ملازم بیوی اور بچوں کا نفقہ، ٹکٹس کے اخراجات

مفتی خلیل احمد صاحب آپ کے سوال

سوال : میرے شوہر بہت اچھے عہدہ پر ہے اور ان کی خاطر خواہ تنخواہ ہے اور گھر کے کرایے بھی آتے ہیں۔ میں بھی ملازمت کرتی ہوں، میری بھی اچھی تنخواہ ہے۔ میرے شوہر مجھ پر اور میرے بچوں پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتے۔ تمام اخراجات مجھے ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ مہینے کے کھانے پینے کے اخراجات بھی مجھے ہی کرنے پڑتے ہیں۔ اگر میں ان سے سوال کرتی ہوں تو بہت برہم ہوتے ہیں اور خوب نوازتے ہیں۔ میرے شوہر کو ایک اور بیوی ہے اور ان سے بچے ہیں، ہم ایک ساتھ ہی رہتے ہیں ۔ میرے شوہر ان پر پورا خرچ کرتے ہیں۔ ان کیلئے جمع کرتے ہیں، میرے علاج و معالجہ پر بھی خرچ نہیں کرتے ہیں، عمرہ اور حج کو اپنے ہی پیسوں سے گئی تھی ۔ بچوں کے ٹکٹس بھی میں نے ہی ادا کئے تھے۔ میرے شوہر نماز کے پابند ہیں۔ مجھے معلوم کرنا یہ ہے کہ میرے شوہر کا عمل کہاں تک درست ہے ؟
نام مخفی ، ای میل

جواب : شوہر پر اپنی بیویوں کا نان ، نفقہ ، کھانے پینے ، کپڑے اور رہائش کا انتظام کرنا شرعاً لازمی و ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و علی المولود لہ زقھن و کسوتھن بالمعروف (233/2) ترجمہ : شوہر پر بیویوں کا رزق اور ان کے کپرے واجب ہیں۔ اسکنوھن من حیث سکنتم ۔ ترجمہ : ان کے رہنے کا انتظام کرو جہاں تم رہتے ہیں (6/65) لینفق ذوسحۃ من سعتہ ترجمہ : چاہئے کہ صاحب استطاعت اپنی حسب استطاعت خرچ کرے۔
حجتہ الوداع کے موقع پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ولھن علیکم ازقھن و کسوتھن بالمعروف (مسلم) تم پر بھلائی کے ساتھ ان کے رزق اور کپڑے کا انتظام کرنا واجب ہے۔

بیوی شوہر کی اجازت سے ملازمت کرسکتی ہے اور اگر وہ شوہر کی اجازت کے بغیر ملازمت کرتی ہے تو ایسی صورت میں اس کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں رہے گا۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد 3 ، کتاب الطلاق باب النفقہ ص : 634 میں ہے : وبہ عرف جواب واقعۃ فی زماننا انہ لوتزوج من المحترفات التی تکون بالنھار فی مصالحھا و باللیل عندہ فلا نفقۃ لما انتھی ۔ رد المحتار میں اسی کے تحت ہے : و انت خبیر بانہ اذا کان لہ منعھا من ذلک فان عصتہ و خرجت بلا اذنہ کانت ناشزۃ مادامت خارجۃ وان لم یمنعھا لم تکن ناشزۃ۔

اب رہا اولاد کا نفقہ تو بہر صورت والد ہی پر واجب ہے ۔ ہدایہ میں ہے : نفقۃ الاولاد الصغار علی الأب لا یشارکہ فیھا احد کمالا یشار کہ فی نفقۃ الزوجۃ لقولہ تعالیٰ : و علی المولود لہ رزقھن و کسو تھن بالمعروف۔

بیوی عمرہ یا حج کا سفر کرے تو اس کے ٹکٹس کے اخراجات شوہر پر لازم نہیں اسی طرح ماں اپنے بچوں کو اپنی مرضی سے سفر حج و عمرہ میں ساتھ رکھے تب بھی شوہر پر بچوں کے ٹکٹ کے اخراجات عائد نہیں ہوں گے ۔ شوہر اپنی جانب سے بیوی کو لیجائے تو ٹکٹ کے اخراجات بھی کھانے پینے و رہائش کے علاوہ شوہر ہی پر لائیں گے۔ درمختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 3 ص : 636 باب النفقہ میں ہے (ولو معہ فعلیہ نفقۃ الحضر خاصۃ) لانفقۃ السفر والکراء ۔ ردالمحتار میں ( لا نفقۃ السفر والکراء) کے تحت ہے : فینظر الی قیمۃ الطعام فی الحضر لا فی السفر ۔ بحر قلت : لا یخفی ان ھذا اذا خرج معھا لأجلھا ، امالو اخرجھا ھو یلزمہ جمیع ذلک۔

پس صورت مسئول عنہا میں آپ کے نابالغ بچوں کے تمام بنیادی اخراجات والد ہی کے ذمہ رہیں گے تاوقتیکہ لڑکے کمائی کی عمر نہ پہنچ جائیں اور لڑکیوں کی شادی کرنے تک ان کی تمام ذمہ داری والد ہی پر رہے گی ۔

شوہر کا ایک بیوی اور اس کی بطنی اولاد کی کفالت کرنا اور دوسری بیوںی کی بطنی اولاد سے پہلو تہی اختیار کرنا عدل و انصاف کے منافی ہے ، وہ آخرت میں ماخوذ ہوگا ۔ نیز بیوی اپنے مال کی مالک و مختار ہے، اس کی آمدنی پر شوہر کا رتی برابر حق نہیں اور بیوی خاطر خواہ کمانے کے باوجود اولاد کے نفقہ و ضروری اخراجات کی ذمہ داری ازروئے شرع اس پر واجب نہیں۔ نیز بیوی کے علاج و معالجہ کی ذمہ داری شرعاً شوہر کے ذمہ نہیں۔ درمختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 5 باب النفقہ ص : … میں ہے: (و تجب) النفقۃ بانواعھا علی الحر (لطفلہ) یعم الاٰنثی والجمع (الفقیر) الحر اور ردالمحتار میں (الفقیر) کے تحت ہے : ای ان لم یبلغ حد الکسب ، فان بلغہ کان للأب أن یؤجرہ او بدفعہ فی حرفۃ لیکتسب و یتفق علیہ من کسبہ لوکان ذکرا۔ عالمگیری جلد اول کتاب النفقات ص : 562 میں ہے ۔ الذکور من الاولاد اذا بلغوا حد الکسب ولم یبلغو بانفسھم یدفعھم الأب الی عمل لیکسبوا او یؤاجرھم و ینفق علیھم من اجرتھم و کسبھم و نفقۃ الأناث و اجبۃ مطلقا علی الاباء مالم یتزوجہ اذا لم یکن لھن مال ۔ اور ردالمحتار جلد 3 ص: 637 باب النفقہ میں (و یجب علیہ آلۃ طعن و خبز و آنیۃ …) کے تحت ہے : و علیہ ما تقطع بہ الصنان لاالدواء للمرض ولا اجرۃ الطبیب و لا الفصاد ولا الحجام۔

خلع کیلئے شوہر کی رضامندی
سوال : کیا مسلم عورت کو خلع لینے کیلئے شوہر کی مرضی اور رضامندی کی ضرورت ہے ؟ تفصیل بیان فرمائیں تو مہربانی۔
نام…

جواب : خلع کیلئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے ۔ واضح رہے کہ خلع بھی طلاق ہی ہے ، فرق یہ ہے کہ طلاق شوہر کی جانب سے دی جاتی ہے اور خلع معاوضہ کے بدل طلاق کا نام ہے۔شریعت کا قاعدہ کلیہ ہے ۔ ’’الغنم بالغرم، جو نفع کا مالک ہوگا وہ نفقصان کا بھی ذمہ دار ہوگا ۔ جس کی ذمہ داری اور فرائض زیادہ ہوں گے ۔ اس کے حقوق و مراعات بھی زیادہ ہوں گے ۔ عرب کا مقولہ ہے ۔ تولی بارد الشئی من تولی قارھا جو سختی کا ذمہ دار ہوگا وہی نرمی کا بھی حقدار ہوگا ۔

نکاح اگرچہ عاقد و عاقدہ کی باہمی رضامندی و ایجاب و قبول سے منعقد ہوتا ہے لیکن شوہر مہر کے ذریعہ مخصوص منافع کا مالک ہوتا ہے اور بیوی کے خورد و نوش ، رہائش و دیگر بنیادی ضروریات و اخراجات کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اس لئے شریعت مطھرہ نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ انما الطلاق لمن اخذ بالساق (ابن ماجۃ) عورت پر جس کا حق ہوگا وہی طلاق دینے کا اہل ہوگا۔

بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیں کہ یا رسول اللہ مجھے ثابت بن قیس کے دین اور اخلاق پر اعتراض نہیں ہے لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم ان کے باغ کو واپس کردوگی (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا( انہوں نے عرض کیا ہاں : تو آپ نے حضرت ثابت بن قیس کو طلاق دینے کا حکم فرمایا تو آپ نے تعمیل کی اور اہلیہ سے جدا ہوگئے ۔
اخرجھا البخاری عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ان امرأۃ ثابت بن قیس أتت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقالت یا رسول اللہ ثابت بن قیس لا أعتب علیہ فی خلق ولادین ولکنی اکرہ الکفر فی الاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتردین علیہ حدیقتہ ؟ قالت نعم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اقبل الحدیفۃ و طلقھا تطلقۃ و فی روایتہ لہ انہ علیہ الصلاۃ والسلام قال : افتردین علیہ حدیقتہ ؟ فقالت نعم ! فردت علیہ و امرہ ففارقھا۔

