مملکت سے غیر ملکیوں کا انخلاء

کے این واصف
حالیہ عرصہ میں سعودی عرب میں نئے لیبر قوانین ، خارجی باشندوں پر عائد ہوئے ٹیکس، بجلی ، پانی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور اس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ وغیرہ جیسے عوامل نے خارجی باشندوں کو مملکت چھوڑنے پرمجبور کیا ۔ دوسری طرف سعودائزیشن کے ٹارگٹ کی تکمیل میں بھی لاکھوں غیر ملکی باشندے ملازمت سے فارغ کردیئے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ کچھ عرصہ قبل شائع ایک رپورٹ کے مطابق 2600 غیر ملکی یومیہ کی بنیاد پر سعودی مارکٹ کو خیر باد کہنے لگے۔ 2017 ء کے آغاز سے لیکر 2018 ء کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک 7 لاکھ سے زیادہ غیر ملکی کارکن مقامی مارکٹ سے نکل چکے ہیں ۔ 2017 ء سے لیکر تاحال 7.2 لاکھ غیر ملکی لیبر مارکٹ سے نکل گئے ۔ 89 ہزار سعودی ملازم لیبر مارکٹ میں شامل ہوئے ۔ دوسری جانب 2018 ء کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر سعودیوں میں بیروزگاری کی شرح 12.9 فیصد تک پہنچ گئی ۔ 1.07 ملین سعودی روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ محکمہ شماریات کے سربراہ نے ایک پریس کانفرنس میں مقامی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سال رواں کے ابتدائی 3 ماہ کے دوران 234.2 ہزار غیر ملکی سعودی مارکٹ سے نکل چکے ہیں۔ سعودی مردوں میں بیروزگاری کی شرح 7.6 فیصد اور خواتین میں 30.9 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔ یہ اعداد و شمار 2018 ء کی پہلی سہ ماہی کے ہیں۔ لیبر مارکٹ کے خبر نامے کے مطابق سعودی کارکنان کی تعداد 13.33 ملین تک پہنچ گئی ہے ۔ سعودی کارکنان کی تعداد میں کمی واقع ہوئی کیونکہ اس سے پہلی سہ ماہی کے اختتام پر ان کی تعداد 13.58 ملین تھی ۔ محکمہ جاتی ریکارڈ کے مطابق سال رواں کی پہلی سہ ماہی کے دوران ملازمت کے متلاشی سعودیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ۔ 14.399 سعودی ملازمت کے متلاشی پائے گئے ۔

دوسری جانب دو روز قبل انگریزی روزنامہ ’’سعودی گزٹ‘‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق مملکت میں تعمیرات کا شعبہ 2015 ء کے ابتدائی تین ماہ میں خارجی باشندوں کے انخلاء سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ بتایا گیا کہ 2017 ء کے چوتھے اور 2018 ء کے پہلے سہ ماہی میں دو لاکھ 21 ہزار خارجی باشندے لیبر مارکٹ سے چلے گئے ۔ یہ تعداد جملہ شعبہ جات کی ہے جبکہ صرف شعبہ تعمیرات سے ایک لاکھ 26 ہزار کارکنان چلے گئے ۔ بتایا گیا کہ ہول سیل اور ریٹیل شعبہ میں 53 ہزار ورکرس کے جانے سے یہ شعبہ غیر ملکی انخلا سے متاثر ہونے والوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ مملکت سے جانے والے ورکرس میں اکثریت ان کی ہے جو کسی سعودی کفیل کی کفالت میں رہ کر باہر کام کرتے تھے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مملکت میں ایک لاکھ 20 ہزار کنسٹرکشن کمپنیاں ہیں جن کی سرمایہ کاری کی لاگت تین سو بلین ہے اور اس شعبہ میں جملہ خارجی و سعودی کے چار ملین کارکنان کام کرتے تھے اور یہ شعبہ اب خارجی باشندوں کے انخلاء سے بری طرح متاثر ہے ۔ اس سے لیبر سپلائی کرنے والی کمپنیاں ضرور فائدہ اٹھائیں گی ۔ غیر ملکی باشندوں کے بھاری تعداد میں مملکت چھوڑنے سے سعودی نوجوانوں میں بیروزگار کم ضرور ہوئی ہوگی ۔ مگر بظاہر یہاں ایسا لگ رہا ہے کہ تمام طرح کی تجارتی سرگرمیوں ماند پڑگئی ہیں۔ شہر کے بازار جہاں کبھی چلنے کی جگہ نہیں ملتی تھی ، آج وہ خالی خالی نظر آرہے ہیں۔ تجارتی مراکز سونے پڑے ہیں۔ ہر تیسری بلڈنگ چاہے وہ رہائشی ہو یا کمرشیل ہر عمارت پر ’’کرایہ پر حاصل کیجئے‘‘ کا بورڈ لگا ہے۔ اسکولوں میں طلباء کی تعداد بری طرح گھٹ گئی ہے ۔ حتیٰ کہ بعض خانگی اسکولس تو طلباء بہت زیادہ کم ہوجانے کی وجہ سے بند کردیئے گئے ۔
