ملگیات بنک کو کرایہ پر دینا

سوال : ایک مسلمان شخص اپنا مکان اور ملگیات بنک کو کرائے پر دینا چاہتے ہیں۔ کیا بنک کو کرایہ پر دینا درست ہے ؟
محمد عبدالرحمن، عنبر پیٹ
جواب : مسلمان اپنی ملکیت غیرمسلم بنک کو کرایہ پر دے تو اس کے کرایہ کا حصول اور اس سے استفادہ اس کے لئے شرعاً جائز ہے ۔ ہدایہ کتاب الاجارۃ ص : 281 میں ہے (ویجوز استیجارالدور والحوانیت للسکنیٰ وان لم یبین مایعمل فیہ ولہ أن یعمل کل شئی) للا طلاق

بیرونی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال
سوال : ہماری محلہ کی مسجد میں شب برات کے موقع پر بیرونی لاوڈ اسپیکر سے تلاوت کی جاتی ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ میں تہجد کی نماز میں بھی بیرونی لاوڈ اسپیکر سے تلاوت کی جاتی ہے جس کی آواز سارے محلہ میں گونجتی ہے۔ کیا اس طرح سے تلاوت قرآن کرنا ٹھیک ہے، کیا یہ عظمت قرآن کے خلاف نہیں کیا یہ جائز ہیں ؟ اس طرح ہمارے مسلم معاشرہ میں یہ بات بہت بڑھتی جارہی ہے۔ زور زور سے اونچے ساؤنڈ کے لاوڈ اسپیکر لگادیتے ہیں۔ کوئی سننا چاہو یا نہ چاہو اس تک اپنی آواز کو پہنچاتے ہیں۔ پتہ نہیں اس لا علمی کا کیسے مداوا ہو۔
ایک ہمدرد
جواب : جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش رہنا اور پوری توجہ سے سننا لازم ہے۔ تلاوت قرآن مجید کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اس وقت ناگزیر ہے جبکہ حاضرین کو قرآن مجید پڑھنے والے کی فطری آواز نہ پہنچتی ہو۔ مسجد کے باہر کاروبار یا دیگر مصروفیات میں مشغول حضرات کو سنانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس سے قرآن مجید کی توہین و بے ادبی ہوتی ہے ۔ اس لئے ذمہ دار اصحاب کو چاہئے کہ مسجد کے بیرونی لاوڈ اسپیکر کا استعمال نماز تہجد اور تلاوت قرآن کے لئے نہ کریں ورنہ بیرون مسجد مشغول حضرات کی بے توجہی کے وہی ذمہ دار رہیں گے۔

ایک’’مد‘‘ کیلئے حاصل کی گئی رقم دوسرے مصرف میں خرچ کرنا
سوال : ہماری مسجد سے متصل زمین خریدنے کی غرض سے ایک فنڈ مختص کیا گیا اور علحدہ رسید مقرر کی گئی۔ بعض اصحاب سے کمیٹی کے ذمہ داران نے تقریباً دو لاکھ روپئے وصول کئے بعد ازاں مسجد کے ذمہ دار نے اس رقم میں سے کچھ مسجد کی تزئین پر صرف کرنا چاہا جس پر مسجد کے دوسرے رکن نے اعتراض کیا اور کہا کہ اس رقم کا استعمال اس مد کے علاوہ دوسرے میں صرف کرنا درست نہیں۔ اس پرانہوں نے کہا کہ اس مدسے تزئین پر جو رقم خرچ ہوگی اس کو میں ادا کردوں گا ۔ مخفی مبارکہ اس میں کی کچھ رقم عطیہ دہندگان کو واپس بھی کردی گئی اور کچھ رقم رکھ لی گئی تھی جس کو تزئین میں خرچ کرلیا گیا ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا حسبِ وعدہ ان پر اس رقم کی ادائی لازم ہے یا نہیںکیونکہ انہوں نے نیک کام ہی میں رقم خرچ کی ہے۔ مسجد کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں انہوں نے رقم خرچ نہیں مزید یہ کہ وہ ادا کرنے پر آمادہ بھی ہیں لیکن ہمیں شریعت کا حکم درکار ہے۔
محمد عبداللہ
جواب : بشرطِ صحت سوال صورتِ مسئول عنہا میں توسیع مسجد میں زمین کی خریدی کے مد میں حاصل کردہ رقم کو تزئین مسجد میں صرف کرنا درست نہیں ۔ خرچ کرنے والا ضامن ہے، ادا کرے۔ زمین کی خریدی نہ ممکن ہو تو اس غرض سے حاصل کردہ رقم عطیہ دہندگان کو واپس کی جائے یا پھر ان سے مسجد کے ضروریات میں صرف کرنے کی اجا زت لی جائے۔

