ملک کے سیاست دانوں نے کیا کیا

غضنفر علی خان
ہندوستان کبھی امن کا گہوارہ تھا، لیکن اب نہیں رہا۔ یہاں تو زندہ انسانوں کو دوسرے عام لوگ بلاکسی عذر کے قتل کردیتے ہیں۔ یہ سلسلہ پچھلے کچھ دنوں سے شدت اختیار کرگیا ہے۔ سماج میں عام طور پر یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ ایک ہی عقیدہ کے ماننے والوں کو رہنے کا حق ہے۔ یہ تو بات ہوئی صرف عقیدہ کی۔ اب جو ہندوستان ہے اس میں تو کسی بھی بہانے قتل عبث بھی کسی پریشانی کے بغیر ہوسکتا ہے۔ اور ماضی میں یہ صورتحال تھی کہ عقیدہ اپنی جگہ ہوتا تھا اور سماجی ربط ضبط، میل ملاپ کا علحدہ درجہ ہوتا تھا۔ ماضی میں بھائی چارہ اور پاسداری کو عقیدہ کے مساوی درجہ دیا جاتا تھا۔ تو کیا اب ہم ہندوستانیوں کے جذبات و احساسات یکسر بدل گئے ہیں، کیا عقائد کا رنگ و نسل کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔ کیا ہندوستان کا تکثیری سماج ہی بدل گیا ہے۔ آخر کیوں انسان کو انسانیت کے خانوں میں بانٹ دیا جارہا ہے۔ ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں قدریں یکسر بدل گئی ہیں۔ اخلاقی، سماجی، سیاسی ہر شعبہ جات میں ایک ایسا ماحول دیکھا جارہا ہے کہ سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں کی جنس زدگی اس درجہ انحطاط کی شکار ہوگئی کہ دورِ ماضی میں یعنی ’’ دور سنگ ‘‘ میں آدمی دوسرے آدمی کا سہارا بن کر زندگی کے کٹھن مسائل کا اس دور کے وسائل کے ذریعہ حل نکالا جاتا تھا۔ غالباً جب سیاسی لیڈروں کے پھوٹ ڈالنے والے حربے، سیاسی داؤ پیچ کے طور پر استعمال نہیں کئے جاتے تھے، آج کے دور میں اعلیٰ ترین اخلاقی قدریں مکمل طور پر پامال ہوچکی ہیں۔ سماجی رنگ اور بو خاک میں مل گئے۔ سماجی اقدار بھی بڑی تیزی سے مٹ رہے ہیں۔ آج کے ہندوستان میں سیاستداں تشکیل دیتے ہیں اور بہ عزم خود سیاستداں خود کو ہی زمانہ ساز سمجھتے ہیں۔ان ہی کے اشاروں پر تمام کاروبار ہوتے ہیں۔ خاص طور پر کسی کو آج فرصت نہیں کہ اخلاقی نظام کی پامالی پر ایک لمحہ کے لئے ہی سہی غور کیا جائے۔ اس دور میں انسان کا ایک مقام تھا ، وہاں نو زائدہ بچوں کا نہ اغوا ہوتا تھا اور نہ ان معصوموں کو اس قبل مسیح کے بعد بے رخی سے غلط کردیا جاتا تھا ۔ کمال تو یہ ہے کہ معصوم لڑکیوں کے ساتھ غیر انسانی حرکت کرنے والوںکو کسی ن کسی سیاست داں کی سرپرستی حاصل رہتی ہے۔ ابھی پچھلے ہفتہ کی بات ہے کہ حیدرآباد کے ایک معروف اسکول کے کسی ملازم نے ایک صرف چار سالہ بچی کا اغوا کرکے اس کے ساتھ منہ کالا کیا تھا۔ حسب معمول خاطی کو گرفتار کیا گیا۔ ایسے معصوم اور بے گناہ بچے اور بچیوں کی بات چھوڑیئے۔ اس ہندوستان میں جہاں دھرم کا حوالہ ہر معاملہ اور ہر مقدم پر دیا جاتا ہے اسی مہلک کے ایک شہر میں عیسائی مذہب کی 73 سالہ راہبہ کا اجتماعی زنا بالجبر ہوا تھا۔73 سالہ ایک عمر رسیدہ عیسائی خاتون کو مجرموں نے کہیں کا نہ رکھا۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ زانی ، قاتل، لٹیرے اب کسی سزا کا مستحق قرار دینا سیاستداں اپنی سیاست غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ صرف اخلاقی انحطاط کی بات نہیں، سیاسی فہم و ادراک سے بھی اکثر و بیشتر سیاستداں غلط کاری میں ملوث ہیں۔ ان میں یہ شعور بھی نہیں ہے کہ کہاں کس وقت کونسا اقدام کرنا چاہیئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاست جیسے پیشہ کو ان ہی لوگوں نے بدنام کیا ہے کہ آج اس پیشہ سے وابستہ اچھے اور برے لوگوں میں عوام بھی فرق نہیں کرتے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والی کہاوت دور حاضر کی سیاست پر صادق آتی ہے۔
اس وقت ملک کے جمہوری نظام کو سنگین خطرہ درپیش ہے، مذہبی روادری کو تختۂ دار پر لے جانے میں غیر محتاط سیاستدانوں کو یہ شعور تک نہیں کہ سیکولرازم پر جس کو ہم جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں خدانخواستہ ختم ہونے کے قریب ہے۔ اب بھی موقع ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیوں کو جو ہر قسم کی راہ روی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں سیکولر ازم کو زندہ رکھیں۔ ایک موقع اس لئے بھی کہ رواداری اور سیکولر اقدار کو بے حد عزیز رکھنے والی پارٹیاں اب بھی وطن عزیز میں موجود ہیں اور فرقہ پرست پارٹیوں اور لیڈروں کو انہیں حاصل ہونے والے عارضی سیاسی اقتدار کی دیوار گرنے والی ہے۔ بشرطیکہ ان کی صفوں میں اتحاد قائم ہو۔ نظریات کی اس لڑائی میں جو 2019 میں عام انتخابات کی شکل میں ہونے والی ہے اگر ہوش کے ساتھ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں تو بازی جیت سکتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے صرف سیکولر پارٹیوں کے لیڈروں میں اس ازم پر ایقان کامل ہونا چاہیئے جوبالکل نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف فرقہ پرست طاقتیں دن بہ دن مستحکم ہورہی ہیں اور اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔ یہ دونوں نظریات کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ہوسکتا ہے۔ دیر آخر اگر اپوزیشن کو یہ احساس ہوجائے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ یہ خود پر عدم اعتماد کی اپوزیشن کی کمزوری ہے۔ دیگر باتوں کی طرح یہاں بھی دوسری پارٹیاں اسی قدیم مرض کا شکار نظر آتی ہیں جو آزادی کے بعد ان میں پیدا ہوا ہے۔