ملت کا انتشار … بی جے پی کا فروغ

محمد نصیرالدین
’’اتحاد و اتفاق‘‘ کسی بھی قوم و ملت کیلئے ترقی و عروج کا زینہ ہے ۔ جو قوم متحد ہوکر حالات کا مقابلہ کرتی ہے ، جسد واحد کی طرح زندگی بسر کرتی ہے اور ایک نظریہ اور ایک نصب العین کی پیروی کرتی ہے ، وہ دنیا میں اپنا منفرد مقام بناتی ہے ، اپنی طاقت و قوت کو منواتی ہے اور معاشرہ و سماج ، سیاست ، معاشرت اور معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ برخلاف اس کے جو قوم انتشار و اختراق کا شکار ہوتی ہے ، جس کے قائدین بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، جو قوم ایک نظریہ اور نصب العین پر قائم نہیں رہتی بے حیثیت بن جاتی ہے ، عزت و شرف سے محروم ہوجاتی ہے ، ذلت و پستی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور دیگر قومیں اس پر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتی ہیں تاکہ اس کی شناخت ، اس کی تہذیب ، اس کی زبان اس کے عقیدے حتی کہ اس کے وجود کو بھی ختم کردیا جائے۔ بدقسمتی سے ملت اسلامیہ بالخصوص ملک میں ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے ۔ کم و بیش 20 فیصد آبادی والی یہ امت آج ملک میں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ، حسن وخا شاک کی طرح بے وزن ہوچکی ہے ملک میں آئے دن ہونے والے واقعات بتا رہے ہیں کہ آگے چل کر خدا نخواستہ یہ امت اپنے عقیدے اور ایمان سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھے !
انسانوں کے درمیان اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں ہے ، اختلاف عہد نبویؐ ، عہد صحابہؓ ، تابعین اور تبع ، تابعین اور فقہا و محدثین کے درمیان بھی رہا ہے لیکن صحابہؓ کرام فقہا اور محدثین اور بعد کے علماء نے بھی اختلاف رائے کو کبھی نفرت ، عداوت یا شر و فساد کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ مختلف امور و معاملات میں اختلاف رائے کے باوجود آپس میں الفت و محبت اور بنیان ، مرصوص کی کیفیت باقی رکھی ۔ اسلاف نے ایک دوسرے کے خلاف نہ بیان بازی کی نہ سازشیں رچی ، ایک دوسرے کے خلاف بہتان تراشی کی اور نہ ہی لعن طعن اور جھگڑا و فساد کیا بلکہ ہر دو فریقوں نے اپنے ا پنے علم و فہم اور تحقیق کے مطابق عمل کیا اور کبھی اس بات کی کوشش نہیں کی کہ دوسرے فریق کے نظریہ اور رائے کو نیچا دکھایا جائے۔ غلط باور کرایا جائے یا مخالف رائے رکھنے والوں کو رائے بدلنے پر مجبور کیا جائے۔ حتیٰ کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے نظریہ اور تحقیق کو ہی کامل حق نہیں کہا ۔ اسلاف کی سیرتوں اور ان کے کردار و عمل کے مطالعہ کے بعد ملت اسلامیہ اور اس کے کرتا دھرتا افراد ، علماء و قائدین و ذمہ داروں کے رویہ کا جائزہ لیں تو افسوس ہوتا ہے کہ حاملین قرآن مبین اور وابستگان نبیٔ محسنؐ ، شریعت اسلامی و دین صنفِ و اصلاح امت کے نام پر ملت اسلامیہ کو ٹکڑ ے ٹکڑے کرنے اور عداوت و نفرت کے بیج بونے میں مصروف ہیں الا ماشاء اللہ ۔ چنانچہ دینی علوم کے مراکز اور اداروں میں آئے دن کی ٹوٹ پھوٹ اور جوڑ و توڑ و نیز گروہ بندی و کمیٹیوں کی تبدیلی صاف ظاہر کرتی ہے کہ اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح سے زیادہ خود نمائی خود پسندی اور ریا کاری نے ذہن و دماغ پر قبضہ کرلیا ہے اور ضد ہٹ دھرمی ، انا ، ذاتی مفاد اقربا پروری اور شخصیت کے بت نے اچھے خاصے لوگوں کو بھی یرغمال بنالیا ہے ۔ ایسے میں ہر مومن و مسلم کا قلب بے چین ہوجاتا ہے اور یکبارگی وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا اہل ایمان کا طرز عمل ایسا ہی ہونا چاہئے ؟ اور حاملین قرآن پاک کا یہی رویہ ہوتا ہے ؟ خالق کائنات نے تو صاف طور پر ہدایت فرمائی ’’جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ در گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے ، وہی انہیں بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے ‘‘ (الانعام) مزید فرمایا ’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے ‘’ ( آل عمران )
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملک میں ان دنوں فاشسٹ طاقتوں کا بول بالا ہے ۔ وہ طاقتیں اقتدار پر براجمان ہیں جو قوم مسلم کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے درپہ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی تہذیب و کلچر کو نشانہ بنایا ہے۔ مسلمانوں کے عقیدہ اور نظریہ کو ختم کردینا جن کا مقصد ہے ، قرآن پاک سے جن کو بغض ہے ، رسول اللہ ؐ کی تعلیمات سے جن کو نفرت ہے ، لفظ مسلم سے جن کو چڑ ہے ، پردہ جن کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے ، اذاں جن کی سماعتوں پر کٹھن بن گئی ہے ، طلاق ثلاثہ آرڈیننس ، دینی تعلیم کے مدرسوں پر نگرانی ، گاؤ رکھشکوں کے حملے ، مختلف شہروں کے ناموں کو مسلم ہونے پر تبدیلی اس بات کا کھلا اشارہ کر رہے ہیں کہ بی جے پی کا منفرد ایجنڈہ مسلم مخالف ہے اور حکمراں جماعت مسلمانوں کے وجود اور ان کے دین و ایمان کو کسی بھی قیمت پر برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمراں جماعت کو نفرت و عداوت اور بغض و حسد کے ساتھ مسلمانوں کو ملیامیٹ کرنے یا ختم کردینے کیلئے چھوڑ دیا جائے یا مسلمان نعوذ باللہ اپنے دین و ایمان اور اپنی منفرد شناخت کو ترک کردیں؟ بی جے پی کے عروج اور حکومت بنانے میں بدقسمتی سے جو چیز سب سے زیادہ معاون بنی وہ مسلمانوں کی سادہ لوحی غفلت اور انتشار ہے۔ چنانچہ انتخابات کے موقع پر مسلمانوں نے اپنے ووٹ کی قدر و قیمت سے غفلت کی اور حکمت و دور اندیشی کے برخلاف ووٹ کا استعمال کیا جس کی وجہ سے آج بی جے پی ایک ناقابل شکست طاقت بن گئی ہے ۔ مسلمانوں کے آپسی انتشار نے نہ صرف فرقہ پرستوں کو کامیابی سے دوچار کیا بلکہ انصاف پسندوں اور سیکولر طاقتوں کو بھی مبہوت کردیا کہ آیا ’’سیکولرازم ‘‘ قابل عمل بھی ہے یا نہیں ؟ مسلم قائدین نے اپنے ذاتی مفادات ، مالی منفعت اور عہدوں اور مناصب کے لالچ میں مسلم عوام کو گمراہ کیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوئے اور فاشسٹ طاقتوں کو اقتدار حاصل ہوگیا ۔ ریاست تلنگانہ انتحابات کے دوراہے پر کھڑی ہے ، آج پھر وہی صورتحال مسلمانوں کے سامنے درپیش ہے کہ اپنا ووٹ کس کے حق میں استعمال کریں ؟
