مقتدیٰ الصدر کی سیاست سے کنارہ کشی

بغداد۔ 16؍فروری (سیاست ڈاٹ کام)۔ عراق کے سخت گیر موقف کے حامل شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے سیاست سے الگ ہونے کا اعلان اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے تحریر شدہ پیغام میں کیا۔ مقتدیٰ الصدر کے بیان کے مطابق وہ مستقبل میں نہ کوئی سرکاری عہدہ لیں گے اور نہ ہی ان کی پارلیمان میں کوئی نمائندگی ہوگی۔ مقتدیٰ الصدر اور ان کی شیعہ ملیشیا مہدی آرمی سنہ 2003 میں امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد منظرِ عام پر آئی تھی۔ ملک کے وزیرِ اعظم نوری المالکی کے ساتھ اختلافات کے باعث حالیہ سالوں میں 40 سالہ مقتدیٰ الصدر کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ نوری المالکی اپریل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے دوبارہ وزیرِاعظم بننا چاہتے ہیں جن کی مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے کھل کر مخالفت کی ہے۔ واضح رہے کہ مقتدہ صدر کی ملیشیا پر سنہ 2006 اور 2007 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہزاروں کی تعداد میں سنی مسلمانوں کو اغوا کرنے،

ان پر تشدد کرنے اور انھیں ہلاک کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اپنے تمام دفاتر بند کر رہے ہیں اور صرف فلاحی کاموں کے لیے چند دفاتر کو چلایا جائے گا۔ مقتدیٰ الصدر ایک شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے اور 11 سال پہلے صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد انھوں نے عوامی تقاریر اور انٹرویو میں امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکایا۔ ان کی وفادار شیعہ ملیشیا مہدی آرمی نے سنہ 2003 سے امریکہ کے خلاف بیشمار لڑائیاں لڑیں اور واشنگٹن نے اسے عراق میں عدم استحکام پھیلانے والی قوت قرار دیا تھا۔ ان کی ملیشیا پر سنہ 2006 اور 2007 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہزاروں کی تعداد میں سنی مسلمانوں کو اغوا کرنے، ان پر تشدد کرنے اور انھیں ہلاک کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔ سنہ 2006 میں جب ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا تو ایران فرار ہوگئے۔ دو سال بعد ان کی مہدی آرمی وزیرِاعظم نوری المالکی کی زیرِ سرپرستی عراقی فوج کے خلاف برسرِ پیکار ہوئی۔ اس دوران ان کی ملیشیا کے بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کے گروپ نے کہا کہ وہ ہتھیار ڈال کر اپنی تنظیم ختم کر رہے ہیں۔ بعد میں مقتدیٰ الصدر نے وزیرِاعظم نوری المالکی کے ساتھ صلح کر لی اور سنہ 2010 میں دوبارہ وزیرِاعظم بننے میں ان کی مدد کی۔