کسی ملک کی جانب سے وہاں بسے غیر ملکیوں کو بے دخل کرنا یا ان کو ملازمتوں سے فارغ کر کے ملک سے نکالنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ کوئی بھی ملک جب ایک مقام پر آکر یہ محسوس کرے کہ اب ابنائے وطن کو غیر ملکیوں کی جگہ لینا چاہئے تو حکومت یہ اقدام کرسکتی ہے کہ غیر ملکیوں کو فارغ کرو اور ملکی باشندوں کی جگہ کو مقامی باشندوں سے پر کرو۔ منصوبہ کے مطابق یہاں ایسا ہو پایا ، نہیں وہ الگ بات ہے لیکن کسی بھی عمل کے منفی اور مثبت اثرات مرتب ضرور ہوتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔ یہاں کے اقتصادی ڈھانچہ پر یا یہاں کی مارکٹ پر اس کا کیا اثر پڑا یہ ملکی اور غیر ملکی سب ہی دیکھ رہے ہیں یا ان اثرات کو محسوس کر رہے ہیں۔ آیئے اس سلسلے میں ایک نظر عرب میڈیا کا کیا ردعمل یا نظریہ ہے ، اس پر ڈالتے ہیں۔ اس موضوع پر عربی اخبار ’’المدینہ‘‘ کے ادارتی صفحہ پر ایک مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ سعودی حکومت نے لیبر مارکٹ میں مصروف عمل تارکین وطن پر پہلی بار فیسین مقرر کی ہیں۔ اس پر موافق و مخالف تاثرات سامنے آرہے ہیں۔ میرے نکتہ نظر سے موافقت اور مخالفت کے دو بنیادی سبب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ تارکین وطن پر فیس عائد کرنے کے فیصلے کو مثبت شکل میں دیکھ رہا ہے ۔ اس کی سوچ یہ ہے کہ تارکین وطن پر فیس عائد کرنے سے غیر ملکی کارکنان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو قابو کیا جاسکے گا ۔ ہو تو یہ رہا ہے کہ سعودی عرب بین الاقوامی ٹریننگ مارکٹ بن چکا ہے ۔ اس حوالے سے دنیا بھرمیں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ اس سے زیادہ تر فائدہ اٹھانے والے غیر ملکی ہیں۔ سعودی نہیں۔ سعودیوں کو تربیتی اسکیموں سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو تارکین وطن پر فیس عائد کرنے سے نالاں ہے۔ اس کی سوچ یہ ہے کہ اس عمل کے باعث مقامی شہریوں کو بھاری نقصان ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر اگر فیس عائد کرنے سے قبل انہیں سالانہ ایک لاکھ ریال کا منافع ہورہا تھا تو0 اب انہیں زیادہ سے زیادہ 40 فیصد تک ہی منافع ہوگا ۔ یہ سب کچھ مارکٹ میں ہورہا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی جانب سے جن لوگوں پر اضافی فیس عائد کی گئی ہے۔ وہ منظر نامے سے اوجھل ہیں۔ ہو یہ رہا ہے کہ بہت سارے غیر ملکی سعودیوں کے نام سے کاروبار کر رہے تھے ۔ سعودی شہری انہیں آزاد چھوڑے ہوئے تھے ۔

