کیلئے آگے بڑھے گا۔ عرب دنیا میں آنے والے تغیرات بالخصوص آزاد خیالی کے علاوہ رقص و سرور کی محفلوں میں مگن عرب ممالک کے حالات اور شام میں معصوموں کی اموات پر خاموشی پر بھی سوشل میڈیا پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