مسلمان آج پھر گومگوں کی کیفیت کا شکار ہیں ، حکمراں پارٹی کے بی جے پی سے کھلے تعلقات سب کے سامنے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ بی جے پی سے قربت کی وجہ سے آلیر انکاؤنٹر انجام دیا گیا ، وقف جائیدادوں کی تباہی پر خاموشی اختیار کی گئی، مسلم تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا ۔ طلاق ثلاثہ ، یونیفارم سیول کوڈ ، دستوری ترمیمات ، گاؤ رکھشکوں کے ظلم و ستم و دیگر امور میں ریاستی حکومت کے نام نہاد خود ساختہ مسلمانوں کے ہمدرد سربراہ نے بی جے پی کے آلۂ کار کا رول ادا کیا اور مسلمانوں کی ناراضگی کو خاطر میں تک نہیں لایا لیکن اپنی مکاری و عیاری کے چلتے مسلمانوں کے محتلف سربر آوردہ اصحاب اور جماعتوں کے سربراہوں یا ذمہ داروں کو محتلف عہدے ، مناصب اور مالی منفعت کے سہارے اپنے سحر میں گرفتار کرلیا ۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کی نجات دہندہ ہونے کے دم بھرنے والی جماعت اور اس کے سربراہ کو مختلف نوازشوں کے سہارے اپنا ہمنوا بنالیا جس کی وجہ سے کچھ لوگ دبے انداز میں اور کچھ ان کے سفیر بنے برسر اقتدار جماعت کی تا ئید میں مہم چلا رہے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ اس بات کو بھلا رہے ہیں کہ حکمراں جماعت و بالواسطہ طور پر مرکزی فاشست حکومت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے اور مسلمانوں پر ہورہی ناانصافیوں اور ظلم و ستم کو خاموش انداز میں تائید کر رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دین و عقیدہ کی حفاظت اہم ہے یا ’’شادی مبارک‘‘ اور اقامتی اسکولس‘‘ کی دہائی دے کر بی جے پی کی آلۂ کار جماعت کی تائید کی جائے؟
ملک اس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے ، آیا ملک میں ایک قوم اور نظریہ کی بالادستی ہوگی یا پھر تمام قوموں اور عقائد والوں کو آزادی اور انصاف کے ساتھ جینے کا موقع حاصل رہے گا ؟ اگرچیکہ کانگریس جس نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا اور کئی دہوں تک حکومت کی باگ ڈور سنبھالی بعض کمزوریوں اور خامیوں کا جس سے ضرور سدور ہوا لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک کو جوڑے رکھنے اور تمام عقائد کے حاملین کو آزادی سے جینے کا حق کانگریس ہی دے سکتی ہے اور آزادی سے آج تک فرقہ پرستوں اور فاشسٹ طاقتوں کے مقابل یہی پارٹی چٹان بن کر کھڑی ہے ۔ وقتی مفادات ، مالی منفعتیں اور دیگر نوازشیں نگاہوں کو یقیناً خیرہ کرتے ہیں لیکن دور اندیشی دور بینی وسیع النظری اور دانشمندی کا تقاصہ ہے کہ دین و ایمان ، عقیدہ و نظریہ ، تہذیب و کلچر حتیٰ کہ وجود کے لئے جو طاقت خطرہ بنتی جارہی ہے اس کو شکست دی جائے اور وہ لوگ یا طاقتیں جو فاشسٹ طاقتوں کی کھلے یا چھپے تائید یا معاونت کر رہی ہیں ، انہیں بھی سبق سکھایا جائے ۔ ملت کی تمام دینی اصلاحی تنظیموں ،اداروں ،جماعتوں کو آپس میں مل بیٹھ کر اس پہلو پر غور کرنا چاہئے اور مقامی جماعت کو اس بات پر مجبور کرنا چاہئے کہ وہ حکمراں جماعت کی اندھی تائید سے دستبردار ہوجائے ۔ دنیا کی نوازشیں مراعات ، عہدے منصب اور مالی منفعتیں تمام عارضی و وقتی ہیں اور وہ بھی محض اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کی محتاج ہیں ۔ برخلاف اس کے دین و ایمان اور عقیدہ و تہذیب مسلمانوں سے چھن جائے شریعت پر عمل کرنا مشکل ہوجائے اور آزادی کے ساتھ عبادات کی ادائیگی ناممکن بن جائے تو یہ ایک خسارہ کا سودا ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور ذلت اور پستی نہیں ہوسکتی ۔ کاش کہ ملت کے سربر آوردہ افراد اس بات کو سمجھ سکیں ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک