ممتاز مفسر قرآن مولانا فراہی اور حیدرآباد

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
ریاست حیدرآباد کے آخری حکمران نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کے عہد میں مولانا جمیل الدین فراہی کی خدمات ، مشہور درس گاہ دارالعلوم کے لئے بیرون ریاست سے حاصل کی گئی تھیں ، جہاں وہ 1914 تا 1919 پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے ۔ ریاست حیدرآباد طویل عرصے تک ان کی خدمات سے استفادہ نہ کرسکی کیونکہ بعض ناگزیر وجوہ کی بنا پر وہ استعفی دے کر اعظم گڑھ واپس ہوگئے ۔ مولانا فراہی کی شخصیت اور علمی کارناموں کے سرسری مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت ریاست حیدرآباد نے کیسی قابل ، نادر اور انوکھی شخصیت کی خدمات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ مولانا فراہی علوم قرآنی میں بلند پایہ تحقیقی کاوشوں کے سبب عالم اسلام میں منفرد اور ممتاز مفسر قرآن مانے جاتے ہیں ۔ ملک کے سرکردہ علماء نے ان کی علمیت ، وسعت نظر ، تحقیق و تدقیق ، اعلی صلاحیتوں اور کارناموں کو دل کھول کر سراہا ہے ۔ قرآن مجید کی عربی تفسیر ’’تفسیر نظم القرآن‘‘ تحقیق کا ایک نادر نمونہ اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔ مولانا کا عقیدہ تھا کہ پورا قرآن ایک مرتب و منظم کلام ہے اور ساری آیات ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں ۔

مولانا فراہی مولانا شبلی کے ماموں زاد بھائی تھے ۔ وہ مولانا شبلی سے چھ سال چھوٹے اور ان کے شاگرد تھے ۔ مولانا فراہی کی ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے مولانا شبلی ان کو بہت عزیز رکھتے تھے ۔ مولانا شبلی جیسے متبحر عالم کے پاس مولانا فراہی کی جو قدر و منزلت تھی اس سے مولانا فراہی کے علمی مرتبے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ مولانا سلیمان ندوی ’’حیات شبلی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مولانا شبلی ، مولانا فراہی کو ’’ہر بات میں اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے ۔ کابل سے ابن خلدون کے ترجمے کی تحریک آئی تو مولانا شبلی نے انہیں کا نام پیش کیا ، علی گڑھ کی عربی پروفیسری کے لئے نواب محسن الملک نے لکھا تو انہیں کے لئے کوشش کی اور وہ اسی کوشش سے وہاں پروفسیر مقرر ہوئے ۔ دارالعلوم حیدرآباد کی پرنسپلی کے لئے مولانا شبلی کا انتخاب ہوا تو انہوں نے یہ جگہ مولانا فراہی کو دلادی ۔ مولانا شبلی ان کی فارسی سخن سنجی ، نکتہ آفرینی اور آخر میں ان کی قرآن فہمی کے بے حد معترف تھے ، مسائل کی تحقیق میں ان سے مشورے کرتے تھے ، ان کے فارسی کلام کی نسبت کہتے تھے کہ یہ زبان ہے ، ان کی مذہبی و علمی ، عملی شیفتگی اور پابندی کی بنا پر ان کو درویش کہتے تھے اور تھے وہ ایسے ہی‘‘ (’’حیات شبلی‘‘ ۔ دارالمصنفین شبلی اکیڈیمی ، اعظم گڑھ ، 1993، ص 781)

عربی و فارسی اور دینی علوم کی تحصیل کے بعد مولانا فراہی نے انگریزی تعلیم کے لئے علی گڑھ کالج میں داخلہ لیا ۔ اس وقت انہیںاپنی کم عمری میں عربی و فارسی میں جو مہارت حاصل تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے جسے محمد عنایت اللہ نے اپنی کتاب ’’علامہ حمید الدین فراہی‘‘ میں بیان کیا ہے ۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ سرسید نے مولانا فراہی کے لئے انگریز پرنسپل کو سفارشی خط لکھا جس میں انہوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ میں آپ کے پاس ایسا لڑکا بھیج رہا ہوں جو عربی و فارسی میں اتنا حاوی ہے کہ یہاں کے طلبہ تو کیا پروفیسروں میں بھی کوئی اس کی ٹکر کا نہیں ۔ اس زمانے میں کالج کے پروفیسروں میں شبلی نعمانی جیسے زبان کے ماہر اور جید عالم شامل تھے ۔ انگریز پرنسپل کو سرسید کی یہ بات ناگوار گزری اور اس نے شبلی کو خط دکھاتے ہوئے کہا کہ سرسید نے ایک طالب علم کے بارے میں یہ بات لکھ دی ہے کہ یہاں کے عربی و فارسی کے پروفیسر ایک کم عمر طالب علم کے برابر بھی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ کیا یہ آپ جیسے اساطین علم کی توہین نہیں ۔ شبلی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بلاشبہ آپ لوگوں کے لئے یہ بات توہین کی ہوسکتی ہے لیکن میرے لئے تویہ باعث فخر ہے ۔ سرسید کے یہ ممدوح عربی و فارسی دونوں زبانوں میں میرے شاگر دہیں ۔

