سعید حسین
v تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دوں گا۔
v نیتاجی نے سب سے پہلے گاندھی جی کو راشٹر پتا کہہ کر مخاطب کیا۔
v نیتا جی نے اکتوبر 1943ء میں آزاد ہند فوج بنائی اور وہی اس فوج کے سربراہ تھے۔
v 1956ء میں برٹش پرائم منسٹر کلمنٹ ایٹلی Independence of India Act کے دستاویز پر دستخط کرنے کیلئے جب کلکتہ آئے تو اس وقت اسٹیٹ گورنر چکرورتی نے ان سے پوچھا کہ 1942ء میں گاندھی جی کی Quit Indiaتحریک دم توڑ چکی تھی پھر آپ نے ہندوستان میں اپنے اقتدار کو خیرباد کرکے انگلینڈ کی راہ کیوں لی، تب ایٹلی نے کہا ہم نے نیتاجی کی انڈین نیشنل آرمی سے تنگ آکر ہندوستان چھوڑا ہے۔
مجاہدین آزادی کی فہرست بڑی طویل ہے۔ انگریزوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہر ہندوستانی نے اپنے طور پر اپنی قوت اور استطاعت کے مطابق جنگ آزادی میں اپنی خدمات پیش کیں۔ ان میں سے ایک بہت ہی معتبر نام ممتاز مجاہد آزادی سبھاش چندر بوس کا بھی ہے۔میانمار میں اپنے قیام کے دوران سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج بنائی۔ فوج کے اخراجات کے لئے انہوں نے میانمار میں چندے کی اپیل کے لئے ایک جلسہ منعقد کیا۔ بہت سے محب وطن ہندوستانی اس جلسہ میں شریک تھے۔
ایک میمن مسلمان یوسف مارفانی نے آزادی کی جنگ میں دوسرا سب سے بڑا چندہ سبھاش چندر بوس کو سوا کروڑ کا چیک دیا۔ اتنے میں سبھاش چندر بوس دیکھتے ہیں کہ ایک بوڑھی خاتون کے آنکھ سے آنسو جاری ہیں۔ اُس خاتون کو روتا ہوا دیکھ کر سبھاش چندر بوس اُس بڑھیا سے پوچھتے ہیں۔ اے ماں آپ کیوں رو رہی ہیں۔ بوڈھیا نے کہا میں ایک غریب عورت ہوں دولت مند ہوتی تو میں بھی اس سے بڑا چندہ دیتی۔ بڑھیا کے ساتھ ایک خوبرو نوجوان لڑکا جس کی عمر لگ بھگ 20 سال بھی، بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ لڑکا کون ہے؟ بوڑھیا نے کہا یہ میرا لڑکا ہے۔ بوس نے کہا کہ آپ یہ لڑکا آزاد ہند فوج کے لئے دے دیں تو یہ لڑکا آزاد ہند فوج کے لئے سوا کروڑ سے زیادہ کا ہوگا۔ چنانچہ بوڑھیا نے کہا میں بوڑھی ہوں اس عمر میں یہ لڑکا میری آخری عمر کا سہارا ہے۔ لیکن میں اپنے ملک کی سلامتی کے لئے میرا لڑکا فوج کے لئے دان کرتی ہوں آپ قبول کرلیں۔
اس طرح لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دے کر ہندوستانیوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا۔
جوں ہی اس بڑھیا نے اپنے لڑکے کو آزاد ہند کو دینے کا اعلان کیا،اُس وقت سبھاش چندر بوس نے اُس بوڈھیا کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر لے آئے اور جلسہ گاہ میں یہ اعلان کیا کہ اگر کسی کی یہ خواہش ہے کہ وہ بھارت ماتا کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس بوڈھیا کو دیکھ لے ، یہی ہے بھارت ماتا جس نے اپنی زندگی کا انمول رتن آزاد ہند فوج کے لئے دان کردیا۔ ہمیں چاہئے کہ تاریخ کے یہ واقعات اپنے بچوں کو پڑھائیں انہیں یاد دلائیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ہمارے اباء و اجداد نے ملک کو آزاد کروانے کے لئے کیسی کیسی قربانیاں دی ہیں۔
