میرا کالم سید امتیاز الدین
دوچار دن پہلے ہماری ملازمہ نے بتایا کہ گھر میں بمبئی جھاڑو کی ضرورت ہے ۔ ہم گھر سے قریب ایک دکان میں بمبئی جھاڑو خریدنے گئے تو دکان دار نے ہم سے کہا کہ بمبئی جھاڑو زیرے میں گئی ہوئی ہے ۔ ہم اس احمقانہ جواب کو سمجھ نہیں سکے اور سوچا کہ شاید دکاندار کو رات میں ٹھیک سے نیند نہیں آئی ہے اور وہ گاہکوں کو بے تُکے جوابات دے رہا ہے ۔ گھر آکر جب ہم نے صبح کا اخبار کھولا تو ایک خبر پر نظر پڑی ۔ جلی حروف میں لکھا تھا ’’زیرہ پاؤڈر میں بمبئی جھاڑو، کالی مرچ میں پپائی کے بیج ، خشخاش میں روا کی ملاوٹ‘‘ ۔ معلوم ہوا کہ گزشتہ تین سال سے شہر میں بمبئی جھاڑو سے زیرہ ، پپائی کے بیجوں کی ملاوٹ سے کالی مرچ اور روا سے خشخاش تیار کی جارہی ہے اور ہم اپنے انجام سے بے خبر ان اشیاء کا استعمال کررہے ہیں ۔ ہم ملاوٹ کرنے والوں کے ذہن رسا پر عش عش کرنے لگے جو اپنے نفع کے لئے کیسی کیسی ایجادات کرتے ہیں اور ان کو نوبل پرائز کی بجائے جیل جانا پڑتا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ یہ زمانہ ہی ملاوٹ کا ہے ۔اگر ہم کو کہیں سے کوئی اصلی چیز مل جائے تو شاید ہماری زبان اسے قبول کرنے سے انکار کردے ۔ ہم نے سنا تھا کہ کسی زمانے میں ایک نواب صاحب رہتے تھے جو رات بھر موسیقی کی محفلیں برپا کرتے تھے اور صبح کی اولین ساعتوں میں سوجاتے تھے اور دن بھر سوتے رہتے تھے ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حسب معمول جب وہ صبح پانچ بجے سونے کے لئے لیٹے تو ان کو نیند نہیں آئی ۔ انھوں نے اپنے ایک مصاحب کو ساتھ لیا اور ٹہلنے کے لئے نکلے ۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد انھوں نے بڑی ناگواری کے ساتھ اپنے مصاحب سے پوچھا کہ مجھے سانس لیتے ہوئے عجیب سا ناخوشگوار احساس ہورہا ہے ۔ مصاحب نے بڑے ادب سے جواب دیا ’حضور یہ سب تازہ ہوا کی کارستانی ہے جس کے آپ عادی نہیں ہیں‘ ۔
ملاوٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ انسان کا قدیم ترین پیشہ رہا ہے ۔ ہم خود یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ بچپن سے لے کر آج تک ہم نے کبھی خالص دودھ پیا بھی ہے یا اگر کہیں سے خالص دودھ مل جائے تو ہم اسے ہضم بھی کرسکیں گے یا نہیں ۔ ایک زمانے میں گوالے دودھ میں پانی ملاتے تھے پھر اس فن نے اتنی ترقی کی کہ پانی میں دودھ ملانے لگے ۔ وہ تو کہئے کہ آج کل حکومت کی نگرانی میں اور بعض کمپنیوں کی جانب سے دودھ پیکٹ میں سپلائی ہوتا ہے اور باقاعدہ اس کی جانچ ہوتی ہے ۔ کبھی کبھی ہم سنتے ہیں کہ بعض شہروں میں ایسا دودھ بھی فراہم ہوتا ہے جس میں بعض فاسد اور نقصان دہ مادوں کی آمیزش ہوتی ہے ۔ہمارے بعض عزیز باہر کے ملکوں میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں ۔ کبھی جب وہ وطن آتے ہیں تو ہم نے محسوس کیا کہ ان میں سے بیشتر گنجے پن کی طرف مائل ہیں اور ان کے چھوٹے بچوں کے بال ضرورت سے زیادہ ملائم دکھائی دیتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ بعض ملکوں کا پانی اور وہاں ملنے والا دودھ گنجے پن کی تاثیر رکھتا ہے ۔ ہم کو اکبر الہ آبادی کا شعر اکثر یاد آتا ہے جو آج سے سو سال پہلے کہا گیا تھا ۔
طفل میں کیا آئے بُو ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبّے کا ہے ، تعلیم ہے سرکار کی
