ملک کی طلبہ برادری آر ایس ایس کیخلاف متحد

غضنفر علی خان
جو چنگاری حیدرآباد یونیورسٹی سے دلت طالب علم روہت ویمولا کی خودکشی کے خلاف احتجاج کی شکل میں اٹھی تھی ، آج وہ سارے ملک کے طلبہ برادری بالخصوص دلت طالب علموں کی ایک تنظیم اور مضبوط تحریک بن گئی ہے ۔ 23 فروری کو ملک کی مختلف یونیورسٹیز کے ہزاروں طلبہ نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہلی کے جنتر منتر کے قریب ریالی نکالی ۔ یہ تمام طلبہ حیدرآباد یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے واقعات کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے تھے۔ مودی حکومت کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دونوں تعلیمی اداروں کے واقعات ہندوستان میں ایک نظریاتی جنگ کی شکل اختیار کرلیں گے۔ نظریاتی جنگ اس لئے کہ طلبہ اپنے احتجاج کے دوران یہی کہہ رہے ہیںکہ ان کی آزادی فکر پر آر ایس ایس کی پہرہ داری وہ برداشت نہیں کریں گے ۔ ان کا کہناتھا کہ ’’ ہم کیا کھائیں پئیں کیا پہنیں اوڑھے ، ہمارا سیاسی نظریہ کیا ہو  ، اس بات کا فیصلہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے انتہا پسند لیڈر نہیں کرسکتے ۔ اس احتجاج سے یہ تو پتہ چلا کہ ہمارے ملک کا نوجوان طبقہ ہماری نئی نسل مذہبی انتہا پسندی کو سخت ناپسند کرتی ہے ۔ طلبہ ہماری طاقت ہیں ، وہ ملک کے مستقبل کے معمار ہیں، اس ملک کا آئندہ جانے کیا حشر ہوگا جس کا نوجوان غیر مطمئن اور اب تو تصادم پر آمادہ ہوگیا ۔ کیا کوئی قانون طلبہ برادری کو ان کے اس حق سے محروم کرسکتا ہے کہ وہ آزادانہ فکر و خیال کے حامل رہیں۔ حیدرآباد یونیورسٹی کے دلت طالب علم روہت کی والدہ بھی دہلی میں نکالی گئی ، اس احتجاجی ریالی میں شامل تھیں جبکہ کئی سیاسی لیڈر اور بشمول راہول گاندھی دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال اور دونوں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں نے مخاطب کیا ۔ شکر ہے کہ ریالی پرامن رہی ، کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا اور نہ اتنے بڑے مجمع میں ذرا سی بات پر بھی مشکل حالات پیش آسکتے تھے ۔ ہماری یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج کیا ، پورے زور و شور سے کیا اپنی بات بلکہ اپنے دل کی بات کہی کہ آر ایس ایس ان پر اپنے نظریات اپنی فکر مسلط نہیں کرسکتی۔ آخر کیوں آر ایس ایس کو اتنی ہمت آگئی کہ وہ قومی سطح کی درسگاہوں کو اپنا نشانہ بنانے بھرپور کوشش کر رہی ہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت (بی جے پی) آر ایس ایس کے ریموٹ کنٹرول سے چلتی ہے۔ یہ بات تو پہلے ہی معلوم ہوچکی تھی کہ مودی حکومت کے دور میں آر ایس ایس ضرور کوئی گل کھلائے گی ۔ آر ایس ایس کی  ذہنیت رکھنے والی سیاست داں وزارتوں پر فائز ہوجائیں تو انہیں آر ایس ایس کے پر نظریہ پر فکر میں ملک کی فلاح دکھائی دینا لازمی نتیجہ ہے۔ دلتوں کو آج جو شکایت آر ایس ایس اور بی جے پی کے کٹر لیڈروں سے ہے وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو برسوں سے رہی ہے ۔ طلبہ برادری کے اس احتجاج نے اب یہ تاثر پیدا کردیا ہے کہ راشٹریہ سیوک سماج یا ہندوتوا کی حامی طاقتوںکو لگام دینے والی ہماری نئی نسل اس ملک میں موجود ہے اور یہ نئی نسل کوئی معمولی طاقت نہیں ۔ دنیا کے ہر انقلاب کے پیچھے یہی نوجوان نسل کی طاقت کار فرما رہی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’ہمارے دیش کی 35 فیصد آبادی نو جوان نسل پر مشتمل ہے ‘‘ تو ان ہی کی کہی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 35 فیصد آبادی ہندوتوا کی طرز فکر کو قبول نہیں کرتی ہے ۔ باقی کے جو 65 فیصد لوگ ہیں ظاہر ہے کہ وہ سب کے سب ہندو توا کی نظریاتی تائید کرنے والے نہیں ہیں، ان میں بھی سیکولر اور کھلا ذہن رکھنے والوں کی تعداد کا ہی غلبہ ہے جس ملک کا نوجوان خود کو کسی مخصوص نظریہ کا تابع بنانا پسند نہیں کرتا، اس ملک میں ایسے کسی نظریہ یا فکر کی کامیابی ممکن نہیں ہے ۔

