غضنفر علی خان
بہت بلند بانگ دعوے کئے تھے بی جے پی نے اور عوام کو یہ کہہ کر گمراہ بھی کیا تھا کہ ’’اب کی بار مودی سرکار‘‘ عوام نے اسے سچ جانا اور بی جے پی کو ووٹ دے کر کامیابی دلائی ۔ بی جے پی اور خصوصاً وزیراعظم نریندر مودی تو ایک سانس میں کئی بار کہتے رہے کہ ’’اچھے دن آئیں گے‘‘ ۔ ان اچھے دنوں کی آس میں مودی کو ووٹ بھی ملے اب ایک سال ایک ماہ گزرنے کے بعد ہندوستانی عوام کا یہ خواب ٹوٹنے لگا کہ کبھی اچھے دن بھی آئیں گے ، ساری امیدیں ٹوٹ گئیں کے مصداق عوام تو اسی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ ضروری اشیاء کی قیمتیں ہیں کہ کہیں رکنے تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں ۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال یہ ہیکہ اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں ۔ اترپردیش میں نہیں بلکہ ملک بھر میں خواتین کی عصمت ریزی ، اغوا اور قتل کے واقعات متواتر ہورہے ہیں ۔ بھلا یہ کوئی اچھے دنوں کی علامت ہے ۔ ملک کے عوا اب امید بھی چھوڑ چکے ہیں وہ رفتہ رفتہ اس تلخ حقیقت سے سمجھوتہ کررہے ہیں کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا انھیں سبز باغ دکھائے گئے تھے ۔ ان کا اعتماد شیشہ کی طرح ٹوٹ گیا ۔ ہاں البتہ بی جے پی کے برے دن شروع ہوگئے ہیں ۔ پارٹی میں دھڑے بندیاں ، آپسی اختلافات ، بڑے لیڈروں کی چپقلش اب نمایاں ہو کر آرہی ہے ۔ پارٹی میں ایک ہی مسئلہ پر کئی رائے سامنے آرہے ہیں ۔ مودی جی کی گرفت ہر آنے والے دن کے ساتھ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ پر کمزور پڑتی جارہی ہے ۔وہ ایک بے اثر وزیراعظم ثابت ہوچکے ہیں ان کی کہی ہوئی کوئی بات نہیں مانی جارہی ہے ۔ اندرون پارٹی ناراضگیاں ہیں کہ پورے عروج پر پہنچ گئی ہیں ۔ یہ تو روز اول ہی سے ظاہر ہوگیا تھا کہ پارٹی کے بزرگ لیڈر لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، یشونت سنہا اورکئی دیگر کو پارٹی میں نریندر مودی کے گروپ نے پوری طرح نظر انداز کردیا۔ اس سلسلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ پارٹی کی قیادت نسبتاً کم عمر لیڈروں کے ہاتھوں سونپ دی گئی ہے ۔ ان معمر اور بزرگ لیڈروں کا پارٹی پر اثر ختم کرنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے گئے ۔ لیکن اس سچائی کو نظر انداز کردیا گیا کہ برسوں پارٹی کی قیادت کرنے والے ان بزرگ لیڈروں کے ماننے والے آج بھی پارٹی میں موجود ہیں ۔
ایسے ماننے والوں کی تعداد کم سہی پارٹی میں موجود ہے ۔ بی جے پی میں اس وقت تین قسم کے لوگ ہیں ، ایک وہ گروپ جو وزیراعظم نریندر مودی کواپنا اور پارٹی کا نجات دہندہ سمجھتا ہے ۔ دوسرا وہ ہے جو قدیم وفاداریاں بدلنا نہیں چاہتا اور آج بھی اڈوانی گروپ سے وابستہ ہے ۔ تیسرا وہ گروپ ہے جو اپنی وابستگیاں ظاہر کرنا نہیں چاہتا لیکن یہ گروپ وزیراعظم کا ساتھ دینے تیار نہیں ہے ۔ اس کی وفاداریاں قدیم لیڈروں سے ہے ۔ یہ بزرگ لیڈر جنھیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے کبھی کبھی اپنی خاموشی کو توڑ بھی رہے ہیں۔ جس کی سب سے واضح اور سب سے بڑی مثال اڈوانی کا وہ اخباری انٹرویو تھا جس میں انھوں نے ملک میں دوبارہ ایمرجنسی کے نفاذ کے امکانات کا ذکر کیا تھا ۔ اس انٹرویو میں اڈوانی نے ملک میں جمہوری اداروں کے کمزور پڑجانے کا بھی تذکرہ کیا تھا ۔ ان کے انٹرویو کے بعد ہنگامہ ہوا ۔