مولوی عنایت اللہ مزید لکھتے ہیں کہ سرسید نے مولانا فراہی کی طالب علمی کے زمانے میں طبقات ابن سعد سے سیرت نبویؐ کا کچھ حصہ فارسی میں ترجمہ کروایا ۔ ترجمہ عمدہ تھا سرسید نے اسے بہت پسند کیا اور کالج کے نصاب میں شامل کردیا ۔ ان ہی دنوں سرسید امام غزالی کا کوئی قلمی رسالہ شائع کرنے کا ارادہ کررہے تھے ۔ زیر ترتیب نسخہ نہایت کرم خوردہ تھا ۔ سرسید روزانہ کچھ دیر مولانا شبلی اور مولانا حالی کو ساتھ لے کر بیٹھتے ، مختلف نسخوں سے اس کا تقابل کرتے اور کرم خوردہ الفاظ اور عبارتوں کا تعین کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ چونکہ یہ کام مشکل تھا اس لئے کام کی رفتار بہت سست تھی ۔ ایک روز مولانا شبلی نے سرسید سے کہا ’’یہ کام حمید کو دے دیجئے وہ کردیں گے‘‘ ۔ سرسید کو سخت حیرت ہوئی کہ وہ کام وہ مولانا شبلی اور مولانا حالی کی مدد سے نہیں کرپارہے ہیں وہ ایک طالب علم کس طرح کرپائے گا ۔ چونکہ مولانا شبلی نے مشورہ دیا تھا اس لئے سرسید نے وہ نسخہ مولانا فراہی کے حوالے کردیا جنہوں نے اس کا مطالعہ کرکے مختلف مقامات پر مناسب عبارتیں لکھ دیں ۔ جب انہوں نے یہ نسخہ سرسید کو واپس کیا تو انہوں نے نئے دستیاب شدہ نسخوں سے تقابل کرکے دیکھا ۔ سرسید سخت حیران ہوئے جب انہوں نے دیکھا کہ مولانا فراہی کے لکھے گئے الفاظ یا عبارتیں یا تو دوسرے نسخوں کے مطابق ہیں یا ان سے قریب ہیں ۔ سید مولانا فراہی کی علمی لیاقت سے بہت متاثر ہوئے اور پوچھا کہ کن باتوں نے الفاظ اور عبارتوں کے تعین میں ان کی مدد کی ۔ مولانا نے جواب دیا ’’امام غزالی کا اسلوب بیان اور سیاق کلام‘‘۔

مولانا فراہی نے 1892 ء کے آس پاس الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ وہ 1898 ء میں کراچی کی مشہور درسگاہ مدرستہ الاسلام میں عربی کے مدرس مقرر ہوئے جہاں انہوں نے تقریباً آٹھ برس تک کام کیا ۔ وہ عربی کے مددگار پروفسیر کی حیثیت سے 1906 میں علی گڑھ کالج میں رجوع ہوئے ۔ وہ علی گڑھ میں صرف دو برس رہے ۔ بعد ازاں 1908 ء میں ان کا تقرر الہ آباد کے میور سنٹرل کالج میں عربی کے پروفیسر کے طور پر ہوا ۔ کالجوں میں ملازمت کے دوران اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے بعد وہ اپنا بقیہ وقت تحقیق ، تالیف اور تصنیف میں صرف کرتے تھے ۔میور کالج الہ آباد سے 1914 ء میں ان کی خدمات حکومت ریاست حیدرآباد کو تفویض کی گئیں ۔ ان کا حیدرآباد میں دارالعلوم کے پرنسپل کی حیثیت سے ابتداء میں تین سال کیلئے تقرر ہوا ۔ اس مدت کے ختم پر انہیں تین تین سال کی توسیع دی گئی لیکن وہ اس مدت کے ختم ہونے سے قبل ہی ملازمت سے مستعفی ہوگئے ۔