وہ یہ دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کر رہے تھے کہ ان کے زیر کفالت افراد کیا کاروبار کر رہے ہیں۔ آیا وہ قانوناً درست ہے یا ممنوع ہے ۔ وہ کتنا کما رہے ہیں۔ کیسے کمارہے ہیں ؟ عام سعودی شہری اس چکر میں پڑنے کے بجائے صرف اس بات میں دلچسپی لے رہے تھے کہ انہیں مطلوبہ رقم مل رہی ہے اور ملتی رہے ۔ حکومت نے نئی فیس عائد کر کے اس قسم کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جو غیر ملکی کارکن معمولی درجہ کے کام کر رہے تھے یا اوسط درجے کی سرگرمیوں سے جڑے ہوئے تھے ، وہ نئی فیسوں کے زیر اثر مملکت کو خیر باد کہیں گے اور ان کی جگہ سعودی شہری وہ کام بآسانی انجام دے سکیںگے۔ یہ درست ہے کہ سعودی حکومت نے لیبر مارکٹ کے ڈھانچے کو سعودائزیشن کے حوالے سے موزوں بنانے کیلئے قاعدے ضوابط مقرر کئے اور مارکٹ سے ضرورت سے زیادہ کارکنان کو نکالنے کی کامیاب اسکیمیں نافذکیں ، البتہ زمینی منظر نامہ یہ بتا رہا ہے کہ عام صارفین اس حکمت عملی کے منفی نتائج برداشت کریں گے ۔ وجہ یہ ہے کہ وزارت تجارت و سرمایہ کاری اور میونسپلٹیوں کی جانب سے بعض پیشوں کی خدمات کی اجرت مقرر نہ ہونے کے باعث کارکن محنتانے بڑھا رہے ہیں۔ تحفظ صارفین انجمن کی جانب سے کارکنان کی نگرانی مطلوبہ شکل میں نہیں ہورہی ہے ۔ اس بات کا کوئی اہتمام نہیں کیا جارہا ہے کہ کارکن مقررہ محنتانے کے مطابق کام کر رہے ہیں یا اسے نظر اندازہ کئے ہوئے ہیں ۔

جیسا کہ ہم نے ابتداء میں بتایا کہ خارجی باشندوں کا یہاں سے نکالا جانا کوئی ناانصافی نہیں ہے ۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ ہر عمل کے منفی اور مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ اچانک لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکیوں کے چلے جانے سے کاروباری میدان میں ایک قسم کا ٹھہراؤ آگیا یا کم از کم بازار کی سرگرمیوں میں یکلخت سرد مہری آگئی ۔ جیسا کہ اوپر عرب کالم نگار نے بتایا کہ کئی خارجی باشندے مقامی افراد کے نام سے اپنا کاروبار چلا رہے تھے جس میں سعودی باشندے ایک غیردخیل شریک (Sleeping Partner) کی حیثیت میں تھے ۔ خارجی باشندوں کے یہ کاروبار چھوٹے سے لیکر بڑے پیمانے تک کے تھے ۔ جب لیبر قوانین نے ان کے اطراف گھیرا تنگ کیا اور ملازمین کے اقامہ وغیرہ کی فیسوں میں اضافہ ہوا تو مقامی باشندوں کے نام سے کاروبار چلانے والوں نے محسوس کیا کہ اب یہاں کاروبار جاری رکھنا سود مند نہیں رہا ۔ بہت سے کاروبار بند ہوگئے ۔ خارجی باشندوں کے کاروبار میں جہاں سینکڑوں ملازمین تھے ، ان میں کچھ تعداد مقامی باشندوں کی بھی ہوا کرتی تھی ۔ اب جبکہ کاروبار ہی بند ہوگئے تو خارجی اور مقامی دونوں کی ملازمت جاتی رہی ۔ مقامی باشندے جو ان کے کفیل ہوا کرتے تھے ، میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو اس کاروبار کو فوری طور پر خود سنبھالنے کے موقف میں نہیں۔ 100 فیصد یا بڑی تعداد میں مقامی باشندوں کو ملازم رکھ کر کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اس میں نہ صرف خارجی اور مقامی باشندوں کا نقصان ہوا جوان خارجی باشندوں کے کاروبار میں ملازمت کرتے تھے ۔ کاروبار کے بند ہونے سے ان سعودیوں کا نقصان بھی ہوا جو خارجی باشندوں سے اپنی کفالت کے عوض ایک مقررہ رقم یا منافع میں حصہ لیتے تھے ۔ وہ سعودی جو خود کاروبار چلاتے ہیں، وہ اب خارجی ملازمین پرفیسوں میں اضافہ سے ان کا منافع گھٹ گیا ۔ یہ نقصان اتنا زیادہ ہے کہ سعودی مالکان اپنے کاروبار کو جاری رکھنے میں دلچسپی کھو رہے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ حالات بدلیں گے ۔ وقت کا پہیہ پھر گھومے گا ۔پھر اچھے دن واپس آئیں گے کیونکہ عربی میڈیا میں اور عرب کمیونٹی میں اس تعلق سے کافی اظہار خیال ہورہا ہے۔
knwasif@yahoo.com