اسی دوران بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور سابق کرکٹ کھلاڑی کیرتی آزاد نے سشما سوراج اور وسندھرا راجے کے اسکام کے بارے میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’یہ کام کسی آستین کے سانپ کا ہے‘‘ تاہم انھوں نے کسی نام کا انکشاف نہیں کیا تھا ۔ یہ سانپ کون ہوسکتا ہے یا کیرتی آزاد کا اشارہ ناخوش عناصر کی طرف تھا ۔ اس سلسلہ میں پارٹی کی قیادت نے بھی کوئی بات نہیں کہی ، وہ آستین کا سانپ آج بھی پارٹی میں موجود ہے ۔ ظاہر ہے کہ سانپ کی فطرت ہی ہے کہ وہ بار بار ڈستا ہے اور ہر بار اپنا زہر جسم میں چھوڑجاتا ہے ۔ بی جے پی کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنا آستین جھٹک نہیں سکتی ۔ کیونکہ اس ضمن میں کسی انکشاف کے نتیجہ میں پارٹی مکمل انتشار کی شکار ہوجائے گی ۔ البتہ یہ طے ہے کہ ایسے عناصر بی جے پی میں موجود ہیں جو نہ تو قیادت سے پوری طرح مطمئن ہیں اورنہ قیادت سے اپنے اختلافات کا کھل کراظہار کرسکتے ہیں ۔ یہ عناصر گھٹن محسوس کررہے ہیں انھیں اظہار کا موقع نہیں مل رہا ہے ۔ لیکن سشما سوراج وسندھرا راجے کے اسکام کی طرح اور کئی اسکام ہوں گے یا ہوسکتے ہیں ۔ پارٹی کی یہ قلعی کھل گئی کہ وہ پوری طرح متحد ہے لیکن تمام عناصر محض اقتدار پر برقرار رہنے کے لئے یہ تماشا کررہے ہیں اور ظاہر کررہے ہیں کہ پارٹی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے جبکہ درون خانہ کئی ہنگامہ ہیں صرف پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ ۔ یہ پردہ کب اٹھے گا چند ماہ میں چند برس میں اٹھے گا یہ نہیں کہا جاسکتا ۔ آثار و قرائن سے ظاہر ہے کہ بی جے پی کے برے دن آگئے ہیں ۔ پارٹی کی قیادت بھی کمزور پڑرہی ہے ۔ مودی کا یہ زعم بھی ٹوٹ گیا ہیکہ وہ پارٹی میں سب کچھ ہیں حالانکہ وہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پارٹی پر ان کی پکڑ مضبوط ہے ۔ ان کا یہ دعوی کئی مرتبہ غلط ثابت ہوچکا ہے ۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر کسی ہندوستانی باشندے کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا ۔ لیکن ان کی پارٹی کے لیڈر ، وزراء ، ارکان پارلیمان ہمیشہ مذہبی بنیادوں پر معاشرہ کی تقسیم کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ وزیراعظم کے کہنے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ یہ لیڈر کیوں وزیراعظم کی بات نہیں سنتے اور کیوں وزیراعظم اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان کی زبان کو لگام نہیں دیتے ۔