جنگ آزادی کی تاریخ میں ایک دوسرا نام ہے عمر سبحانی جن کی کپڑے کی ملیں تھیں، انہوں نے ایک سادہ چیک پر اپنی دستخط کرکے گاندھی جی کو دیا۔ اور کہا کہ اس وقت میرے اکاؤنٹ میں ساڑھے چار کروڑ روپئے جمع ہیں آپ جتنی رقم اس میں لکھنا چاہتے ہیں لکھ لیجئے۔ جنگ آزادی کیلئے میری جانب سے یہ چندہ ہے۔ چیک دیکھ کر گاندھی جی عمر سبحانی کی طرف حیرت اور تعجب سے دیکھنے لگے اور کہا کہ ہمارے کارکن آج سے چرخے کے ذریعہ جتنا بھی سوت کاٹیں گے وہ آپ کی مل کو ہی فروخت کریں گے۔ انگریزوں کو نہیں کیونکہ اس زمانے میں انگریز تاجر ہندوستان کا کاٹن خرید کر برطانیہ کو روانہ کرتے تھے۔ اس کاروبار سے جتنی آمدنی ہوتی تھی وہ کانگریس کے کام آتی تھی۔ عمر سبحانی نے آزادی کی لڑائی میں سب سے بڑا چندہ دیا۔لیکن مذکورہ 2 حضرات سے زیادہ ہندوستان کے برے وقت میں دنیا کا سب سے بڑا چندہ دینے والے جن کا نام World Record میں سرفہرست ہے وہ شخصیت آصف جاہ سابع ہردلعزیز حکمران نواب میر عثمان علی خان بہادر کا ہے۔ 1965 میں جب چین نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا اُس وقت ہندوستان معاشی طور پر بہت کمزور تھا۔ جنگی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے حکومت ہند کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ جنگی اخراجات کو پورا کرسکتے، اس وقت لال بہادر شاستری نے ہندوستان کے ہر شہری سے اپیل کی کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق ان برے حالات میں چندہ دیں۔ حضور نظام میر عثمان علی خان نے جب ریڈیو پر لال بہادر شاستری کی تقریر سنی فوراً حضور نظام کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اس وقت میں اپنے ملک کے لئے کچھ قربانی دوں تو یہ ہندوستان کے لئے اورہندوستانی عوام کے لئے بہت اچھا اقدام ہوگا۔ چنانچہ اس وقت حضور نظام نے اپنی پیشی کے اسٹاف سے لال بہادر شاستری کو کال کروایا اور خود بات کرکے انہیں یہ پیغام دیا کہ آپ حیدرآباد آئیے میں ملک کے لئے کچھ دینا چاہتا ہوں جو میرے اور آپ کے شایان شان ہوگا دوسرے ہی دن لال بہادر شاستری بہ نفس نفیس حیدرآباد پہنچے اور حضور نظام سے کنگ کوٹھی میں ملاقات کی۔ خیرسگالی گفتگو کے بعد حضور نظام نے تقریباً 5000 کیلو یعنی 5 ٹن سونا جو صندوقوں میں بند تھا لال بہادر شاستری کو دیا یہ میرے ملک کے لئے میرے اور حیدرآبادی عوام کی جانب سے تحفہ قبول کیجئے۔
جب یہ خبر میڈیا اور اخبار والوں تک پہنچی تو دوسرے ہی دن نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کے اخبارات میں اس کار خیر کی خبر صفحہ اول پر جلی حروف میں شائع ہوگئی اور ساری دنیا کے امراء حکمران ،سربراہان مملکت انگشت بدندان ہوگئے کہ کیا یہ بھی ممکن ہے اور کہنے لگے کہ ایک معزول حکمران معزول ہونے کے باوجود اتنا بڑا چندہ ملک کو بچانے کے لئے دے سکتا ہے۔ تو وہ اپنے دور حکمرانی میں عوام کی بھلائی کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا۔
23؍فروری 1933کو سبھاش اپنے ضعیف والدین سے ملے بغیر یورپ کے لئے روانہ ہوئے۔ روانہ ہونے سے قبل انہیں صرف سرت چندر بوس اور چند دیگر رشتے داروں سے جیل میں ملنے دیا گیا۔ ان کے پاسپورٹ میں فرانس، سوئٹرز لینڈ، آسٹریا اور ڈنمارک کا سفر شامل تھا۔ انگلینڈ اور جرمنی کو بہ طور خاص الگ کیا گیا تھا۔
1934ء کی ایک مختصر مدت کے علاوہ مارچ 1933ء سے مارچ 1936ء تک سبھاش یورپ میں رہے۔یورپ میں انہوں نے اپنا وقت ہندوستانی انقلابیوں، یورپ کے اشتراکیت پسندوں اور ہندوستان کی آزادی سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے میں گزارا۔ انہوں نے یورپ کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور ’’ویاناViana‘‘ کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا۔ وہ اٹلی گئے اور مسولینی کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ مسولینی نے سبھاش چندر بوس کے جرمنی کے لئے ایک ویزا کا بندوبست کیا۔
اس وقت ایڈولف ہٹلر دنیا کے منظر نامے پر ابھرا۔ نازی پارٹی مضبوطی حاصل کررہی تھی۔ سبھاش نازی واد کی طبقاتی تفریق کے سخت مخالف تھے۔ لیکن انہوں نے اس کی جماعتی مضبوطی اور نظم و ضبط کی تعریف کی۔ انہوں نے اس پارٹی کے اہم اراکین سے رابطہ قائم کیا۔’’ویاناViana‘‘ میں انہوں نے وٹھل بھائی پٹیل سے ملاقات کی جنہوں نے گاندھی جی کی سول نافرمانی تحریک کے متعلق ان کے خیالات سے اتفاق کیا۔ وہ دونوں متفق ہوگئے کہ وقت آگیا ہے کہ ایک انقلابی محاذ قائم کیا جائے جس میں تشدد آمیز پروگرام زیادہ ہوں۔ نومبر 1934ء میں جب انہیں یہ علم ہوا کہ ان کے والدین سخت علیل ہیں تو سبھاش سرکاری اجازت کے بغیر ہندوستان واپس آگئے۔ وہ گرفتار کرلئے گئے اور ان کے اپنے گھر میں لے جاکر انہیں نظر بند کردیا گیا۔ وہ اپنے والد کو حیات نہیں دیکھ پائے لیکن ان کی آخری رسومات میں شرکت کی۔ جنوری1935ء میں انہیں یورپ واپس جانا پڑا۔
جب وہ نیپلس پہنچے تو انہیں ایک حیرت انگیز خوشی ہوئی۔ ان کی کتاب ’’ہندوستانی جدوجہد 1920-1934 شائع ہوچکی تھی۔
انہوں نے مزید 16 مہینے یورپ میں کام کرنے، پڑھنے اور سفر میں گزارے۔ انہوں نے جرمن، اٹالین، اور فرینچ زبانیں سیکھیں۔
1936ء میں لکھنؤ میں انڈین نیشنل کانگریس کی میٹنگ کے دوران جواہر لعل نہرو صدر منتخب کئے گئے۔ ویانا Viana میں کملا نہروکی علالت کے دوران ان دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے تعلقات گہرے ہوتے گئے۔ سبھاش، جواہر لعل نہرو سے متاثر ہوئے جو کانگریس کو بائیں محاذ اور کھلے ذہن کا حمایتی بنانا چاہتے تھے۔ وہ 27؍مارچ کو ہندوستان کے لئے روانہ ہوئے اور بمبئی میں ان کی آمد کے بعد ہی انہیں جیل بھیج دیا گیا۔
1936ء کا سال قومی تحریک کے لئے بہت اہم تھا۔ سبھاش انتخابات کی حمایت کررہے تھے تاکہ حکومت کے ساتھ 1935ء کے انڈیا ایکٹ کی روشنی میں اسمبلی کی سطح پر لڑائی جاری رکھی جائے۔ حکومت نے محسوس کیا کہ وہ خطرناک ہیں کیوں کہ وہ بائیں محاذ کی قوتوں کا رخ کانگریس کی جانب موڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا انہیں گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ جب چھ علاقوں میں کانگریس کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی جس میں کامیاب ہونے والے بیشتر امیدوار دائیں محاذ سے متعلق تھے، تو سرکار نے فیصلہ کیا کہ سبھاش کورہا کردیا جائے۔
آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس کلکتے میں ہونا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ چھ سال بعدشرکت کررہے تھے۔یہیں سے گاندھی جی اور سبھاش کے درمیان مفاہمت (دلوں کی صفائی) کی شروعات ہوئی، کیوں کہ سبھاش کو یقین تھا کہ 1938ء میں ہونے والے کانگریس اجلاس میں صدر بننے کے لئے گاندھی جی ان کی حمایت کریں گے۔ گاندھی جی نوجوانوں پر سبھاش کے اثرات اور واضح طور پر بیان کئے گئے اشتراکی نظریات اور انتہاء پسندی سے اچھی طرح واقف تھے۔ سبھاش کسانوں اور مزدوروں پر بھی زبردست اثرات قائم کررہے تھے۔سبھاش 1938ء میں ہندوستان واپس آئے۔ باہر رہنے کے باوجود وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب کئے گئے۔ کانگریس کا یہ اجلاس ہری پور 21؍فروری 1938ء میں منعقد ہوا تھا۔ وہ اقتدار میں آنے کے بعد کانگریس کے پہلے صدر تھے۔ یہ جشن کا اجلاس تھا۔ اجلاس کا سب سے اہم عنصر ان کے صدارتی کلمات تھے۔
آنے والے پروگراموں کے متعلق ان کا ذہن بالکل صاف تھا۔ ’’میرے ذہن میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے اہم قومی مسائل جو غریبی، جہالت اور بیماریوں سے متعلق ہیں، یہ سارے اور سائنسی پیداوار اور تقسیم کا نفاذ صرف اشتراکی بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔‘‘
انہوں نے گاندھی، نہرو اور دوسرے عظیم رہنماؤں کے ساتھ عالمی بصیرت کے متعلق تبادلہ ٔ خیال کیا۔ ’’ہماری جدوجہد صرف برطانوی تانا شاہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ عالمی تانا شاہی کے خلاف ہے۔ اس لئے نہ صرف ہم ہندوستان کی خاطر جنگ کررہے ہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے جنگ کررہے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کا مطلب ہوگا انسانیت کی بقاء۔‘‘
سبھاش کی زور دار تقریر میں ان کی اپنی خوبیاں شامل تھیں۔ یہ تقریر با مقصد اور منطقی تھی اور اس میں اشتراکی آزاد ہندوستان کی حمایت اجاگر کی گئی تھی۔ انہوں نے کانگریس صدر ہونے کا خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا اور تمام ملک کا دورہ کیا۔ انہوں نے جم غفیر سے خطاب کیا اور لاکھوں لوگوں سے رابطہ قائم کیا۔ گاندھی جی اور سبھاش کے درمیان اختلاف بڑھتا گیا اور اس نے تشویشناک صورتحال اختیار کرلی۔
مارچ 1939ء میں مدھیہ پردیش کے تروپتی علاقے میں منعقدہ کانگریس کے سالانہ اجلاس میں جب سبھاش کو دوسری مرتبہ صدر منتخب کیا گیا تو گاندھی جی کے ساتھ ان کا فیصلہ کن اختلاف سامنے آیا جس میں گاندھی جی نے آندھرا پردیش کے رہنما اور مورخ ڈاکٹر پٹابھی سیتارمیا کی حمایت کی تھی۔ جواہر لعل نہرواور مولانا ابوالکلام آزاد نے انتخاب کے لئے جدوجہد سے انکار کردیا تھا۔ سبھاش جیت گئے۔ انہوں نے ایک تنگ لیکن واضح کل ہند اکثریت حاصل کی۔ گاندھی جی نے سبھاش کی جیت پر کہا۔ ’’یہ میری شکست ہے۔‘‘ سارا ملک اس مسئلے سے دوچار ہوگیا کہ غالباً گاندھی جی قومی تحریک کو ترک کردیں گے۔ مخالفت کے باوجود سبھاش نے ہمیشہ گاندھی جی کو ہندوستان کا عظیم انسان تصور کیا وہ آزادی کا ایسا تصور رکھتے تھے جو کسی اور کے پاس نہیں تھا۔حالات کی ستم ظریفی ہے کہ سنگھ پریوار اچانک نیتا جی سبھاش چند بوس کا ہمدرد بن گیا ہے۔ ’’آئیکان‘‘ کی تلاش میں سرگرداں بھگواوادیوں نے آج کل ان کی تصویروں پر پھول چڑھانا شروع کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندووادیوں کو واقعی ان سے عقیدت ہے؟ کیا وہ نیتا جی کے نظریات کو مانتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر وہ واقعی نیتا جی کے نظریات میں یقین رکھتے ہیں تو پھر مندر کی سیاست کیوں کرتے ہیں؟ دھرم کی راج نیتی کیوں کرتے ہیں؟ مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کا کام کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ نیتا جی کی روح پر اس سے بڑا جبر کیا ہوگا۔جواہر لال نہرو اور سبھاش چندر بوس دونوں سیکولر، سوشلسٹ بھارت کا خواب دیکھتے تھے۔ دونوں، بھارت کو آزاد کرانے کی جنگ میں اہم کردار ادا کرتے تھے لیکن ان کے درمیان کچھ نظریاتی اختلافات بھی تھے۔ اس اختلاف کے باوجود سیکولرزم اور سماج وادپران کے بیچ کوئی اختلاف نہیں تھا۔
نیتاجی جہاں ایک طرف سامراجیت کے خلاف تھے، وہیں دوسری طرف ہندو مہا سبھا کے نظریات کے بھی مخالف تھے۔ انہوں نے بنگال میں ہندومہاسبھا کو لگام دینے پر زور دیا تھا جو یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ دنگے کرانے کی کوشش میں لگا تھا۔ وہ سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام سے بڑا خطرہ ہندوتوا کو مانتے تھے۔ نیتا جی نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا ۔’’مسلمان ہمارے دشمن ہیں اور انگریز ہمارے دوست ہیں، یہ ذہنیت میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘
نیتاجی نے بار بار مطالبہ کیا تھا کہ ملک کے تمام کمیونسٹ، سیکولر اور ڈیموکریٹک طاقتوں کا اتحاد بنا کر کانگریس، آزادی کا ہر اول دستہ بنائے اور ہندوتوا کی قیادت کے خلاف جم کر لوہا لیں۔ نیتاجی کا مانناتھا کہ مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے ملک تقسیم کرنے پر ہندووادی جماعتیں تلی ہیں اور کانگریس جان بوجھ کر ان قوتوں کی مددگار ہے۔ نیتا جی مانتے تھے کہ ہندوتوا سے ملک کا چپہ چپہ خطرے میں ہے جو آج بھی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ نیتاجی نے جو آزاد ہند فوج بنائی تھی وہ سیکولر خطوط پر بنائی گئی تھی اور اس میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔ ان کی ایک جانب کرنل ڈھلوں اور کرنل سہگل ہوتے تھے تو دوسری طرف جنرل شہنواز ہوتے تھے۔ اس خالص ہندوستانی فوج کا ہندوتوا سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔
اب غور کا مقام یہ ہے کہ ہندووادی کل تک نیتا جی کی پیٹھ میں خنجر اتاررہے تھے آج ان کی اولادانہیں ہندووادیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ نیتاجی کی روح کے لئے باعث تکلیف ہی نہیں بلکہ ہر نیشنلسٹ ہندوستانی کے لئے باعث عار ہے۔