ملک کی فکر چھوڑیئے ، ہمیں صرف اقتدار چاہئے

غضنفر علی خان
ملک کی سیاست تو اس وقت زوال پذیر ہوگئی تھی جب ہمارے درمیان سے گاندھی جی سے لیکر تحریک آزادی کے تمام لیڈر ایک ایک کرکے ہم میں نہیں رہے تھے ۔ پھر بھی آزادی کی تحریک اور اس کے حصول کے بعد بھی کم از کم 35 برس تک ہماری قومی سیاست چند بنیادی اصولوں کی پابند رہی ۔ لیکن رفتہ رفتہ ان اصولوں کو پہلے چند لیڈروں نے اور بعد میں سیاسی پارٹیوں نے خیرباد کہہ دیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی پارلیمانی اور ریاستوں کی اسمبلیوں سے لیکر پنچایتی راج ، بلدیات یا نگر پالیکا کی سطح تک ایسے عناصر اقتدار پر آگئے اور آرہے ہیں جن کے نہ تو کوئی اصول ہیں اور نہ جو اخلاقیات کے پابند ہیں ۔ ایسا ایک تماشہ پچھلے ہفتہ مہاراشٹرا اور ہریانہ کی ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد دیکھنے میں آیا ۔ جہاں تک ہریانہ کا تعلق ہے وہاں بی جے پی کو قطعی اکثریت حاصل ہوگئی اور آسانی سے وہاں بی جے پی نے آر ایس ایس کے تربیت یافتہ منوہر لال کھتر کو چیف منسٹر بنادیا جو وزیراعظم مودی کے بے حد قریبی اور بااعتماد ساتھی ہیں ۔ ہریانہ ایک چھوٹی ریاست ہے 90 اسمبلی ارکان پر مشتمل اس ریاست میں بی جے پی کی کامیابی یقیناً لائق ستائش ہے ۔ اس نے 90 کے منجملہ 47 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ، جبکہ 45 کا عدد ہی قطعی اکثریت کے لئے کافی تھا ۔ یہاں بھی چیف منسٹری کے دعویداروں کی کمی نہ تھی ، لیکن کچھ تو وزیراعظم کا شخصی اثر و رسوخ اور کچھ آر ایس ایس کی نظر عنایت کی وجہ سے منوہر لال کھتر کی صاف ستھری شبیہ نے انھیں اس عہدہ پر فائز کردیا ۔

اصل مسئلہ مہاراشٹرا کا تھا یہاں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیںملی ۔ بلکہ عوام نے منقسم فیصلہ fractured verdict دیا ۔ اس میں بھی بی جے پی مہاراشٹرا اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ، لیکن قطعی اکثریت سے بہت پیچھے رہ گئی ۔ اب جوکھیل اقتدار کے حصول کے لئے شروع ہوا وہ دیکھنے کے قابل تھا ۔ یہاں شیوسینا دوسری بڑی پارٹی 61 ارکان کے ساتھ چنی گئی ۔ شیوسینا چاہتی ہیکہ بی جے پی اس کو اقتدار میں شامل کرے ۔ نہ تو تنہا بی جے پی حکومت بناسکتی ہے اور نہ شیوسینا میں اتنا دم خم ہے کہ وہ تشکیل حکومت کا دعوی پیش کرسکے ۔ کانگریس تو خیر شمار میں نہیں ہے البتہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، انتخابی نتائج کے دوران ہی بی جے پی کو حکومت سے باہر رہ کر اپنی غیر مشروط تائید کا پیشکش کردیا ۔ بی جے پی کو شیوسینا کی جانب سے تائید کے مبہم اشارے مل رہے تھے ۔ ایک بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ شیوسینا ، بی جے پی کو ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں تھی ۔ دونوں کا رویہ ’’ملک جائے چولہے بھاڑ میں ، ہم کو تو اقتدار سے غرض ہے‘‘ کے مصداق تھا ۔ دونوں ہی پارٹیاں کٹر ہندوتوا کی حامی ہیں ۔ دونوں کی اقلیت دشمنی اظہر من الشمس ہے ، لیکن ہندوتوا کا ایجنڈہ جو دونوں کاعین مقصد ہے ، ایک طرف چلا گیا اور دونوں میں حصول اقتدار کی خاموش جنگ شروع ہوگئی ۔ ہندوتوا دونوں کی ترجیحات میں دوسرے نمبر پر چلا گیا ، اقتدار مقصود ومطلوب بن کر رہ گیا ۔

