ملک خدا تنگ نیست

کے این واصف
1970 ء کے ابتدائی میں سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں روزگار کے دروازے کھلے اور غریب ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے افراد جتھوں کی شکل میں ان ممالک کی طرف آنے لگے۔ اس دوڑ میں ہندوستانی سب سے آگے تھے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی سعودی عرب اور گلف کے دیگر ممالک میں ہندوستانیوں کی تعداد دیگر ممالک کے باشندوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ نقل مکانی کا عمل انسانی تاریخ جتنا ہی قدیم ہے اور اس طرح ہر شئے میں عروج و زوال بھی ایک فطری عمل ہے۔ خارجی باشندوں نے سعودی عرب یا خلیج کے ممالک میں ترقی کا ایک عظیم دور دیکھا بلکہ نصف صدی میں صحرا کو مکانوں میں بدلنے کا جو عمل رہا اس میں ان خارجی باشندوں نے کلیدی رول ادا کیا ۔ یہاں جو عالمی معیار کی سڑکیں ، انڈر پاس اور فلائی اوورس کا جال بچھا ہے وہ سب خارجی باشندوں کے فن اور کاوشوں کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اس پچھلی صدی کے دوران امیر ، غریب ، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لوگ یہاں آئے ۔ بغیر کسی ٹیکس کے حسب حیثیت دولت کمائی ۔ لاکھوں غریب لوگ متمول ہوئے، لاکھ متمول امیر ترین بنے ۔ غرض غیر ملکیوں نے یہاں ایک اچھا وقت گزارا اور اپنے اپنے وطن لوٹ گئے ۔ جہاں وہ باقی ماندہ زندگی عیش و آرام میں بسر کر رہے ہیں لیکن اب خلیجی ممالک کے حالات نے کروٹ بدلی ۔ یہاں کی صورتحال پچھلے دو ، تین سالوں میں تیزی سے بدلی، خصوصاً اقتصادی شعبہ میں۔ اب یہاں کام کرنے والوں کیلئے پیسہ بچانا تو کجا سکون سے جینا بھی محال ہے ۔ پچھلے چند برس سے لوگوں کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ جو کمایا سو یہیں خرچ کردیا ۔ بچت یا پس اندازی نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ مگر اب مہنگائی کی مار اور فیملی فیس وغیرہ کی ادائیگی سے یہاں لوگوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے ۔ لوگ یا تو خود یہاں سے معہ فیملی وطن منتقل ہونے لگے ہیں یا کم از کم اپنے اہل و عیال کو ے ہاں سے وطن منتقل کر رہے ہیں۔ جیسا کہ کسی دور میں خارجی باشندے جتھوں کی شکل میں آتے تھے ، اب اسی انداز میں یہاں سے واپس جارہے ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 18 ماہ کے دوران 8 لاکھ 12 ہزار غیر ملکی صرف سعودی عرب سے چلے گئے اور پچھلے تین ماہ کے دوران دو لاکھ 70 ہزار غیر ملکی باشندے سعودی عرب سے اپنے اپنے وطن لوٹ گئے ۔ محکمہ جوازات کے ترجمان کے مطابق پچھلے کچھ دنوں سے ہر روز یہاں سے 15 سو خارجی باشندے خروج (Exit) پر جارہے ہیں۔ پچھلے تین ماہ کے عرصہ میں دو لاکھ 70 ہزار باشندے مملکت سے خروج نہائی پر گئے جبکہ اسی مدت میں اس سے قبل 5 لاکھ 41 ہزار باشندے خروج پر گئے تھے ۔ اسی طرح سعودی عرب کیلئے نئے سال کے پہلے چار مہینے میں 1.2 ملین نئے ویزے جاری کئے گئے جبکہ پچھلے سال اتنے وقفہ میں تین ملین نئے ویزے جاری کئے گئے تھے ۔ بتایا گیا کہ نئے سال میں اب تک 1.9 ملین اقامے تجدید کروائے گئے ۔ ان ملازمین کا تعلق دس لاکھ 50 ہزار کمپنیوں سے تھا ۔ دریں اثناء وزارت داخلہ نے 9 لاکھ 28 ہزار 8 سو 57 ایسے غیر ملکیوں کو گرفتار کیا جو اقامہ (work permit) قوانین اور سرحدی پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہے تھے ۔ ’’غیر قانونی افراد سے پاک وطن‘‘ مہم جس کا آغاز 15 نومبر 2017 ء کو ہوا تھا کے تحت مملکت بھر سے غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کر کے مملکت سے بے دخل کیا جاتا تھا ۔ اس مہم کے تحت 6 لاکھ 75 ہزار غیر ملکی باشندے گرفتار کئے گئے ۔ ان غیر قانونی باشندوں میں 58 فیصد یمنی ، 39 فیصد ایتھوپین اور تین فیصد دیگر ممالک کے باشندے شامل تھے ۔ محکمہ کے اعداد و شمار کے مطابق دس ہزار7 سو 68 مرد اور 2 ہزار14 عورتیں مملکت کے مملکت جیلوں میں بند ہیں۔ یہ 12 ہزار 7 سو 82 افراد غیر قانونی طور پر مملکت میں مقیم تھے ۔ بتایا گیا کہ ’’غیر قانونی افراد سے پاک وطن‘‘ مہم کے تحت اب تک 9 لاکھ 52 ہزار افراد گرفتار کرکے مملکت سے بے دخل کئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ہزار 7 سو 58 مقامی افراد کو غیر قانونی خارجی باشندوں کو رہائش فراہم کرنے اور مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے سزائیں دی گئیں ۔ اب تک کے گرفتار غیر ملکیوں میں سے دو لاکھ 42 ہزار غیر قانونی باشندوں کو مملکت سے نکالا گیا ہے۔

دریں اثناء سعودی محکمہ شماریات (Statistics) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 3 لاکھ 40 ہزار نئی نوکریاں مملکت میں پیدا ہوں گی جن میں ایک لاکھ 40 ہزار سعودیوں کیلئے اور دو لاکھ دس ہزار غیر ملکیوں کو حاصل ہوں گی ۔ (یہ غیر ملکیوں کیلئے ایک اچھی خبر ہے) یہ ملازمتیں خانگی کمپنیوں ، اداروں ، ہوٹلس ، ریسٹورنٹس کے سیکٹر میں ہوں گی ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا کہ خارجی باشندے تیزی سے اپنی ملازمتوں سے محروم ہورہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ سعودائزیشن ہے ۔ دوسرے خانگی اداروں اور کمپنیوں کا بند ہوجانا ہے جس کی وجہ مارکٹ میں پیسے کی ریل پیل کا کم ہوجانا اور مجموعی طور پر کاروبار کا ماند پڑجانا ہے ۔ عام مقامی افراد اور خارجی باشندوں کے معاشی حالات کے خراب ہونے کا اثر سارے بازار پر ہے ۔ بڑی تعداد میں غیر ملکی مملکت چھوڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے بازار ، کاروباری مراکز اور بڑے بڑے شاپنگ مالس ویران ہوگئے ہیں ۔ حتیٰ کہ کھانے پینے کی اشیاء ، بقالے اور ریسٹورینٹس و غیرہ کے کاروبار بھی بری طرح متاثر ہیں کیونکہ بڑی تعداد میں خارجی باشندے مملکت سے رخصت ہورہے ہیں جنہوں نے اب تک جانے کا قصد نہیں کیا ہے وہ ایک انجان خوف میں جی رہے ہیں ۔ ایسے افرادجن کے پاس پونجی ہے یا وہ لوگ جو کم عمر ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں یا ایسے ہنر سے آراستہ ہیں جس کی وطن میں مانگ ہے اور کسی قدر اطمینان سے مملکت کو خیرباد کہہ سکتے ہیں۔ مگر جن کی عمریں زیادہ ہوگئیں ہیں، جن کے ہاتھ میں بڑی پونجی بھی نہیں ہے اور جن کے بچوں کی تعلیم وغیرہ کی ذمہ داریوں سے بھی آزاد نہیں ہوئے ان افراد کیلئے یہاں سے منتقل ہونے کا تصور بھی انہیں خوف زدہ کر رہا ہے ۔ یہاں رہنے والوں کو صرف اپنے اہل و عیال کو وطن منتقل کرنا بھی اب آسان نہیں رہا کیونکہ جن کی ملازمت چل رہی ہے وہاں تنخواہ پابندی سے نہیں مل رہی ہے اور جو ملازمت سے فارغ کردیئے گئے وہ مہینوں سے حقوق اختتام ملازمت کی رقم حاصل کرنے کے انتظار ہیں۔ انہیں بیوی بچوںکو وطن منتقل کرنے کیلئے اول تو ایر ٹکٹس کا خرچ اٹھاناہے جو ایک بڑی رقم ہے ۔ دوسرے یہ کہ بچوں کووطن میں اسکولس میں داخل کروانے کیلئے یہاں سے رپورٹ کارڈز وغیرہ حاصل کرنا ضروری ہے جس کے بغیر وہ وطن میں بچوں کو اسکول میں شریک نہیں کرواسکتے اور یہ کاغذات حاصل کرنے کیلئے یہاں کے اسکول میں پوری فیس جمع کروانی ضروری ہے جو ایک بھاری رقم ہے۔
یہاں سے غیر ملکیوں کی ایک بڑی آبادی کے نقل مکانی کرنے سے ایک فائدہ صرف یہ ہوا کہ یہاں مکانوں کے کرایہ اچانک کم ہوگئے ۔ اب ہر عمارت کے باہر بڑا سا بورڈ آویزاں ہے جس پر انگریزی اور عربی میں لکھا ہے ’’مکان کرایہ پر حاصل کیجئے‘‘ رہائشی عمارتوں کے مالکان جواب تک من مانی کرتے ہوئے اپنے فلیٹس کے کرایوں کو آسمان پر چڑھائے ہوئے تھے ، اب اچانک زمین پرآگئے ہیں۔ اب تک جو لوگ خروج نہائی (Final Exit) پر جاتے تھے اپنے گھر کو فرنیچر سمیت کسی جاننے والے کو گھر دے کر اپنے سامان کی قیمت اور باقی بچا کرایہ بھی وصول کرلیتے تھے ۔ مگر اب لوگ سامان اپنے گھروں میں یونہی چھوڑ کر چلے جارہے ہیں کیونکہ اب آنے والے کم اور یہاں سے جانے والے زیادہ ہوگئے ہیں۔ خروج نہائی پر جانے والوں میں اکثریت فیملی والوں کی ہے ۔ دوسری طرف گاڑیوں (Cars) کی مارکٹ کا بھی برا حال ہے ۔ استعمال شدہ کار خروج نہائی پر جانے والے فروخت نہیں کر پارہے ہیں۔ انہیں اپنی گاڑی بہت ہی کم قیمت پر نکالنی پڑ رہی ہے ۔ یوں سمجھئے کہ گھریلو استعمال کے سامان اور گاڑیاں اپنی قدر و قیمت کھوچکے ہیں۔ غیر ملکی خصوصاً جو یہاں اپنے اہل و عیال کے ساتھ قیام پذیر تھے ، ایک ہنگامی صورتحال کا شکار ہیں۔ ان کی اکثریت کے پاس یہاں سے نقل مکانی اور اس سے آگے کا کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے۔ اکثریت کو یہ پتہ نہیں کہ وہ وطن لوٹنے کے بعد کیا کریں گے ۔ کسی طرح اپنے آپ وطن میں جم پائیں گے۔

بہرحال خلیجی ممالک کی سماجی تنظمیں حکومت ہند اور ملک کی ریاستی حکومت سے این آر آئیز کی بازآبادکاری کے سلسلے میں مسلسل نمائندگیاں اور تجاویز پیش کر رہی ہیں ۔ روزنامہ سیاست بھی شاید ہندوستان کا ایک واحد روزنامہ ہے جس نے این آر آئیز کے مسائل کی نمائندگی کیلئے پچھلے دو سال کے زائد عرصہ سے مسلسل ایک کالم مختص کئے ہوئے ہیں ۔ بے شک ہندوستان سوا سو کروڑ کی آبادی کا ایک بڑا ملک ہے جس کے بے شمار مسائل ہیں لیکن یہ گلف این آر آئیز نے کوئی 5 دہائیوں تک ملک کو بہت کچھ دیا ۔ یعنی بشکل زر مبادلہ ایک خطیر رقم ملک کو فراہم کی اور اب پہلی بار ملک سے کچھ مانگ رہے ہیں۔ لہذا انہیں ملک پر بوچھ نہ سمجھا جائے بلکہ ان کے مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کیا جائے کیونکہ ان لوگوں نے برسہا برس ایک پرسکون ماحول میں اچھے دن گزارے ہیں اور اب موجودہ حالات کی وجہ سے ذہنی طور پر پریشان ، بے بس اور مایوس ہیں لیکن یہاں سے نکلنا بھی ہماری مجبوری ہے ۔ خیر جس نے خلیجی ممالک میں روزگار نے دروازے کھولے تھے ۔ وہی اب بھی اسباب پیدا کرے گا ۔
بے شک ملک خدا تنگ نیست
knwasif@yahoo.com