ظفر آغا
بھلا کون ہے دنیا میں جو نوبل انعام کی اہمیت اور فضیلت سے واقف نہیں ۔ یہ دنیا کا وہ انعام ہے جو محض انعام پانے والے کو ہی بے پناہ خوشی اور عزت نہیں بخشتا بلکہ یہ انعام اس ملک کے لئے بھی باعث صد احترام و اکرام بن جاتا ہے ، جس ملک کے باشندے کو نوبل انعام ملتا ہے ۔ لیکن پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے کہ جب جب اس کے کسی شہری کو یہ انعام ملا تب تب وہاں اس انعام کو بہت خوشی سے قبول نہیں کیا گیا ۔ آپ واقف ہوں گے کہ ابھی دو روز قبل پاکستان کی کم عمر لڑکی ملالہ یوسف زئی کو ہندوستانی شہری کیلاش ستیارتھی کے ساتھ اس سال کا مشترکہ نوبل انعام دیا گیا ۔ ستیارتھی کو دنیا کے اس اہم ترین انعام سے نوازے جانے پر ہندوستان میں تو خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ پاکستان میں ملالہ کو یہی انعام ملنے پر اکثرو بیشتر حلقوں نے اس کو پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی سازش قرار دیا ، اور نوبل انعامات کے تناظر میں پاکستان میں یہ تاثر کوئی پہلی بار نہیں پایا گیا ۔ اب تک دو پاکستانیوں کو نوبل انعام سے نوازا گیاہے ۔ سب سے پہلے 1980 کی دہائی میں پاکستان کے مشہور سائنسداں عبدالسلام کو سائنس کا نوبل انعام ملا تھا ۔ اس کے بعد اب ملالہ پاکستان کی پہلی لڑکی ہیں جن کو امن کا نوبل انعام ملا ہے ۔ لیکن یہ حیرتناک بات ہے کہ دونوں موقعوں پر پاکستان میں اس انعام کے ملنے پرخوشی کم اور غم کا اظہار زیادہ ہوا ۔ اور یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ حالات کے سبب دونوں ہی نوبل انعام یافتہ پاکستانی اپنے وطن سے دور غیر ملک میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔
عبدالسلام دنیا کے ایک مشہور سائنسداں ہیں جنہوں نے فزکس میں انتہائی اہم کام کیا ہے جس سے پوری انسانیت کو فائدہ ہوا ہے ۔ لیکن وہ مسلمانوں کے قادری سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ 80 کی دہائی میں جب ان کو نوبل انعام سے نوازا گیا تو اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور ملک میں نظام مصطفی کے نام پر ایک عجیب و غریب قسم کا اسلامی نظام رائج کیا جارہا تھا ۔ یہ وہ نظام تھا جس میں جمہوریت تو درکنار اس نظام کے تحت پاکستان میں کسی کو منہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ایک مسلک کے علاوہ باقی تمام مسلم مسلکوں پر قہر ڈھایا جارہا تھا ۔ چنانچہ عبدالسلام کو جب انعام ملا تو پاکستانی نظام نے یہ شور مچایا کہ قادریوں کو انعام دیا گیا ہے ۔ حد یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے اس وقت اس انعام کا خیرمقدم بھی نہیں کیا ۔ راقم الحروف کو یہ بات بخوبی یاد ہے کہ پاکستان سے دشمنی کے باوجود ہندوستان کے سائنسدانوں اور بہت ساری پنجابی تنظیموں نے عبدالسلام کو ہندوستان بلا کر ان کی عزت و احترام میں درجنوں جلسے کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا ۔ افسوس کے عبدالسلام کو پاکستان میں کوئی جگہ بھی نہیں ملی ۔ وہ ابھی حیات ہیں لیکن اب وہ اٹلی کے باشندے ہیں کہ جہاں وہ آج بھی درس و تدریس کے کام میں مصروف ہیں اور پاکستان اتنے بڑے سائنسداں کی خدمات سے محروم ہے ۔ اس کو پاکستان کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہیں گے ۔
یہی حال کچھ ملالہ یوسف زئی کا ہے ۔ ملالہ یوسف زئی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت ہے جس کو نوبل انعام سے نوازا گیا ہے ۔ یہ وہ انعام ہے جو مدر ٹریسا اور نیلسن منڈیلا جیسی عالمی شخصیتوں کو ملا تھا ۔ لیکن ملالہ ان بدنصیبوں میں سے ہے جو اپنے وطن سے دور انگلینڈ میں پناہ گزین ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اگر ملالہ اپنے وطن پاکستان چلی جائے تو طالبان اس کو ہلاک کردیں گے ۔ دراصل ملالہ کو تو پاکستانی طالبان نے گولی مار ہی دی تھی ۔ جب وہ اپنے اسکول سے واپس لوٹنے کے لئے بس میں بیٹھی تو یکایک چند طالبان اس کی بس میں بندوق لے کر گھس آئے اور انھوں نے سوال کیا کہ یہاں ملالہ کون ہے ؟۔ ملالہ نے کھڑے ہو کر کہا میں ملالہ ہوں تو بس طالبان نے گولی چلادی ۔ گولی ملالہ کے سر کو ایسا چھید گئی کہ اس کی جان کے لالے پڑگئے ۔ علاج کے لئے اسے لندن لے جایا گیا۔ جہاں آخر کار اس کو اپنی جان بچانے کے لئے تکلیفیں جھیلنی پڑیں ۔ وہ ابھی بھی وہیں پناہ گزین ہے اور ایک اسکول میں تعلیم حاصل کررہی ہے ۔