ہم اکبر الہ آبادی سے معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آج کل بیشتر ماں باپ کے اطوار بھی ایسے ہیں کہ طفل ان اطوار کی بُو باس سے محفوظ رہے بھی تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ رہی تعلیم کی بات تو اس سلسلے میں کہنا یہ ہے کہ تعلیم میں بھی ملاوٹ بہت ہونے لگی ہے ۔ ہم نے اپنے بچپن میں پڑھا تھا کہ ٹیپوسلطان اولین مجاہد آزادی تھا ۔ بعد میں ہم جب بنگلور اور میسور گئے تو وہاں ٹورسٹ بس کو خاص طور پر روکا گیا تاکہ سیاح اس کا مقبرہ دیکھیں ۔ وہ جگہ بھی ہم نے دیکھی جو ٹیپو کا مقام شہادت ہے ۔ اب اچانک کہا جارہا ہے کہ ٹیپو تو سخت فرقہ پرست حکمران تھا ۔ اس کا نام لینا بھی گناہ ہے ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔ ٹیپو سلطان کو گزرے ہوئے تو خیر دو سو سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو آیا ، لیکن گاندھی جی کے قتل کو ابھی صرف 67 سال ہوئے ہیں لیکن اُن کے قاتل کی تعریف کرنے والے بھی پیدا ہوگئے ہیں ۔ ابھی کل رات ہم نے ٹی وی پر ایک صاحب کی بات چیت سنی جو بڑی دلیری سے بابائے قوم کے خلاف نازیبا باتیں کہہ رہے تھے اور معلوم ہوا کہ گوڈسے سے اُن کی والہانہ محبت پر انھیں انعام سے نوازا بھی گیا ہے ۔ جب ہماری تاریخ میں ایسی دیدہ دلیرانہ ملاوٹ ہونے لگے تو پھر آگے چل کر تاریخ اور مورخین کی بات کہاں تک قابل بھروسہ رہے گی ۔ حال ہی میں ہم ایک جلسے میں شریک ہوئے جس میں ہمارے ایک کرم فرما اپنی تقریر میں فرمارہے تھے کہ ہٹلر کو ناحق بدنام کیا گیا ورنہ وہ اتنا بُرا آدمی نہیں تھا ۔ ہم نے سمجھا کہ شاید وہ ہٹلر کے اچھے کاموں کا تذکرہ بھی کریں گے لیکن انھوں نے اپنے دعوے کی کوئی دلیل نہیں دی ۔
کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ تو خیر اپنی جگہ ہے لیکن آج کل ساری دنیا میں انسانیت میں حیوانیت کی آمیزش اتنی ہونے لگی ہے کہ انسان کو انسان کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ دہشت گردی ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے پیرس میں جو خودکش حملے ہوئے ہیں ان سے ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے ۔ سوا سو سے زائد بے گناہ لوگ مفت میں مارے گئے ۔ جواب میں فرانس نے شام میں بمباری کردی اور روس بھی اپنے ہوائی جہاز کو گرانے کے انتقام کے طور پر بمباری کرنے والا ہے ۔ خودکش حملے کرنے والوں کو اتنی عقل نہیں کہ ان کی وحشیانہ حرکت کے نتائج کیا ہوں گے ۔ خود ان کے ملک میں دوسری ملکوں کے حملوں سے نہ جانے کتنے لوگوں کی جان گئی ۔ آپ رسوا ہوئے ۔ اسلام کی غلط تصویر دنیا کے سامنے پیش کی اور اپنے ہم مذہبوں کو شرمندہ کیا۔
ہمارے ملک کی سیاست میں بھی عجیب طرح کی ملاوٹ چل رہی ہے ۔ ابھی بہار کے حالیہ انتخابات میں جیسی تقریریں سننے میں آئیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے اچھے لوگ اپنے مفاد کے لئے کیسی کیسی باتیں کرتے ہیں ۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ محبوب وعدے وفا نہیں کرتا ۔ اب معلوم ہوا کہ ہمارے محبوب قائدین بھی عوام سے ایسے وعدے کرنے لگتے ہیں جن کو پورا کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا ۔ اب لوگ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ وعدوں میں جھوٹ اس قدر ملی ہوئی ہے کہ ان پر اعتبار کرنا مشکل ہے ۔ الیکشن کے بیلٹ پیپر میں شاید ایک خانہ ایسا بھی ہوتا ہے ’ان میں سے کوئی بھی نہیں‘ اگر جیتے ہوئے امیدواروں کی وعدہ خلافی یوں ہی جاری رہی تو ووٹرس ’’ان میں سے کوئی نہیں‘‘ کا بٹن دبا کر نکل جائیں گے اور الیکشن کا نتیجہ ہی نہیں نکل سکے گا۔
ہمارا خیال ہے کہ قدرت بھی انسان کی غیر انسانی عادتوں سے بیزار ہوچکی ہے ۔ اس لئے موسموں میں بھی ملاوٹ شروع ہوگئی ہے ۔ موسم گرما آجائے تو جانے کا نام نہیں لیتا ۔ بارش یا تو کہیں برائے نام ہوتی ہے یا پھر کہیں سیلاب آجاتے ہیں ۔ پچھلے سال سردیاں اتنی لمبی ہوگئی تھیں کہ وبائی بیماریاں پھیل گئی تھیں ۔ جنوری فبروری میں ہر روز اخبار میں آتا تھا کہ ذرا درجہ حرارت بڑھے تو سوائن فلو کی وبا ختم ہو ۔ درجہ حرارت بڑھنے کا نام نہیں لیتا تھا ۔ صرف درجہ رہ گیا تھا حرارت کا نام نہیں تھا ۔
غذائی اشیاء میں ملاوٹ کا اثر عمر کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتا ہے ۔ پہلے مساجد میں کرسیاں نہیں ہوتی تھیں ۔ آج سے چالیس پچاس سال پہلے اگر کسی عالم دین کی تقریر ہوتی تھی تو مسجد کے سامنے کسی صاحب کے گھر سے کرسی منگوالی جاتی تھی تاکہ مولوی صاحب اس پر بیٹھ کر وعظ کریں ۔ آج کل تقریباً ہر مسجد میں دو درجن سے زائد کرسیاں ضروری ہوگئی ہیں تاکہ گھٹنوں کے درد سے لاچار نمازی (جن میں خود ہم بھی شامل ہیں) کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکیں ۔ گھٹنوں کا یہ درد بھی غذائی اشیاء میں ملاوٹ کا تحفہ ہے ۔
ہمارے دل میں ادیبوں اور شاعروں کی بڑی عزت ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ادیب شاعر کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔ شاعر اپنے محبوب کو جی جان سے چاہتا ہے اور اس کے لئے قربان ہونے کو بھی تیار رہتا ہے لیکن ابھی حال میں ہم نے حضرت فراق گورکھپوری کا ایک شعر پڑھا جس سے پتہ چلا کہ ایک عالی مرتبت شاعر بھی بربنائے مصلحت جھوٹ بولتا ہے ۔ شعر یوں ہے ۔
مری نذرِ محبت پیاری پیاری جھوٹی باتیں ہیں
نہ ہوتا گر خلوص اتنا تو میں سچ بولتا تم سے
آج کل ہم رسائل میں ایسی نظمیں پڑھتے ہیں جن پر نثر کا گمان ہوتا ہے ۔ یہ شعر میں نثر کی ملاوٹ ہے ۔ لیکن بسا اوقات بعض لوگ نثر میں شاعری ملادینے کے چکر میں عجیب مضحکہ خیز نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ تھوڑے دن ہوئے ہم ایک جلسے میں شریک تھے ۔ ناظم جلسہ نہایت فصیح و بلیغ زبان میں کارروائی چلانا چاہتے تھے ، چنانچہ وہ کچھ کارآمد اشعار بھی اپنے ساتھ لائے تھے ۔ اس جلسے کی اہم بات یہ تھی کہ جن صاحب کوجلسے کی صدارت کرنی تھی وہ اچانک کسی ضروری کام سے مدراس چلے گئے تھے اور ان کی جگہ کسی اور صاحب کو صدارت کے لئے بلالیا گیا تھا ۔ ناظم جلسہ سامعین کو ابتداء ہی میں اس صدارتی گول مال سے واقف کرادینا چاہتے تھے ۔ چنانچہ انھوں نے فرمایا ’خواتین وحضرات! آج کی اس محفل کی صدارت فلاں صاحب کرنے والے تھے لیکن موصوف اچانک راہی ملک عدم ہوگئے ۔ اس لئے فلاں صاحب صدارت فرمائیں گے‘ ۔ ظاہر ہے کہ اس اعلان سے ایک سنسنی پھیل گئی ۔ چنانچہ فوراً ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ غیر حاضر صدر صاحب صرف مدراس تک گئے ہیں راہی ملک عدم نہیں ہوئے ۔
ہمارے شاعروں نے بھی ملاوٹ کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔ ہمارے ایک دوست اطہر شرفی صاحب نے ہم کو ایک بار دلاور فگار کے کچھ اشعار سنائے تھے ۔ ہم سوچتے ہیں کہ اس کالم میں ان اشعار کی ملاوٹ کردی جائے تو ہمارا نام بھی ملاوٹ کرنے والوں میں ہوجائے گا اور ہم بھی نیک ناموں میں شمار ہوں گے ۔
دورِ آمیزش ہے کوئی چیز بھی خالص نہیں
تیل مصنوعی بٹر امپیور گھی خالص نہیں
جانور تو جانور ہے آدمی خالص نہیں
میں ہی کیا خالص نہیں ہوں آپ بھی خالص نہیں
اس ملاوٹ کا بُرا ہو آدمی چکر میں ہے
موبل آئیل پیٹ میں ہے وائٹ آئیل سر میں ہے
دورِ آمیزش سے پہلے تھا فقط گھی ڈالڈا
اور اب ہر شئے ، وہ مہنگی ہو کہ سستی ڈالڈا
آپ کی بھاشا وہ اردو ہو کہ ہندی ڈالڈا
شاعروں کا حال یہ ہے سو میں ففٹی ڈالڈا
دورِ آمیزش ہے انگریزی سے بنگالی ملی
شاعری کا رنگ بدلا اس میں قوالی ملی