اس عجیب صورتحال کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اندرونی طور پر وزیراعظم خود ایسے لیڈروں کی رائے سے متفق ہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک وزیراعظم کے پالیسی اعلانات کے بعد بھی پارٹی کے بعض لیڈر مخالف پالیسی بیانات دیں ۔ بی جے پی کے برے دنوں کی علامتیں ظاہر ہورہی ہیں ۔ ملک کے اچھے دن کے خواب اب پریشان ہورہے ہیں ۔ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اندرون خانہ دھماکہ ہورہاہے ۔ اگرچیکہ یہ دھماکہ کوئی explosion نہیں لیکن اس کو implosion ضرور کہا جاسکتاہے ۔ بعض طوفان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی رفتار دھیمی ہوتی ہے ۔ کچھ طوفان اچانک ہوتے ہیں کچھ دبے پاؤں آتے ہیں ۔ بی جے پی کی اندرونی صورتحال بے حد پریشان کن ہے ۔ اڈوانی نے محض تفریح طبع کے لئے یہ بات نہیں کہی کہ ملک میں 1975 ء کی طرح دوبارہ ایمرجنسی نافذ ہوسکتی ہے ۔ کم از کم اڈوانی اس امکان کو قطعی طور پر خارج بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ آستین کے سانپ جو کوئی بھی ہوں وہ آستینوں میں چھپے رہیں گے ۔ ان کی نشاندہی کرنے تک پارٹی قیادت کوئی سخت قدم نہیں اٹھائے گی ۔ یہ سانپ کلبلاتے رہیں گے اور ڈسنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے ۔ ظاہر میں سب کچھ ٹھیک نظر آتا ہے لیکن اس سے یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ بی جے پی کے برے دن ابھی بہت دور ہیں ۔ برے دن بھی آناً فاناً نہیں آتے البتہ ان کی علامتیں پہلے پہلے غیر واضح انداز میں اور پھر واضح انداز میں ظاہر ہونے لگتی ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کے عروج زوال میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے ۔ صرف ان پارٹیوں کومحفوظ رکھا جاتا ہے جن کی قیادت مضبوط ہوتی ہے ۔
اس سلسلہ میں کانگریس کی مثال دی جاسکتی ہے کہ جواہر لال نہرو اور ان کی صاحبزادی مسز اندرا گاندھی کی پارٹی پر گرفت ہی تھی کہ دونوں نے برسوں حکومت کی ۔ کانگریس میں ان کی کہی ہوئی بات کا بھرم ہوتا تھا لیکن ان دونوں کے بعد کانگریس کا بھی حشر بُرا ہوا ۔ اب وزیراعظم مودی ایسے ہی حالات سے گذر رہے ہیں ۔ پارٹی میں ان کی ساکھ کم ہوتی جارہی ہے ۔ ان کی کہی ہوئی بات کا کوئی احترام نہیں کیا جارہا ہے ۔ پارٹی میں ڈھرے اور گروپس بنتے جارہے ہیں ۔ یہی آفتیں کیا کم تھیں کہ سشما سوراج اور وسندھرا راجے نے نئی مشکلات کھڑی کردیں ۔ وسندھرا راجے بری طرح پھنس گئی ہیں ان کی دستخط والے مکتوب کو منظر عام پر لایا گیا ہے ۔ بی جے پی ان کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہوگئی شاید ان سطور کے پڑھنے تک کارروائی بھی ہوجائے ۔ بی جے پی کے لئے سب کچھ غلط ہورہاہے ۔ایک اور خاتون مرکزی وزیر سمرتی ایرانی بھی پارٹی کے لئے مصیبت بن گئی ہیں ۔ ان کے خلاف بھی جعلی تعلیمی سرٹیفیکٹ داخل کرنے کا سنگین الزام ہے جس کے ثابت ہونے پر انہیں بھی کابینہ سے ہٹایا جاسکتا ہے ۔