مسائل کے حل کیلئے جب ایک عورت گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو نہ صرف مسائل کی نوعیت بدل جاتی ہے بلکہ ان کی وسعت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ بلا شبہ خواتین کے حقوق تسلیم کرنا ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا اور انہیں ہر شعبہ زندگی میں ذہنی اور عقلی طور پر تسلیم کرنا موجودہ وقت کی بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اس پورے نظام میں کہیں نہ کہیں ایک ایسا سقم موجود ہے جو خواتین کو اس کامیابی سے بھر پور مستفید ہونے کی اجازت نہیں دیتا ۔ کچھ مرد یہ بات کہہ کر باآسانی بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ عورت کی اصل جگہ گھر ہے وہ کیوں گھر سے باہر نکلتی ہے؟ یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔
موجودہ دور میں معاشی مسائل میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ ایک مرد تنہا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو پھر ان حالات میں اس کی شریک حیات کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کا ساتھ دے اور اصل میں یہ ساتھ ہی تو ہے جو مرد اور عورت کے رشتے میں توازن بھی پیدا کرتا ہے اور حسن بھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ساتھ دینے کی ذمہ داری صرف عورت کی ہے؟ ہر با شعور انسان کے پاس اس کا جواب نفی میں ہی ہوگا ۔ اس نفی کے باوجود عورت کو اس بات کا احساس کیوں ستانے لگتا ہے کہ اس کی ذات کی نفی ہورہی ہے کیوں ملازمت پیشہ عورت کو پہلے ہی مرحلے پر یہ احساس تنگ کرنے لگتا ہے کہ یہ زندگی اس کے لئے مسلسل آزمائش ہے؟ ملازمت پیشہ مرد کیوں اس کرب سے نہیں گذرتا ۔ وہ جب بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کے عمل سے گذرتا ہے اس کی طمانیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے
اور عورت کی طمانیت رخصت ہوجاتی ہے۔ اسے اکیلے پن کا احساس ہونے لگتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ وہ اس ذہنی انتشار سے نکل بھی سکتی ہے اگر مرد اس کا ساتھ دے ۔ وہ ہر مشقت باآسانی جھیل سکتی ہے اگر اسے یہ احساس ہوکہ وہ اکیلی اس راہ کی مسافر نہیں بلکہ اس کا شریک حیات اس کے ہم قدم ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورت اور مرد کی شناخت میں فرق ضرور ہے لیکن ان کی ذہنی اور عقلی استطاعت یکساں نہیںہوتی ہے محسوس کرنے کا پیمانہ بھی مختلف نہیں تو پھر جس طرح دوران ملازمت مرد اپنی تھکن کو محسوس کرتا ہے اور دفتر مسائل سے الجھ کر چڑ چڑا اور بے زار نظر آتا ہے بالکل ایسی ہی کیفیت سے عورت بھی گذرتی ہے،فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ عورت ضبط کرتی ہے اور مرد اپنی خدمت کیلئے عورت کا کندھا تلاش کرتا ہے۔ بس ایک لمحے کو اگر وہ بھی سوچ لے کہ وہ بھی کسی کی خدمت کا ذریعہ ہوسکتا ہے تو پھر شائد مسائل جڑ سے ہی ختم ہوجائیں۔