یہ رویہ انتہائی مایوس کن تھا کہ دونوں نے اقتدار کے حصول کی اس کشمکش میں اپنے سیاسی مقاصد کو بھی فراموش کردیا ۔ اگرچیکہ دونوں کے سیاسی مقاصد سیکولر ہندوستان کے لئے انتہائی مضرت رساں ہیں لیکن ان کو بھی طاق نسیاں میں رکھ کر دونوں پارٹیاں سرپھٹول کرتی رہیں ۔ اقتدار ہی شیوسینا اور بی جے پی کے لئے سب کچھ بن کر رہ گیا ۔ نہ بی جے پی کو مندر یاد رہا اور نہ شیوسینا کو یہ یاد رہا کہ ممبئی صرف ممبئی والوں ہی کے لئے بنا ہے ۔ ان کی نفرت کی سیاست ماند پڑگئی ، کیونکہ اقتدار سے وہ صرف کچھ قدم پیچھے تھی ۔ شیوسینا کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ سارے ہندوستان میں کام کرنے والی جماعت نہیں بلکہ مہاراشٹرا کے مخصوص علاقوں میں اسکا اثر و رسوخ ہے ۔ سارے مہاراشٹرا میں اگر شیوسینا مقبول ہوتی تو چناؤ میں اسکا یہ حشر نہ ہوتا ۔ بی جے پی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کل ہند سطح کی پارٹی ہونے کے باوجود صرف وزیراعظم مودی کے بل بوتے پر انتخابات نہیں جیت سکتی ۔ مہاراشٹرا کے علاوہ بہار اور راجستھان کے ضمنی انتخابات میں بھی عوام نے بی جے پی کو دھتکار دیا تھا ۔ بی جے پی تیزی سے ایسی پارٹی بنتی جارہی ہے جو ایک شخص واحد کو اپنا سیاسی محور بنا کر گھوم رہی ہے ۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ مہاراشٹرا میں بی جے پی کی کوئی مقامی قیادت نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے ۔

کسی بھی اسمبلی انتخابات میں کوئی مرکزی قیادت وہ اثر نہیں پیداکرسکتی جو کسی بھاری بھرکم مقامی قیادت کرسکتی ہے ۔ بی جے پی کو اپنے سیاسی محور کے علاوہ اور کوئی لیڈر بھی تیار کرنا ہوگا ورنہ ابتداء میں ہی جو شکست اٹھانی پڑرہی ہے وہ قومی سطح پر بھی مستقبل قریب میں دیکھی جائے گی ۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی قیادت کے معاملہ میں اس ڈگر پر چل رہی ہے جس پر کانگریس چلتی رہی ۔ ایک خاندان یا اسکے افراد خاندان کی کشش زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہتی ۔ جواہر لال کے بعد بھلے ہی کانگریس کو دوسری صف کی قیادت حاصل رہی ہے جو 30 تا 35 سال کانگریس کے لئے مقناطیسی طاقت ثابت ہوئی ۔ ایک تو خاندان کا دبدبہ (نہرو ۔ گاندھی خاندان) پھر نہرو کی جانشین کی حیثیت سے آنجہانی اندرا گاندھی کا سیاسی افق پر ابھرنا ، خاندانی حکمرانی کو مستحکم کرنے کا باعث رہا ۔ اسی پس منظر میں راجیو گاندھی ابھرے اور اپنی وراثت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ ہندوستانی سیاست میں خاندانی اثر و رسوخ نہ صرف مرکزی سطح پر موجود ہے اور رہا ہے بلکہ علاقائی سطح پر بھی پیدا ہوچکا ہے ۔ آج کئی بزرگ لیڈروں کے صاحبزادے یا صاحبزادیاں عروج حاصل کررہے ہیں ۔ ایسی کوئی وراثت یا خاندانی حکمرانی کی روایت نریندر مودی پیدا کرنے کے موقف میں نہیں ہیں ۔ بی جے پی کا آج کا عروج دیرپا نہیں ہے ۔ کیونکہ اس پارٹی نے صف دوم کی قیادت کو کبھی ابھرنے نہ دیا ۔ شیوسینا خود بھی خاندانی قیادت یا اسکی وراثت ہی کی علامت ہے ۔ آنجہانی بال ٹھاکرے کے فرزند اور برادر زادے کے علاوہ اس پارٹی میں تو کسی کا نام سنا نہیں جاتا ۔

اپنی ان کمزوریوں کے باوجود محض عددی موقف کی بنیاد پر اقتدار کی ہوس کی شکار بی جے پی اور شیوسینا مہاراشٹرا میں اقتدار سنبھالنے کے خواہشمند تھے ۔ اقتدار انھیں مل بھی گیا ۔ لیکن دونوں پارٹیوں کا یہ رویہ کہ اقتدار ہی سب کچھ ہے ، بے حد خطرناک رجحان ہے ۔ دونوں نے ثابت کردیا کہ حصول اقتدار ہی سب کچھ ہے ، ملک و قوم کو چاہے کچھ ہو ہماری حکومت ہونی چاہئے ۔ ملک کی فکر آج کس کو پڑی ہے ۔ وہ دن لدگئے جبکہ قائدین اپنے وطن کے لئے جیتے اور وطن کے لئے مرتے تھے ۔ اقتدار ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتا تھا ۔ ان کے پیش نظر ہندوستانی قوم کی فلاح و بہبود تھی ۔ اسی کا دم بھرتے تھے ۔ آج کی اقتدار پرستی کی اس سیاست اور آج کے خود پرست لیڈروں کی نظر میں تو شاید یہ ہمارے جلیل القدر قائدین کی کوئی حیثیت نہ ہو کوئی شناخت نہ ہو ، لیکن انھیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خون جگر دے کر ملک کی آبیاری کی تھی اور آج کے یہ لیڈر ملک و قوم کا ’’خون چوس‘‘ کر صرف اپنا اقتدار اپنی حکومت چاہتے ہیں ۔ آزادی کے بعد ہمارے اقدار کیوں بدل گئے ؟ ہم کیوں اتنے اخلاقی انحطاط کے شکار ہوگئے ؟ اس سنگین مسئلہ پر ہمیں غور کرنا چاہئے ورنہ یہ اقتدار پرستی ہمیں کہیں کا نہیں رکھے گی ۔