ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر عبدالقدیر

سعید حسین
اللہ تعالی کے جو حقوق حضرت انسان کے ذمہ ہیں ان میں سب سے اہم حقوق اللہ اور حقوق العباد ہیں ۔ حقوق اللہ کا معاملہ خود اللہ اور بندے کے درمیان ہے لیکن حقوق العباد کے معاملے میں بڑی سخت گرفت ہے ۔ آج کل کے اس پرآشوب دور میں ہر شخص نفسا نفسی کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے ،لیکن کائنات کے رنگ و بو میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں ۔ اپنے درد کو پس پشت ڈال کر وہ ضرورت مند اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بننے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ انہی میں سے ایک کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب بیدر کرناٹک کا ہے جنھوں نے اپنے دکھ درد سے زیادہ عام انسان کے دکھ درد کو سمجھا ہے ۔ انھوں نے ایک عزم اور مصمم ارادہ اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کرناٹک بیدر میں ’’شاہین ایجوکیشن سوسائٹی‘‘ کے نام سے ایک کمرے میں 16 بچوں سے اسکول قائم کیا وہ بیج جو انھوں نے 1989 میں بویا تھا الحمدللہ وہ اب پھل پھول کر تناور اور ثمرآور درخت بن چکا ہے ۔ جس کی شاخوں پر مختلف ریاستوں کے طلبہ آکر نہ صرف حفظ قرآن کی تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ عصر حاضر کے تمام علوم جن میں انجینئرنگ اور طب کی تعلیم بھی ہے ، حاصل کررہے ہیں ۔
میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب سے تب سے واقف ہوں ، جب وہ مملکت سعودی عرب میں اپنے مختصر قیام کے بعد ایک منصوبہ بند عزم کے ساتھ ایک اسکول قائم کرنے کے ارادہ سے واپس جارہے تھے ۔ ان کے اس فیصلہ پر قریبی دوست احباب طنزیہ کلمات استعمال کرتے ہوئے کہنے لگے کہ غیر یقینی حالات میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ کے جانا دانشمندی کی بات نہیں ہے ۔ لیکن عبدالقدیر صاحب کواپنے ارادے اور منصوبے کی کامیابی پر پورا یقین تھا ۔

یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
یقین ، عمل اور مقصد لے کر انھوں نے اسکول کے قیام کا فیصلہ کرلیا جب یہ اس پر عمل پیرا ہوئے تو ان کے پاس صرف 16 طالب علم تھے ۔ اب چھبیس ہزار سے زیادہ طلبہ بہتر علم کے حصول میں یہاں منہمک ہیں ۔ مختصر مدت کے اندر ’’شاہین ایجوکیشن سوسائٹی‘‘ کے زیر سایہ اس وقت کئی ہائی اسکولس ، جونیئر و ڈگری کالجس کے علاوہ انجینئرنگ اور میڈیکل کالج بھی چلائے جارہے ہیں ۔ ان اداروں کے ساتھ مدرسہ حفظ القرآن بھی چلایا جارہا ہے ۔
ایک عرصہ کے بعد موصوف سے میری اس وقت ملاقات ہوئی جب یہ محمد عبدالقدیر سے ڈاکٹر عبدالقدیر بن گئے ۔ 2014 ء نومبر عمرہ اور زیارت مدینہ منورہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد قیام جدہ میں جناب علیم خاں فلکی کی دور بین نگاہوں نے قدیر صاحب کی جدہ میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سماجی تنظیم Socio Reform جس کے وہ بانی اور سربراہ بھی ہیں ، تہنیتی جلسہ کا انعقاد کیا ۔ فلکی صاحب نے اس تہنیتی تقریب میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے کارناموں سے شرکائے جلسہ کو واقف کروایا ۔ 2014 میں جدہ کی ایک اور فعال تنظیم ’’خاک طیبہ ٹرسٹ‘‘ کے علیم خاں فلکی ، اعجاز خاں اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے اعزاز میں ایک تہنیتی تقریب کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔ جس میں مہاراشٹرا کے ماہر تعلیم جناب مبارک کاپڑی اور حیدرآباد سے ڈاکٹر محمد آصف علی ، روبی چینل نے تعلیم اور اس کی افادیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ طلبہ کو چاہئے کہ رٹنے سے زیادہ سمجھ کر پڑھنے پر توجہ دیں ۔ ’’شاہین ایجوکیشن سوسائٹی‘‘ کی ڈائرکٹر آف اسٹڈیز محترمہ ڈاکٹر قمر سلطانہ ، خاص طور پر مدعو تھیں  ۔ انھوں نے کہا کہ طلبہ ملک کا مستقبل ہیں ، خاص طور پر ہمیں لڑکیوں کو خود مکتفی بنانے کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔ اگر ہماری بچیاں تعلیمیافتہ ہوں تو وہ کبھی بھی بے سہارا نہیں ہوسکتیں ۔ تعلیم سے معیار زندگی بلند اور اخلاق میں سدھار آسکتا ہے ۔ تعلیم یافتہ سماج عزت کی زندگی گزار سکتا ہے ۔
مبارک کاپڑی صاحب مشہور مبلغ دین جناب ذاکر نائک کے بہنوئی ہیں ۔ اور آپ بہترین ماہر تعلیم ہیں ۔ لگ بھگ تعلیم کے موضوع پر 3000 سے زیادہ لکچر ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے علاوہ بیرون ہند بھی تعلیمی لکچر دے چکے ہیں ۔ تعلیم کی افادیت پر کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ مبارک کاپڑی صاحب ڈاکٹر عبدالقدیر کے کام سے بہت زیادہ متاثر ہیں کیونکہ دونوں کا مشن مشترک ہے ۔ مبارک کاپڑی نے کرناٹک کے اضلاع اور دیہاتوں میں ’’تعلیمی بیداری‘‘ کے موضوع پر لکچر دیتے ہوئے شاہین گروپ کے کام کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے ۔