نماز گاہ کا حکم
سوال : عرض خدمت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک کے مطابق ساری زمین آپ کے لئے مسجد بنادی گئی اور اسی بنیاد کے تحت امریکہ اور یوروپ کے ممالک میں کئی ایک چرچ خریدکر مساجد میں تبدیل کردئے گئے جس میں باضابطہ پانچ وقت باجماعت نمازیں ادا کی جاتی ہیں لیکن افسوس یہاں ہمارے لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ Prayer Hall یا اور کوئی دوسرے ہال یا عمارتیں مساجد نہیں بن سکتیں۔ لہذا آپ سے گزارش ہے کہ اس ضمن میں اسلام اور شریعت کی رو سے جو صحیح فتویٰ ہو آپ ہمیں بتلائیں تو لوگوں کی رہنمائی کا باعث ہوگا۔
محمد سلیم ، فرسٹ لانسر
جواب : جب مسلمان کوئی زمین خرید کر اس پر مسجد بنادیں اور لوگوں کو نماز کی اجازت دیدیں، تب وہ شرعاً ’’مسجد‘‘ کہلائے گی اور تاقیامت مسجد ہی رہے گی ۔ اس کے برخلاف کوئی ہال کرایہ پر یا مستعار لیں یا اپنے گھر میں کوئی جگہ نماز کے لئے مقرر کرلیں تو شرعاً وہ مسجد نہیں رہے گی بلکہ وہ نماز گاہ کہلائے گی۔ اس میں مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔

طلاق کے بعد شادی کے مصارف کا مطالبہ کرنا
سوال : زید نے اپنی زوجہ زینب کو 10 مئی 2017 ء تین مرتبہ طلاق دیدی اس کی تحریری اطلاع بذریعہ وکیل ان کو روانہ کردی گئی اور یہ بھی اطلاع دے دی گئی کہ مہر کی رقم اور ایام عدت کا نفقہ وکیل صاحب بعد شناخت حاصل کرلیں۔ لیکن وہ وکیل صاحب سے رجوع نہیں ہوئی اور رقم حاصل نہیں کی۔ طلاق کی تاریخ سے تقریباً چار ماہ بعد زینب نے جھوٹا حلف نامہ عدالت میں داخل کر کے ڈوری کیس کیا اور یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ زینب کے ماہانہ اخراجات سترہ سو روپیہ اور لڑکے 2 سالہ کے پندرہ سو روپیہ اس طرح جملہ بتیس سو روپیہ ہر ماہ ادا کئے جائیں ۔ نیز یہ کہ شادی کے موقع پر تین لاکھ روپیہ کے مصارف عائد ہوئے ہیں وہ بھی ادا کئے جائیں ۔ شادی کے موقع پر لڑکے کو جو تحائف ہر دو طرف سے ملے ہیں اس کی واپسی کا بھی ا دعا ہے ۔ ان حالات میں زید کیلئے شرعی حکم کیا ہے؟
محمد احمد ، وٹے پلی
جواب : مذکورہ در سوال صورت میں زینب پر 10 مئی 2017 ء کو طلاق مغلظہ واقع ہوکر تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوچکا۔ شوہر زیدپر صرف ایام عدت (تین حیض) کا نفقہ واجب تھا۔ البتہ مہر کی رقم واجب ہے۔ عدت کی تکمیل کے بعد زینب کا کوئی نفقہ زید پر واجب نہیں ۔ البتہ ان کے تین سالہ لڑکے کے اخراجات 7 سال کا ہونے تک اور اس لڑکے کی نگرانی و پرورش کرنے کا معاوضہ دستور کے مطابق حسب حیثیت اس (محمد انعام) پر واجب ہوگا۔ البحرالرائق باب النفقہ میں ہے ۔ تجب علی الأب ثلاثۃ اجرۃ الرضاع و اجرۃ الحضانۃ و نفقۃ الولد۔
شادی کے موقع پر جواخراجات لڑکی والے کرتے ہیں اس کی ذمہ داری انہیں پر عائد ہوتی ہے ۔ علی ہذا لڑکے والے جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کے بھی وہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کسی کو بھی دوسرے سے اس کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں۔ مذکورہ در سوال صورت میں لڑکی (نسیم سلطانہ) کا مذکورہ در سوال چار لاکھ کا مطالبہ شرعاً درست نہیں۔ محمد انعام پر اس کا ادا کرنا شرعاً واجب نہیں۔ شادی کے موقع پر جو تحائف ہر دو طرف سے لڑکے (زید) کو دئے گئے ہیں اس کے بھی وہی ما لک ہیں۔ زینب کی طرف سے ان تحائف کی واپسی کا مطالب بھی درست نہیں ۔