مولانا فراہی کو حیدرآباد طلب کرنے ، ان کا تقرر ، توسیع ملازمت اور استعفی کی منظوری کے سلسلے میں جو سرکاری کارروائی ہوئی تھی اس کا خلاصہ درج ذیل ہے ۔ یہ خلاصہ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ سے حاصل کردہ مواد پر مبنی ہے ۔

حکومت ریاست حیدرآباد کے رزیڈنٹ کے نام مراسلہ نمبر 809 مورخہ 7 اپریل 1914ء میں یہ تجویز روانہ کی کہ مولوی حمید الدین کی خدمات جومیور سنٹرل کالج ، الہ آباد میں عربی کے پروفیسر ہیں دارالعلوم کے پرنسپل کی حیثیت سے 500 تا 1000 روپے کے گریڈ میں تین سال کے لئے مستعار دی جائیں ۔ اس تجویز کو منظور کرلئے جانے کے بعد حکومت اترپردیش کے اطلاع نامہ مورخہ 6 جون 1914ء کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ مولوی حمید الدین کی خدمات تین سال کے لئے پرنسپل دارالعلوم کی حیثیت سے حکومت ریاست حیدرآباد کے تفویض کی گئی ہیں ۔ مولوی حمید الدین فراہی کے تقرر کی کارروائی تکمیل پانے کے بعد وہ 20 جون 1914 کو پرنسپل دارالعلوم کے عہدے پر رجوع ہوئے ۔

جب مولوی حمید الدین کی تین سالہ مدت قریب الختم تھی تو مدت ملازمت میں توسیع کے لئے وزیر فینانس کی جانب سے ایک عرضداشت مورخہ 29 جمادی الاول 1335 ء م 24 مارچ 1917 ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئی جس میں لکھا گیا کہ مولوی حمید الدین کی مدت ملازمت ماہ امرداد 1326 ف کو ختم ہونے والی ہے ۔ ناظم تعلیمات نے دارالعلوم کے لئے ابھی ان کی سخت ضرورت ظاہر کی ہے جس پر معتمد اور وزیر تعلیمات نے ان کی ملازمت میں توسیع کی تحریک پیش کی ہے ۔ وزیر فینانس نے اس تحریک سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ مولوی حمید الدین کو مزید تین سال تک بدستور مامور رہنے کی منظوری دی جائے ۔ اس عرضداشت پر آصف سابع نے حکم مورخہ 4 جمادی الثانی 1335ھ م 28 مارچ 1917 ء کے ذریعے مولوی حمید الدین کی مدت ملازمت میں تین سال کی منظوری صادر کی ۔ مولوی حمید الدین سہ سالہ توسیع شدہ مدت کے مکمل ہونے تک اپنے عہدے پر فائز نہیں رہے ۔ انہوں نے ڈھائی سال کی تکمیل سے قبل ہی اس بنیاد پر استعفی پیش کردیا کہ حیدرآباد کی آب و ہوا ان کے لئے ناموافق ہے اور انہیں چند اہم اور ضروری علمی کام انجام دینے ہیں ۔

جب ان کے استعفی کی منظوری کے لئے عرضداشت آصف سابع کے پاس پیش ہوئی تو انہوں نے حکم مورخہ 10 ذی قعدہ 1337ھ م 7 اگست 1919 ء کے ذریعے مولوی حمید الدین کے استعفی کو منظور کرکے لکھا کہ ان کی جگہ دارالعلوم کی پرنسپلی کے لئے دو چار نام صدر الصدور سے مشورہ کے بعد منظوری کے لئے پیش کئے جائیں ۔ فرمان کی تعمیل میں مولوی حمید الدین کے استعفی کی منظوری کے احکام صادر کردئے گئے چونکہ فرمان میں دارالعلوم کے پرنسپل کے عہدے کے لئے دو چار نام پیش کرکے منظوری حاصل کرنے کے لئے کہا گیا تھا ۔ اسی لئے عرضداشت مورخہ 29 ذی الحجہ 1337 ھ 26 سپٹمبر 1919ء کے ذریعے آصف سابع کی خدمت میں اطلاع دی گئی کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ فنون میں دارالعلوم کالج کے اکثر اساتذہ منتقل ہوچکے ہیں اور شعبہ دینیات میں (جس کی اسکیم بغرض منظوری دفتر فینانس بھیجی گئی ہے) دوسرے اساتذہ بھی منتقل ہوجائیں گے اور یہ دونوں شعبے عثمانیہ یونیورسٹی کے پرنسپل کی نگرانی میں رہیں گے اس لئے دارالعلوم کالج میں پرنسپل کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے ، ان حالات کے پیش نظر دارالعلوم کے پرنسپل کے عہدے کو معمور کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