جو بیج بیدر میں محمود گاواں نے بویا تھا زمانے کے نشیب و فراز اور حکومتوں کی بے اعتنائی کی وجہ سے اپنی بے حسی اور لاچاری کا ثبوت دے رہا تھا  ۔محمود گاواں کے اس خواب کو ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے محنت کامل اور نیک نیتی سے ایک قدآور درخت میں تبدیل کردیا ۔ جس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر نے مدرسہ شروع کیا تھا اس وقت غیر سماجی عناصر مزاحمت کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دے رہے تھے لیکن وہ لوگوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ یہ میرا مشن انسانیت کی بھلائی کے لئے ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اس کام میں اللہ کا فضل اور عوام کی تائید مجھے حاصل رہے گی ۔
چنانچہ اس وقت ’’شاہین ایجوکیشن سوسائٹی‘‘ پر اولیائے طلباء کا اعتبار کافی مضبوط ہوچکا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہماری بچیاں گھر سے زیادہ ’’شاہین ایجوکیشن سوسائٹی‘‘ کے ہاسٹل میں محفوظ ہیں ۔ شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کے ذریعہ اب تک 500 ڈاکٹرس اور 2500 انجینئرس اپنی تعلیم مکمل کرکے مختلف ادارہ جات اور دواخانوں میں اپنی بہتر خدمات سے عوام کو فائدہ پہنچارہے ہیں ۔ شاہین گروپ کے کام کو دیکھتے ہوئے حکومت کرناٹک نے 2013 میں راج اتسو ایوارڈ سے نوازا اور 2014 میں گلبرگہ یونیورسٹی کے 33 ویں جلسہ کانوکیشن میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس شیوراج پاٹل صاحب کے ہاتھوں جناب عبدالقدیر کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا ۔ ہندو اخبار کے بہادر دیسائی نے شاہین ادارہ جات کے لئے کہا کہ محبت اور بھائی چارہ قائم کرنے میں شاہین ادارہ جات نے اہم رول ادا کیا ہے ۔
شاہین گروپ کے ادارہ جات کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ نوجوان حفاظ کرام جو اکثر دنیاوی تعلیم اور روزگار کے معاملہ میں پیچھے رہتے تھے ان کی رہنمائی اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں بڑا مثبت رول رہا ہے ۔ اس مقصد کے لئے ان کے پاس ایک جامع پروگرام ہے ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے 2015 میں شروع کئے گئے ویژن 2020 کے تحت 1000 ڈاکٹرس اور 5000 انجینئرس تیار کرنے کا منصوبہ پر بڑے ہی انہماک کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب شاہین گروپ آف ادارہ جات کرناٹک میں تعلیمی تحریک بن گیا ہے ۔