آخر ملالہ کا گناہ کیا تھا جس کی سزا طالبان نے ملالہ کو دی تھی ؟ ملالہ کا گناہ محض اتنا تھا کہ وہ بی بی سی کی ویب سائٹ پرطالبان کے اس حکم کی مخالفت کرتی تھی کہ لڑکیاں اسکول نہ جائیں ۔ وہ ویب سائٹ پر برابر لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھاتی تھی اور لڑکیوں کو یہ ترغیب دیتی تھی کہ وہ طالبان کے خوف سے تعلیم اور اسکول سے منہ نہ موڑیں ۔ ملالہ کی یہ جرأت طالبان کو اس قدر ناگوار گذری کہ ایک دن اسکول بس میں ہی اس پر گولی چلادی گئی ۔ وہ مرتے مرتے بچ گئی ۔ انگلینڈ میں علاج سے فارغ ہونے کے بعد آج بھی ملالہ پاکستان میں تعلیم نسواں کے لئے سرگرم عمل ہے ۔ نوبل اکیڈیمی نے اس کی اس جرأت و ہمت پر اس کو اس سال امن نوبل انعام سے نوازا ہے جس کی خوشیاں ان دنوں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان سے دور انگلینڈ میں منارہی ہے اور پاکستان میں طالبان سمیت دیگر حلقے ملالہ کے انعام کو مسلمانوں کے خلاف سی آئی اے کی ایک سازش بتارہے ہیں ۔ ایک تو دنیا میں کتنے مسلمان ہوں گے جن کو نوبل انعام جیسی عزت و تکریم حاصل ہوئی ۔ ملالہ یوسف زئی اور عبدالسلام جیسے چند گنتی کے مسلمانوں کو اگر یہ انعام مل بھی جاتا ہے تو وہ اپنے وطن جانے سے بھی محروم رہتے ہیں ۔ آخر یہ کیا بات ہے کہ عبدالسلام جیسا سائنسداں اور ملالہ جیسی حصول تعلیم کے لئے اپنی جان داؤ پر لگانے والی لڑکی کو اپنے ہی وطن میں عزت نصیب نہیں ہوتی ہے ؟ سائنس کوئی گناہ نہیں ہے ۔ یہ بھی نہیں کہ مسلمانوں نے سائنس پر کبھی کام نہیں کیا اور پوری مسلم تاریخ میں کوئی بڑا سائنسداں کبھی نہیں پیدا ہوا ۔ بغداد میں عباسی خلافت کے دور میں دنیا کی سب سے بڑی اکیڈیمی تھی جس کا نام تھا بیت الحکماء اور یہاں ایسے سائنسداں پیدا ہوئے جن کے کام سے انسانیت اور بعد میں مغرب نے بے حد فائدہ اٹھایا ۔ مثلاً اس اکیڈیمی نے الخوارزم میں جید ریاضی داں پیدا کیا جو آج بھی دنیا بھر میں بابائے الجبرا کہلائے جاتے ہیں ۔ ایسے ہی الکندی ، ابن رشد اور ابن سینا ، جیسے درجنوں سائنسداں عہد وسطی میں عالم اسلام نے پیدا کئے جن کو سائنس میں کام کرنے کے سبب اپنا وطن ترک نہیں کرنا پڑا تھا بلکہ ان کو اپنے دور کی حکومتوں سے طرح طرح کی امداد اور احترام ملا کرتا تھا ۔ لیکن افسوس کہ جب عبدالسلام کو نوبل انعام ملا تو ان کو اپنے وطن میں عزت ملنا تو درکنار اپنا وطن ترک کرکے مغرب میں پناہ لینی پڑی ۔ یہی حال ملالہ یوسف زئی کا ہے ۔ ملالہ اس مذہب میں آج بھی یقین رکھتی ہے کہ جس کے رسولؐ کو اللہ کا سب سے پہلا حکم ’اقرا‘ (یعنی تعلیم حاصل کرو) ملا تھا اور یہ حکم تمام مسلمانوں کے لئے ابد تک فرض ہے ۔ اسلام میں تعلیم کے لئے یہ شرط کہیں نہیں لگائی گئی کہ محض مرد یا لڑکے ہی تعلیم حاصل کریں اور عورتیں اور لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کرسکتیں ۔
لیکن آج بعض مسلم معاشرہ میں نہ جانے کون سا اسلام رائج ہوا کہ تعلیم سب سے بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے ۔ پاکستانی طالبان ہوں یا افریقی بوکوحرم جیسی خود کو اسلامی تنظیم کہنے والی جماعتیں ، یہ تنظیمیں جدید تعلیم کو حرام قرار دے رہی ہیں ۔ تب ہی تو ملالہ یوسف زئی کو تعلیم حاصل کرنے پر گولی مار دی جاتی ہے اور عبدالسلام کو سائنس میں کام کرنے پر اپنا وطن ترک کرنا پڑتا ہے ۔ یہ تنظیمیں قرآن کی روح سے الگ ایک ایسے اسلام کا نعرہ بلند کررہی ہیں جو نہ صرف مسلم دشمن بلکہ اسلام دشمن بھی ہے ۔ اس لئے ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام حاصل ہونے کی خوشی محض پاکستان میں ہی نہیں بلکہ سارے عالم اسلام میں منائی جانی چاہئے کیونکہ وہ ’اقرا‘ کے راستے پر گامزن ہے اور تمام مسلم بچیوں کے لئے ایسی مثال ہے کہ جو گولی لگنے کے بعد بھی قلم و کتاب ترک کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ تو آیئے ملالہ سے سبق لیں اور مسلم معاشرے میں تعلیم نسواں عام کرنے کے لئے قدم اٹھائیں ۔