حیدرآباد کی ملازمت سے مستعفی ہونے پر مولانا کی ملازمت کا سلسلہ ختم ہوگیا کیونکہ وہ میور سنٹرل کالج الہ آباد میں دوبارہ رجوع خدمت نہیں ہوئے ، بلکہ اعظم گڑھ چلے گئے ۔ اس کے بعد تادم مرگ ان کی ساری توجہ مدرسہ اصلاح العلوم اور دارالمصنفین کی جانب مرکوز رہی ۔
مولانا فراہی کے اس دار فانی سے رخصت ہونے پر مولانا سلیمان ندوی نے اپنے مضمون ’’آہ مولانا حمید الدین‘‘ مشمولہ یاد رفتگان میں انہیں موثر اور عقیدت مندانہ انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ۔ وہ لکھتے ہیں ۔

’’… اس عہد کا ابن تیمیہ 11 نومبر 1930 کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا ،وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں ، جس کی مشرقی و مغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی ، عربی کا فاضل یگانہ ، انگریزی کا گریجویٹ ، زہد و ورع کی تصویر ، فضل و کمال کا مجسمہ ، فارسی کا بلبل شیراز ، عربی کا سوق عکاظ ، ایک شخصیت مفرد لیکن ایک جہاں دانش ! ایک دنیائے معروفت ، ایک کائنات علم ، ایک گوشہ نشین مجمع کمال ، ایک بے نوا سلطان ہنر، علوم ادبیہ کا یگانہ ، علوم عربی کا خزانہ ، علوم عقلیہ کا ناقد ، علوم دینیہ کا ماہر ، علوم القرآن کا واقف اسرار ، قرآن پاک کا دانائے رموز اور دنیا کی دولت سے بے نیاز ، اہل دنیا سے مستغنی ، انسانوں کے رد و قبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پرواہ ، گوشہ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ ، وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن پاک اور صرف قرآن پاک کے فہم و تدبر اور درس و تعلیم میں محو ، ہر شئے سے بیگانہ اور ہر شغل سے ناآشنا تھی ، افسوس کہ ان کا علم ، ان کے سینہ سے سفینہ میں بہت کم منتقل ہوسکا‘‘ ۔
مولانا فراہی کے قریبی رفیقوں اور نیاز مندوں نے حیدرآباد کے قیام کے دوران مولانا کی علمی مصروفیات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس سے بڑی بیش قیمت معلومات حاصل ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے چند نمایاں پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔

مولانا عبدالماجد دریابادی مضمون ’’مولانا فراہی‘‘ میں جو ان کی کتاب معاصرین میں شامل ہے لکھتے ہیں ’’1917 یا 1918ء میں حیدرآباد میں مہینوں ان کا ساتھ رہا ، ہر مسئلے میں عجب عجب نکتہ آفرینیاں کرتے ، عثمانیہ یونیورسٹی کی بنیادیں پڑرہی تھیں ، مجلس وضع مصطلحات میں شریک رہتے اور بحث و مباحثے میں اچھا خاصہ حصہ لیتے‘‘ ۔
مولانا سلیمان ندوی نے اپنے مضمون ’’آہ مولانا حمید الدین‘‘ جس کا اوپر حوالہ آچکا ہے قیام حیدرآباد کے دوران مولانا فراہی کی مصروفیات کے بارے میں حسب ذیل اہم معلومات فراہم کی ہیں ۔
نواب عماد الملک نے مولانا شبلی کی فرمائش پر قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ کا جو کام شروع کیا تھا وہ نصف کے قریب انجام پاچکا تھا مگر اس میں جا بجا نقائص تھے ۔ عماد الملک نے مولانا حمید الدین کی حیدرآباد میں موجودگی سے فائدہ اٹھایا ۔ مدت تک مولانا روزانہ صبح کو عماد الملک کے یہاں جاتے اور عمادالملک پر ضعف وپیری کے باوجود مولانا کے ساتھ انگریزی ترجمہ میں مل کر غور کرتے اور مناسب مشورہ ملنے پر اصلاح و ترمیم کرتے ، اس طرح ان کے ترجمے کے کئی پاروں پر نظر ثانی ہوئی ۔ مولانا نے حیدرآباد کے قیام کے دوران خردنامہ یعنی مواعظ سلیمانی کی تکمیل کرکے چھپوائی ، پھر اسباق النحو کے نام سے عربی صرف و نحو کے سہل انداز میں نئے اصول پر اردو میں دو رسالے مرتب کئے جنہیں انجمن ترقی اردو نے شائع کیا ۔ اپنے استاد ادب مولانا فیض الحسن کا عربی دیوان تصحیح کرکے چھپوایا ۔ الرائی الصحیح تصنیف کی اور تفسیر کے بعض مقدمات لکھے ، اسی کے ساتھ درس قرآن کا ایک حلقہ قائم کیا ، مغرب کے بعد یہ مجلس جمع ہوتی تھی مولانا تقریر فرماتے تھے ، لوگ شکوک پیش کرتے تھے وہ جواب دیتے تھے ، تھوڑی دیر کے بعد مجلس ختم ہوجاتی تھی ۔

مولانا مناظر احسن گیلانی جو اس وقت جامعہ عثمانیہ میں پروفیسر تھے ۔ وہ اس مجلس کے خاص لوگوں میں تھے ، ایک دو دفعہ انہیں (مولانا سلیمان ندوی) بھی شرکت کا اتفاق ہوا ۔ کبھی کبھی مولوی وحید الدین سلیم بھی اس میں شریک ہوتے تھے ۔ مولانا فراہی فطرتاً نہایت تنہائی پسند ، گوشہ نشین اور بڑے لوگوں سے ملنے جلنے سے عمداً بہت بچتے تھے اس لئے حیدرآباد جا کر بھی جو ایک عالم کا مرکز اور خوش قسمتیوں کا عجائب خانہ ہے ، ان کی حالت میں کوئی تغیر نہیں ہوا ، سوائے اپنے حلقے کے خاص لوگوں کے ، جن سے ان کو اتحاد ذوق تھا اور کہیں آتے جاتے نہیں تھے ۔ مولانا فراہی نے حیدرآباد میں عصری علوم و فنون کی اردو زبان میں تعلیم کی تجویز پیش کی اور اس کا خاکہ تیار کیا ۔ ان کی تجویز تھی کہ دینیات کی تعلیم عربی میں ہو اور باقی تمام علوم یہاں تک کہ اصول و فقہ بھی اردو میں پڑھائے جائیں ۔ لیکن سرراس مسعود اور اکبر حیدری نے ان کی یہ تجویز کہ علوم کی تدریس کی زبان اردو ہو قبول کی مگر یہ تجویز کہ تمام طلبہ کو دینیات کی عربی تعلیم دی جائے قبول نہیں کی اور یہی درحقیقت حیدرآباد سے ان کی دل برداشتگی کا سبب ہوا ۔ مولانا سلیمان ندوی نے یہ بھی لکھا کہ گو ظاہری سبب یہ بھی تھا کہ حیدرآباد کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی ۔ ان کے دردسر کی عارضی بیماری نے دائمی صورت اختیار کرلی تھی ۔ اس درد کے دورہ سے وہ بے چین ہوجاتے تھے اور پھر کسی کام کے قابل نہیں رہتے تھے ۔ مولانا فراہی نے اپنی ملازمت سے استعفی پیش کرنے کی ایک وجہ یہ بتائی تھی کہ حیدرآباد کی آب و ہوا ان کے لئے موافق نہیں ہے جس کا تذکرہ اوپر آچکا ہے ۔

مولانا شبلی نے 1908 ء میں دارالعلوم کے لئے ایک اسکیم مرتب کی تھی جو انہوں نے اسی زمانے میں الندوہ میں شائع کردی تھی ۔ اس اسکیم پر مدتوں بحث ومباحثے کا سلسلہ جاری رہا ۔ دارالعلوم کو اسی اسکیم کے تحت چلانے کے لئے مولانا فراہی حیدرآباد بلائے گئے تھے ۔ مولانا فراہی نے حیدرآباد آنے پر دارالعلوم کی اصلاح و ترقی اور نئے نصاب کے سلسلے میں مفصل اسکیمیں تیار کی تھیں ۔ ان اسکیموں کے بارے میں دو مختلف نقاط نظر پائے جاتے ہیں ۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ مولانا فراہی کی اسکیموں سے عثمانیہ یونیورسٹی کی تشکیل میں مکمل یا جزوی استفادہ کیا گیا تھا اور دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ اسکیمیں عثمانیہ یونیورسٹی کے تخیل سے میل نہیں کھاتی تھیں ۔ اس لئے ان سے استفادہ نہیں کیا گیا ۔ درحقیقت یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے ۔ مستند ماخذات سے ضروری مواد دستیاب ہونے پر ہی اس بارے میں ایک اچھا تحقیقی مضمون قلم بند کیا جاسکتا ہے ۔