ملک کی 73 فیصد دولت پر سرمایہ کاروںکا قبضہ ، ایک سروے

78 ویں نمائش میں بڑے تاجرین کا حکومت کے فیصلوں پر اظہار ناراضگی
حیدرآباد۔13فبروری(سیداسمعیل ذبیح اللہ ) حکمران جماعتوں کی جانب سے ملک کی اقتصادی ترقی کے متعلق ایوانوں کے اندر او رباہر بلند بانگ دعوے تو کئے جاتے ہیں اور اقتصادی ترقی کے نام پر پیش کئے جانے والے اعداد کودرست ٹھرانے کی ہر ممکن کوششیں بھی کی جاتی ہیں مگر زمینی حقیقت پر کوئی بات نہیںکرتا۔ ہندوستان کی مجموعی آبادی کا بڑا حصہ مزدور پیشہ لوگوں کا ہے دوسرے اور تیسرے نمبر پر نوکری پیشہ اور چھوٹی صنعت سے وابستہ لوگ ہیں صرف ایک فیصد طبقہ ایسا ہے جس کاتعلق کارپوریٹ شعبہ سے ہے اور حالیہ دنوں میں ایک سروے اکسفام نامی ادارے نے کیا تھا جس کے مطابق ملک کی 73فیصد دولت پر ایک فیصد سرمایہ کاروں کا قبضہ ہے ۔ ایک حساب سے ملک کی معیشت سرمایہ کاروں کے قبضے میں ہے۔ سال2016میں حکومت ہند کی جانب سے نوٹ بندی ( یعنی پرانے پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کی تنسیخ) عمل میں آئی اس کے بعد سال2017میں گڈس اینڈ سروسیس ٹیکس( جی ایس ٹی ) کا اعلان کیا گیا۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا اثر بھلے ہی ان ایک فیصد سرمایہ کاروں کی تجارت پر نہیںپڑا ہوگا جن کے قبضے میںملک کی 73فیصد دولت ہے مگر چھوٹی صنعت‘ اورچھوٹے پیمانے پر تجارت کرنے والے کا نہ صرف کاروبار اس سے متاثر ہوا بلکہ لاکھوں کی تعداد میںنوجوان بے روزگار بھی ہوگئے ہیں۔ملک کی کئی ریاستوں میںچھوٹی صنعت سے وابستہ لوگ سڑکوں پر اتر کر جی ایس ٹی کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔78ویں کل ہند صنعتی نمائش میں لگائی گئی ریاست ہریانہ کے فتح ہینڈلوم اسٹال کے مالک ہرپریت سنگھ سے جب ہم نے جی ایس ٹی سے تجارت پر پڑنے والے اثر کے متعلق بات کی تو انہوں نے کہاکہ پچھلے 78سالوں سے ان کے دادا نمائش میںاسٹال لگاتے ہیں ‘ اسی اسٹال سے ہونے والی آمدنی کے ذریعہ انہوں نے اپنے چار بیٹوں کی شادی کی ‘ حیدرآباد کے لوگ دل کھول کر خریدی کرتے ہیں‘مگر پچھلے دوسالوں سے کاروبار پر اثر پڑا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کی وجہہ کیا ہے تو ہرپریت سنگھ نے کہاکہ اس کی وجہہ جی ایس ٹی ہے۔ انہو ںنے کہاکہ نہ صرف نمائش میںان کا کاروبار متاثر ہوا ہے بلکہ ہریانہ میں بھی ان کے کاروبار پر جی ایس ٹی اثر انداز ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے ہریانہ میںہینڈلوم کلاتھ میں پھیرے والوں کا بڑا کاروبار تھا جو جی ایس ٹی کی وجہہ سے مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نمائش میںاس مرتبہ میںجی ایس ٹی کی وجہہ سے ان کے کاروبار میں تیس فیصد کی کمی آئی ہے ۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیاہے کہ جو منافع ہمیں ملنا تھا وہ بھی بہت کم ہی ہوا ہے۔اس کے علاوہ اترانچل کے مسٹر راجو نے کہاکہ وہ بیس سال سے نمائش میںاسٹال لگاتے ہیںمگر اس بار پچاس فیصد کے قریب کاروبار میںکمی آئی ہے اور اس کی وجہہ جی ایس ٹی ہے۔ ووڈہینڈی کرافٹ( لکڑی کے کام پر مشتمل چیزیں) کی ایک اسٹال پر جب ہم گئے تو انہو ںنے بتایاکہ وہ پچھلے دس سالوں سے نمائش میںاسٹال لگارہے ہیںمگر اس سال ان کے کاروبار پر زیادہ اثر پڑا ہے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کی وجہہ سے چھوٹی اور گھریلو صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔صرف نمائش میںاسٹال کے ذریعہ اپنی چیزیں فروخت کرنے والے جئے پور ممبئی چورن گولی اسٹال پر کھڑے نوجوان نے بتایا کہ اس سال انہیں لاگت کے اتنی کمائی بھی نہیںہوئی۔ مذکورہ نوجوان کا کہنا ہے کہ شروعات سے ہی کاروبارمتاثر رہا ہے اس کی وجہہ جی ایس ٹی ہے کیونکہ جی ایس ٹی کی ادائی کے بعد چورن اور گولیوں کی جو قیمت مقرر کی گئی ہے وہ گراہک کی سمجھ سے باہر ہے اور ہم بھی نقصان میں اپنا سامان فروخت کرنے سے رہے۔کشمیری کنگ ڈرائی فروٹ مالک نے کہاکہ کشمیر سے یہاں پر سامان کی منتقلی کے دوران ٹرانسپورٹ پر بھی ہمیں جی ایس ٹی ادا کرنا پڑا ہے اور اس کے بعد اسٹال کی قیمت ادا کرتے وقت بھی نمائش سوسائٹی والوں نے ہم سے بارہ فیصد جی ایس ٹی وصول کیا ہے۔ اسی طرح آرکے دلکش کراکری کے اسٹال مالک نے کہاکہ سوائن فلو او رنوٹ بندی جیسے مشکل حالات میں ہمارے کاروبار پر اثر نہیں پڑاتھا مگر اس بارجی ایس ٹی کی وجہہ سے بڑھی ہوئی قیمتیں ہمارے کاروبار پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ گراہک کا کہنا ہے کہ اگلے سال جس قیمت پر فروخت کیاتھا اس میںمعمولی اضافہ کے ساتھ فروخت کیاجاسکتا ہے مگر جی ایس ٹی کے سبب قیمتیں دوگنی ہوگئی ہیں جس کے متعلق نہ تو حکومت نے کسی قسم کی کوئی وضاحت عام شہریوں سے کی ہے اور نہ ہی ہم انہیں سمجھا پارہے ہیں۔بیرونی ریاستوں کی کئی ایک اسٹال والوں سے اس بات کی جانکاری حاصل ہوئی ہے کہ بہت سارے گراہک نقدی کے بغیرلین دین کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پے ٹی ایم ‘ کریڈیٹ یاڈیبٹ کارڈ کا معاملہ بھی خریدی پر اثر انداز ہوا ہے۔ اسٹالس مالکان کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی کے نام پر لائے جانے والے اصلاحات کی وجہہ سے چھوٹی صنعت او رچھوٹے کاروبار سے وابستہ لوگ بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور سارے ملک میں چھوٹی صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے ۔