مقدار زکوٰۃ
سوال : زکوٰۃ کن کن چیزوں پر واجب ہے اور ان کے نصاب کیا کیا ہیں ؟
سید حسین الدین ، ای میل
جواب : زکوٰہ چار قسم کے اموال پر فرض ہے : (1) سائمہ جانوروں پر (2) سونے چاندی پر (3) ہر قسم کے تجارتی مال پر (4) کھیتی درختوں کی پیداوار پر ، ( اگرچہ اصطلاحاً اس قسم کو عشر کہتے ہیں) ۔ ان اقسام کے نصاب علحدہ علحدہ ہیں۔
چاندی سونے اور تمام تجارتی مال میں چالیس واں حصہ زکوٰۃ فرض ہے ۔ چاندی کا نصاب دو سو درہم یعنی 425 گرام 285 ملی گرام ہے۔ اس سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں۔ زکوٰہ تول کردینا چاہئے، درہم یا روپئے کی گنتی خلاف احتیاط ہے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال یعنی 60 گرام 755 ملی گرام ہے۔ اس پر 40 واں حصہ زکوٰۃ فرض ہے۔ سونے چاندی کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے ۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت سونے چاندی کی جو قیمت ہو، اس کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی ۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت نقد رقم کے بجائے سونے یا چاندی کی زکوٰۃ اسی جنس میں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ تجارتی مال کا نصاب بھی یہی ہوگا ۔ تجارتی مال وہ مال ہے جو فروخت کرنے کی نیت سے لیا ہو۔ اس کا نصاب مال کی قیمت کے اعتبار سے ہوگا ۔ یعنی اگر کل مال کی قیمت 425 گرام 285 ملی گرام چاندی یا 60 گرام 755 ملی گرام سونے کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے زائد ہو تو سال گزر جانے پر اس کی زکوٰۃ ، چالیسواں حصہ دینا فرض ہے۔
چاندی سونے میں اگر کسی اور چیز کی ملاوٹ ہے مگر وہ غالب نہیں تو وہ کالعدم ہوگی ۔ اگر غالب ہے تو اس میں زیر نصاب جنس کی مالیت کی زکوٰۃ ہوگی ۔ سائمہ جانوروں کے بارے میں شرط ہے کہ وہ جنگلی نہ ہوں اور یہ کہ تجارت کی نیت سے پا لے جائیں۔ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ فرص ہے ۔ اس کے لئے ایک بکری ( نر یا مادہ) زکوٰۃ ہوگی ۔ پچیس اونٹوں میں ایک اونٹنی جس کا دوسرا برس شروع ہوچکا ہو۔
چھتیس اونٹوں میں ایک اونٹنی جس کا تیسرا برس شروع ہوچکا ہو۔ اسی طرح ایک خاص تعداد کے مطابق زکوٰۃ بڑھتی جائے گی جس کی تفصیل کتب فقہ میں آئی ہے ۔ گائے بھینس کے سلسلے میں تیس گایوں بھینسوں میں ایک گائے یا بھینس کا بچہ جوایک برس کا ہو۔ اسی طرح آگے تعداد بڑھنے پر ایک خاص شرح کے مطابق زکوٰۃ بھی بڑھتی جائے گی ۔ بھیڑ ، بکری میں چالیس کے لئے ایک بھیڑ یا بکری ، ایک سو سے زائد ہوں تو ہر سو میں ایک بکری۔

بلا جماعت نماز گھر میں ادا کرنا
سوال : میں تجارت پیشہ ہوں رات میں دکان بند کر کے دس بجے گھر آتا ہوں اور سونے کے لئے مجھے عموماً دیر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے میں فجر کی نماز گھر میں ادا کرتا ہوں تو کیا یہ جائز ہے ؟
نعمان علی ، احمد نگر
جواب : اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’ و ارکعوا مع الراکعین ‘‘ یعنی (رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کے تحت بالغ مرد پر واجب ہے کہ وہ پانچ نمازیں حتی المقدور مسجد میں با جماعت ادا کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ منافقوں کے لئے سب سے بوجھل نماز عشاء اور فجر کی ہے اور اگر انہیں علم ہوتا کہ ان میں کس قدر اجر و ثواب ہے تو وہ ان کے لئے گھٹنوں کے بل چل کر آتے‘‘ (بخاری شریف)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جو شخص اذان سنے اور پھر مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نہ آئے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی (ابن ماجہ) فقہاء نے اس حدیث کو تاکید جماعت پر محمول کیا ہے ۔ پس غیر عذر والے اصحاب کو مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا ہوگا اور بغیر عذر کے جماعت ترک کرنا درست نہیں۔
نمازِ تہجد باجماعت پڑھنا
سوال : مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ ماہِ رمضان کی طاق راتوں میں کچھ مساجد میں خصوصی اجتماعی دعاء کا انتظام کیا جاتا ہے جس کا اعلان بھی ہوتا ہے جو مسجد کے ہال کے تمام لائٹ بند کر کے آدھے سے ایک گھنٹہ مانگی جاتی ہے۔ نماز تہجد کی جماعت بھی ہوتی ہے ۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا ایسی دعاؤں اور نماز میں شرکت کرنا جائز ہے ؟
انوراللہ، بالاپور
جواب : رمضان میں تہجد کی نماز باجماعت ادا کی جاسکتی ہے کیونکہ رمضان میں صحابہ کے نفل نماز باجماعت پڑھنے کا ثبوت ہے ۔ مذکور السوال دعاء اورنماز تہجد میں شرکت کی جاسکتی ہے۔