حیدرآباد یونیورسٹی اور جواہر لال یونیورسٹیز چونکہ قومی (نیشنل) یونیورسٹیز ہیں، اس لئے یہاں موجودہ حکومت نے نظریاتی غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ ان ہی دو یونیورسٹی کی بات نہیں ، کلکتہ کی جادھوپور یونیورسٹی اور مدراس کے آئی آئی ٹی کے طلبہ بھی احتجاج پر اتر آئے ہیں۔ یہ محض لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ ’’ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے‘‘ ترقی پسند اور کشادہ نقطہ نظر رکھنے والے ان طلبہ کو احتجاج کے جواب میں بی جے پی کے اسٹوڈنٹ ونگ اے بی وی پی نے 24 فروری کو ایک ریالی نکالی جس میں آر ایس ایس کے حامی طلبہ نے حصہ لیا ۔ یعنی یہ کہ اب حکومت طلبہ برادری کو بھی دو مختلف نظریاتی گروپس میں تقسیم کرنے کے در پے ہے ۔ اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ملک کی نئی نسل میں بھی اختلاف پیدا ہوگا۔ حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا  تھا کہ بعض طاقتیں ایسی ہیں جن سے ان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ انہوں نے نشاندہی بھی نہیں کی اور نہ کوئی اشارہ دیا کہ آخر یہ کونسی طاقتیں ہیں۔ جس ملک کے وزیراعظم اپنے ہی ملک میں موجود بعض طاقتوں سے خطرہ ہو اس کا وجود ہندوستان جیسے ملک کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ، یہ تو وزیراعظم مودی ہی جانتے ہیں کہ وہ طاقتیں کونسی ہیں ۔ کہاں چھپی ہوئی ہیں لیکن اہل نظر اور صاحب فکر نے ان طاقتوں کو پہچان لیا ہے ۔ یہ وہ عناصر  ہیں جواپنے کرتوت اور اپنی نقلی وطن پرستی کے ذریعہ سارے ملک کو اپنا  غلام بنانا چاہتے ہیں۔ اس ملک میں رواداری ، تحمل پسندی ایک دوسرے کے اختلاف کو برداشت کرنے کے رجحان کو انتہا پسند طاقتیں ختم کرنا چاہتی ہیں اور یہی طاقتیں نہ صرف مودی حکومت بلکہ ملک کی دشمن طاقتیں ہیں۔ جواہر لال یونیورسٹی کے احتجاجی طلبہ پر ملک سے غداری Sedition کا الزام لگایا گیا ہے جبکہ خود بی جے پی وکلاء کا ماننا ہے کہ ملک کی حکومت کے خلاف نعرہ بازی غداری کی تعریف میں نہیں آتی۔ بلا روک ٹوک جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ پر یہی الزام عا ئد کیا جارہا ہے ۔ انہیں آر ایس ایس کے حامی دھمکی دے رہے ہیں کہ ’’ہم غداری کرنے والوں کے خون سے تلک لگائیں گے اور انہیں گولیوں کی آرتی پیش کریں گے‘‘۔ انتہا اور شدت پسندی کی بھی حد ہوتی ہے۔ ان طاقتوں نے تو ساری حدیں پار کرلیں۔ طلبہ اور نوجوانوں کی فکر پر پابندیاں عائد کردیں گے اور یہ توقع کریں گے کہ نوجوان نسل اور خاص طور پر طلبہ برادری چپ چاپ اور خاموشی سے یہ زیادتی برداشت کرے گی ۔ ملک کا نوجوان طبقہ الگ فکر رکھتا ہے ۔ اس کی ترجیحات علحدہ ہیں۔ اس کی فکر یہ نہیں کہ گائے کا گوشت وہ کھائے یا نہیں کھائے وہ اس ملک سے محبت کیلئے کوئی شرط نہیں رکھتا اور نہ زبردستی اپنے انداز فکر کو کسی دوسرے پر تھوپنا چاہتا ہے ۔ وہ ملک کی ترقی کا حصہ دار بننا چاہتا ہے ، وہ سیکولر جمہوریت کا رکھوالا بن کر اس ملک کو ہر قسم کی تنگ نظری اور مذہبی تعصب سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے ۔ جنتر منتر پر طلبہ برادری کا یہ احتجاج صرف یہی پیام دیتا ہے کہ ازکار رفتہ نظریات اور فکر کی آج کے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