ظفر آغا
اتر پردیش ہندوستانی سیاست کا دل ہے۔ بس یوں سمجھئے جس نے اتر پردیش جیت لیا اس نے ہندوستان جیت لیا۔ تب ہی تو حالیہ چنائو میں نریندر مودی نے اتر پردیش جیت کر ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ کرلیا، لیکن ابھی پچھلے ہفتے اتر پردیش میں جو ضمنی چنائو ہوئے ان چنائو میں ملائم سنگھ یادو نے ایک بار پھر مودی کے ہاتھوں سے اتر پردیش جیت لیا۔ بس یوں کہئے کہ اب ملائم سنگھ یادو چاہیں تو ہندوستان بھی جیت لیں، بلکہ موجودہ ہندوستان کی سیاسی حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان اب امید کی نگاہوں سے ملائم سنگھ یادو کی جانب دیکھ رہا ہے۔ وہ کیوںاور کیسے اس پر نگاہ دالنے سے پہلے حالیہ ضمنی چنائو کے نتائج پر بھی نگاہ ڈال لی جائے۔
قارئین اب بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ حالیہ ضمنی چنائو میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو شرمناک شکست ہوئی ۔ اتر پردیش میں گیارہ اسمبلی حلقوں میں آٹھ سماجوادی اور محض تین بی جے پی جیت سکی، جبکہ ایک لوک سبھا حلقہ بھی سماجوادی کو ہی حاصل ہوا۔اسی طرح گجرات اور راجستھان میں بی جے پی کانگریس کو تین سیٹیں دونوں صوبوں میں دے بیٹھی۔ الغرض حالیہ چنائو میں مودی لہر بے اثر ثابت ہوئی اور وہ بی جے پی جو ابھی حال تک ناقابل شکست نظر آرہی تھی، وہی بی جے پی اب ایک ایسی پارٹی نظر آرہی ہے جس کو ہرانا مشکل نہیںنظر آتا ہے، لیکن بی جے پی کی یہ بدتر حالت نہ ہوتی اگر اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور شاندار حکمت عملی سے بی جے پی کو ایسی زبردست پٹخنی نہ دیتے جیسی کہ انہوں نے پچھلے ہفتے دی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ سماجوادی پارٹی کی حالیہ کامیابی کا سہرا ملائم سنگھ یادو کے سر جاتا ہے۔ ملائم سنگھ نے ایک جنرل کی طرح حالیہ یوپی ضمنی چنائو کی کمان اپنے ہاتھوں میں لے لی ایک ایک حلقے میں کس کو ٹکٹ دیا جائے، کس ذات کا نمائندہ کھڑا کیا جائے، کون کون کہاں کہاں چناوی مہم میں جائے ، کس صوبائی وزیرکا کہاں کیا رول ہو اور پھر ’لو جہاد ‘ جیسی فرقہ پرست مہم کی کاٹ کرنے کے لئے کس طرح مسلم ووٹر کو بغیر ہندورد عمل کے پولنگ بوتھ تک بھیج کر اس کا ووٹ سماجوادی پارٹی کے حق میں ڈلوادیا جائے۔ ایک کامیاب جنرل کی طرح ملائم سنگھ نے بی جے پی مخالف ووٹر کو اتر پردیش میں ہندوتوا لہر کے باوجود اکٹھا کر کے یوپی کی جنگ جیت لی۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ اس کام کو ملائم سنگھ جیسا کوئی منجھا ہوا سیاستداں ہی سر انجام دے سکتا تھا اور انہوں نے کامیابی سے یہ کام انجام دیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اس ملک میں فرقہ پرستی کے خطرے سے ملائم سنگھ جیسا تجربہ کار لیڈر ہی نپٹ سکتا ہے۔
اب ہندوستان کی نگاہیں ملائم سنگھ یادو پر لگی ہوئی ہیں، کیونکہ 2014 کے لوک سبھا چنائو نے سیکولر ہندوستان کی چولیں ہلا دی ہیں۔ اب ہندوستان ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں پھر سے ملک کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا ہندوستان ایک سیکولر ملک رہے گا یا پھر یہ ایک ہندو راشٹر بن جائے گا۔ ایسے حالات میں اتر پردیش کے نتائج امید کی کرن بن گئے ہیں اور اس ملک کے سیکولر عوام کو ملائم سنگھ یادو کی شخصیت سے وہ امید پوری ہوتی نظر آرہی ہے، کیونکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب ملائم سنگھ یادو نے اتر پردیش میں فرقہ پرست طاقتوں کو ہرا کر ملک کو فرقہ پرستی کے سیلاب سے باہر نکالاہے۔ ہندوستان 2002 کی رام مندر تحریک نہیں بھول سکتا ہے کہ جب لال کرشن اڈوانی رتھ پر سوار ہر کر بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر قائم کی مانگ کررہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب وشواہندو پریشدنے مسلمان کو بابر کی سنتان، کاروپ دے دیا تھا۔ اتر پردیش اس وقت فساداور کرفیو سے تھرا رہا تھا۔ ایسے ماحول میں 6 دسمبر 2002 کو ایودھیا میں بابری مسجد گری اور سارے ملک کو یہ لگا کہ بس اس ملک میں ہندو راشٹرا کی بنیاد رکھی جائے گی۔
بابری مسجد گرائے جانے کے چند ماہ بعد 1993 میں جب ملائم سنگھ کی قیادت میں اتر پردیش اسمبلی کا چنائو ہوا تو بس وہ ہو گیا جس کی امید کسی کو نہ تھی۔ یعنی 1993 کے اسمبلی چنائو میں بی جے پی چنائو ہار گئی اور ملائم سنگھ دوسری بار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور اس طرح ہندوستان بھر میں بی جے پی کے بڑھتے قدم رک گئے۔لب لباب یہ ہے کہ ملائم سنگھ نے 1990 کی دہائی میں ایک بار بی جے پی کو روکا تھا۔ اب پھر انہوں نے حالیہ ضمنی چنائو میں بی جے پی کو لگام لگائی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے وہ اب ملک گیر سطح پر سیکولر طاقتوں کو اکٹھا کر کے پورے ملک سے فرقہ پرستی کے خطرے کو ویسے ہی ٹال دیں، جیسے کہ انہوں نے ابھی اتر پردیش میں ٹالا ہے۔ 1990 کی دہائی میں وی پی سنگھ ، جیوتی باسو اور ہرکشن سنگھ سرجیت جیسے قد آور لیڈر موجود تھے، جنہوں نے اس وقت سونیا گاندھی کو آگے کر کے یوپی اے کی شکل میں ایک سیکولر پلیٹ فارم بنا کر بی جے پی کو روکا تھا۔ لیکن اس وقت ملک میں ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جو یہ کام کر سکے۔ کانگریس پارٹی اس قت سیاسی بحران سے گزر رہی ہے۔ سونیا گاندھی کی صحت اس لائق نہیں نظر آتی ہے کہ وہ کوئی بڑی جدو جہد کرسکیں۔ راہل گاندھی پر ابھی اس ملک کو پوری طرح بھروسہ نہیں ہے۔ فرقہ پرستی کے خلاف ملک گیر جنگ میں ایک قد آور لیڈر کی سخت ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو موجودہ حالات میں ملائم سنگھ ہی پورا کر سکتے ہیں ۔ یوں تو لا لو پرساد یادو بھی اس جنگ میں بی جے پی کے خلاف سر گرم ہیں، لیکن اتر پردیش کو ملک کی سیاست میں جو مرکزیت حاصل ہے وہ کسی اور صوبہ کو نہیں ہے۔ اس اعتبار سے نئے سیکولر مورچے کی کمان سنبھالنے کے لئے سب سے موزوں شخصیت ملائم سنگھ کی ہی ہے۔ پھر اب وہ ملک کے ایک اہم سینئر لیڈر ہو چکے ہیں۔ فرقہ پرستی کے خلاف ان کی خدمات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ ابھی بھی انہوں نے اتر پردیش میں بی جے پی کے جمے قدم اکھاڑ پھینکے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے وہ ملک گیر پیمانے پر ایک نئے سیکولر پلیٹ فارم کی کمان سنبھال کر اس ملک میں سیکولرازم کی لاج رکھ لیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو ہندوستان کی امیدوں پر کھرے اترتے ہیں کہ نہیں۔ ان کا اب تک کا سیاسی ریکارڈ یہی کہہ رہا ہے کہ انہوں نے فرقہ پرستی کے خلاف کسی جنگ میں بھی منہ نہیں موڑا ہے اور وہ اس جنگ میں بھی کمان خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے اور سیکولر ہندوستان کو ایک بار پھر سے فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں سے جیت لیں گے۔