ملائیشیا میں عوامی احتجاج

نہ تعصب ہو اور نہ نفرت ہو
کوئی ایسا جہاں تلاش کریں
ملائیشیا میں عوامی احتجاج
رشوت ستانی کا مسئلہ دنیا کے ہر کونے میں ہے۔ بدعنوانیوں کے خاتمہ کے لئے عوام کی جانب سے جب ردعمل شروع ہوتا ہے تو اس کے سامنے حکمراں طاقتیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق کے خلاف بھی عوام کی کثیر تعداد سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ حکومت میں بدعنوانیوں کے خاتمہ اور اصلاحات کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے عوام نے ریالیاں نکالی۔ وزیراعظم نجیب رزاق پر الزام ہیکہ ان کے بنک اکاونٹس میں 2013ء میں 700 ملین امریکی ڈالر جمع ہوئے اور یہ رقم بدعنوانیوں کے ذریعہ اکاونٹس میں منتقل کی گئی جبکہ نجیب رزاق کا کہنا ہیکہ انہوں نے ایسا کوئی غلط کام نہیں کیا کہ لوگ مجھ پر انگلی اٹھائیں۔ ذاتی فائدے کیلئے انہوں نے عوامی رقومات کو استعمال نہیں کیا ہے۔ جولائی کے اوائل سے ہی وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور استعفیٰ دینے کیلئے عوام کے مطالبہ کو بھی نظرانداز کررہے ہیں مگر جس کسی ملک میں مالیاتی بے قاعدگیاں اور معاشی پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں تو عوام کی کثیر تعداد سڑکوں پر نکل آتی ہے۔ سابق میں کئی ملکوں میں عوامی بغاوت نے حکمرانوں کا تختہ الٹ دیا ہے، جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ حالیہ برسوں میں تیونس، مصر، لیبیا اور دیگر ممالک شامل ہیں جہاں عوام پارلیمنٹ میں گھس کر اقتدار کو سبق سکھایا تھا۔ ملائیشیا میں سابق وزیراعظم مہاتر محمد کی قیادت میں اپوزیشن گروپ نے حکومت کی بدعنوانیوں کو منظرعام پر لاکر عوام میں بیداری مہم شروع کی۔ وزیراعظم اس مہم کو ناکام بنانے کا عزم ظاہر کررہے ہیں۔ انہوں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کے بعد استعفیٰ دینے سے انکار کیا ہے اور قومی اتحاد کی اپیل کی ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہیکہ جب عوام نہیں چاہتے کہ ان پر ایک بدعنوان حکمراں مسلط رہے تو اقتدار کی منتقلی کا فیصلہ بھی عوام ہی کریں گے۔ اتحاد کیلئے وزیراعظم کی اپیل کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کو اظہار رائے کی کھلی آزادی ہوتی ہے اور ملائیشیا کے عوام بھی اپنے اظہارخیال کی آزادی کیلئے جمہوریت کا سہارا لے رہے ہیں۔ اگر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ ایک جمہوری ملک میں رائے کے اظہار کے لئے عوام نے جو طرزعمل اختیار کیا ہے، وہ درست نہیں ہے تو اس طرزعمل کی وجہ بننے والے خود وزیراعظم نجیب رزاق ہیں تو انہیں غور کرنا ہوگا کہ ان کی عوامی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔ ملائیشیا کی آزادی کا جشن مناتے ہوئے عوام نے قومی دن میں حصہ لے کر حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا ہے تو یہ تبدیلی لانے کی کوشش کا حصہ ہے۔ سابق وزیراعظم مہاتر محمد نے مظاہرین سے کہا کہ وہ موجودہ وزیراعظم کو اقتدار سے بیدخل کردیں۔ ملائیشیا کے موجودہ حالات اتنے ابتر ہوچکے ہیں کہ اب نجیب رزاق کا اپنے عہدے پر قائم رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہوچکی ہے۔ لوگوں کے پاس پرانے نظام کو بحال کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ ملک کے اقتدار پر قابض طاقتوں کو برخاست کردیا جائے کامیابی کیلئے کسی بھی حکومت میں عوام کا خط اعتماد ضروری ہوتا ہے۔ جب عوام ہی حکمراں پر انگلیاں اٹھا کر ان کی بدعنوانیوں کو منظرعام پر لاتے ہیں تو اس کے آگے حکمراں طبقہ کو ضد چھوڑ کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وزیراعظم نجیب رزاق اس وقت عوام کے سامنے اپنی ضد اور انا کو لے کر طاقت کے ذریعہ عوام کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ مہاتر محمد کو ملائیشیا کے علاوہ عالم اسلام میں ایک معتبر لیڈر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے 1981ء سے 2003ء تک ملائیشیا پر حکومت کی ہے اور نجیب رزاق کے بھی حامی رہے ہیں لیکن اب نجیب رزاق کی خرابیوں نے انہیں بھی ان کا مخالف بنا دیا ہے تو آنے والے دنوں میں اقتدار کی تبدیلی کے امکانات قوی ہوں گے۔ قومی سرمایہ کو ذاتی اغراض کے لئے استعمال کرنا کسی بھی حکمراں کی بڑی غلطی متصور ہوتی ہے۔ نجیب رزاق کے منصوبے کے مطابق 2009ء میںقائم کردہ ان ملائیشین ڈیولپمنٹ فنڈ قومی سرمایہ کاری کا فنڈ ہے لیکن اس فنڈ سے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے بجائے ذاتی اکاونٹس میں رقومات جمع کرالینا بدعنوانی کی تعریف میں شمار کیا جاتا ہے۔ عوام کی آواز بلند ہونے کے بعد وہ خود کو اس ناراضگی اور احتجاجی لہر سے کب تک بچا سکیں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ملائیشیا میں اس وقت سب سے شدید بحران اس ملک کی ڈوبتی کرنسی ہے۔ اگر کرنسی کی قدر میں بتدریج گراوٹ درج کی گئی تو وہ بحیثیت وزیراعظم نجیب رزاق اپنے ملک کو اس بحران سے نکالنے میں ناکام ہوتے ہیں تو انہیں فوری استعفیٰ دینے پڑے گا۔