مندرجہ بالا حدیث شریف سے واضح ہے کہ عورت بذات خود رشتہ نکاح کو زائل و ختم کرنے کی مجاز نہیں ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر گزارش کی تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معاوضہ کے بدل شوہر کو طلاق دینے کا حکم فرمایا ۔ اسی کو خلع کہتے ہیں یعنی کسی معاوضہ کے بدل بیوی کی خواہش خلع کو شوہر قبول کرے تو ایک طلاق بائن واقع ہوکر دونوں میں تفریق و علحدگی ہوجاتی ہے اور بیوی پر مقررہ معاوضہ ادا کرنا لازم ہوتا ہے ۔ اور اگر بیوی شوہر سے خلع کی خواہش کرے اور شوہر نہ طلاق دیتا ہو اور نہ خلع قبول کرتا ہو، اور بیوی کو لٹکائے رکھتا ہو تو یہ حقیقت میں ظلم ہے ۔ بیوی کو اختیار ہے کہ وہ ظلم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔

واضح رہے کہ طلاق و خلع کے احکام قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ شوہر کو طلاق دینے اور خلع قبول کرنے کا اختیار شریعت اسلامی نے دیا ہے ، یہ کوئی اجتھادی اور قیاسی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس پر قرون اولی سے تاحال امت کا عمل درآمد ہے ۔ اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور یہ حقیقت ہے کہ آج بعض مسلم لڑکیاں شوہروں کے ظلم و ستم کے شکار ہیں۔ نہ طلاق دیتے ہیں ، نہ خلع قبول کرتے ہیں اور نہ ہی نان و نفقہ کا انتظام کرتے ہیں اور قانونی چارہ جوئی بھی آسان نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے شریعت کے احکام بدل نہیں سکتے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگا ۔

بعض گوشوں سے یہ کوششیں جاری ہیں کہ خواتین کو بذات خود خلع کے ذریعہ رشتہ نکاح کو ختم کرنے کا اختیار دیا جائے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ طلاق و خلع کے مسائل ان مسائل میں سے نہیں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ احوال و ظروف کے بدلنے اور ممالک کے اختلاف اور عرف و رواج کے بدلنے سے بدلتے ہوں۔ آج اس مسئلہ کو فقہاء کی تنگ نظری قرار دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کیا نامعقول و غیر واجبی وجوہات کی بناء واقع ہونے والے طلاق کے واقعات کی بناء پر طلاق کے واقع ہونے کیلئے بیوی کی رضامندی کو مشروط کیا جکاسکتا ہے ؟ قطعاً نہیں۔

بہر کیف خلع کیلئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے ، اگر وہ ناحق لڑکی کو ستا رہا ہے تو وہ ظالم ہے اور ظا لم کو برداشت نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کے خلاف طاقت و قوت اور قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے ۔ بسا اوقات لوگ شوہروں کی ظلم و زیادتی سے تنگ آکر ان کو سزا دینے اور دوسروں کے لئے درس عبرت بنانے کیلئے مختلف کیسس کرتے ہیں اور لاکھوں روپیوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یاد رکھئے کہ ظالم سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، ظالم کو سزا اللہ تعالیٰ آخرت میں دے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھیں تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ وان یتفرقا یغن اللہ کلامن سعتہ و کان اللہ واسعاً حکیما ۔ اگر وہ دونوں (میاں بیوی) جدا ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان دونوں میں سے ہر ایک کو غنی و مالدار اور ایک دوسرے سے بے بنیاز کردے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت و حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء 130/4 )

جائیداد کی تقسیم
سوال : میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے ، ورثہ میں والدہ کے علاوہ ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں، دونوں بہنیں شادی شدہ ہیں۔ متروکہ میں 4 ایکر اراضی ہے۔ ایسی صورت میں متروکہ والد مرحوم کی تقسیم ورثہ کس طرح ہوگی ؟
سفیان، ای میل

جواب : دریافت شدہ مسئلہ میں آپ کے والد مرحوم کے انتقال کے وقت جو کچھ ان کی ملکیت میں رہا وہ ان کو متروکہ ہے۔
متروکۂ مرحوم سے والاً تجہیز و تکفین کے مصارف وضع کر کے جس نے خرچ کئے ہیں اس کو دیئے جائیں، پھر مرحوم کے ذمہ قرض اور بیوہ کا زر مہر واجب الادا ہو تو ادا کیا جائے، اس کے بعد مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے تیسرے حصے سے اس کی تعمیل کی جائے ، بعد ازاں جو باقی رہے اس کے جملہ اسی (80) حصے کر کے مرحوم کی اہلیہ کو دس (10) چاروں لڑکوں کو فی کس چودہ (14) دونوں لڑکیوں سے ہر ایک کو سات (7) حصے دیئے جائیں۔