مقاماتِ مقدسہ میں حاضری کے آداب

کے این واصف
دنیا بھر میں عوام کا ایک عام مزاج ہے کہ ان کی نگاہ ہمیشہ حکومت یا سرکاری کارکنان کی کوتاہیوں پر رہتی ہے ۔ ہمارے جرائد اور ٹی وی چینلز حکومت اور اس کے ذمہ داران کی کارکردگی پر نکتہ چینی کرنے، ان کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اب تو عوام کے ہاتھ ایک بڑا آسان اور طاقتور ذریعہ سوشیل میڈیا آگیا ہے۔ عوام کو جہاں کہیں کوئی قابل اعتراض بات بلکہ بعض اوقات تو اعتراض برائے اعتراض والی بات بھی لوگ اپنے موبائیل فون کے کیمرے سے تصویر بناتے ہیں اور دوسرے لمحہ اس کو ای میل ، فیس بک ، واٹس اپ وغیرہ جیسے ذرائع پر جاری کردیتے ہیں۔ حالانکہ غور کیا جائے تو بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں جوعوام کی لاپروائی ، انتظامیہ کے ساتھ عدم تعاون کے رویہ یا قوانین و ضوابط کی پابندی نہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں اور بالآخر تنقید کا نشانہ انتظامیہ بنتا ہے۔

سوشیل میڈیا پر پہلے عام زندگی میں پیش آنے والے بلدیاتی ، ٹرافک وغیرہ جیسے مسائل جو ذمہ داران کی کوتاہیوں سے پیدا ہونے والے مسائل اجاگر کئے جاتے تھے، لیکن پچھلے چند دنوں میں ہم نے حرمین شریفین میں پیش آئے واقعات کو بھی سوشیل میڈیا پر پیش ہوتے دیکھا ہے ۔ یہاں ہم ایک حالیہ واقعہ کا ذکر کرنا چاہیں گے ۔ دو ماہ قبل حرم مکی میں پیش آئے ایک واقعہ کی با تصویر رپورٹ ہم نے سوشیل میڈیا پر دیکھی جسے بعد میں مقامی اخبارات نے بھی شائع کیا ۔ اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے سے قبل ہم قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ کعبۃ اللہ میں حجر اسود کو بوسہ دینے والوں کے ہجوم پر کنٹرول کرنے کی غرض سے ایک پو لیس اہلکار کو متعین کیا ہوا ہے جو چھوٹی سی منڈیر پر رسی کے سہارے کھڑا رہتا ہے اور وہ اس غیر آرام دہ حالت میں گھنٹوں کھڑا اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے ۔ حال میں ایک روز ڈیوٹی پر متعین اس اہلکار نے شاید غلطی سے اپنا ایک پیر اوپر اٹھا کر کعبہ کی دیوار سے لگادیا اور فوراً کسی نے اس منظر کو اپنے موبائیل کیمرے میں قید کرلیا اور سوشیل میڈیا پر جاری کردیا ۔ مکہ مکرمہ کے گورنر شہزادہ مشغل بن عبداللہ نے سوشیل میڈیا پر تیزی سے پھیلنے والی اس تصویر کا سخت نوٹس لے لیا۔

جس میں پولیس اہلکار گستاخانہ انداز میں کعبہ کی دیوار کو پیر لگائے کھڑا ہے۔ گورنر مکہ نے اس صورتحال پر فوری ایکشن لیتے ہوئے مکہ مکرمہ پولیس کے ڈائرکٹر جنرل کو طلب کیا اور انہیں ہدا یت دی کہ اہلکار مذکورہ کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی جائے ۔ انہوں نے خانہ کعبہ کی بے ادبی پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حرم شریف کے تقدس کا احترام واجب ہے اور اہلکار کی اس گستاخی کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ اہلکار کو کعبۃ اللہ کے نزدیک ڈیوٹی سے فوری طور پر واپس بلالیا جائے اور اس کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے ۔ پولیس اہلکار کا تصرف نہ صرف پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کیلئے متعین ضوابط سے میل نہیں کھاتا بلکہ اس کے غیر ذمہ دارانہ فعل سے دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے ۔

پولیس اہلکار کے اس گستاخانہ عمل کی مذمت اور اس کے خلاف ارباب مجاز کی جانب سے کارروائی قابل ستائش ہے ۔ اس سارے واقعہ کے بارے میں پڑھ کر ایک بات جو ذہن میں آئی وہ یہ ہے کہ کیا خانہ کعبہ میں طوافِ بیت اللہ کرنے اور حجر اسود کو بوسہ دینے والوں کو منظم یا کنٹرول کرنے کیلئے پولیس اہلکار متعین کیا جانا چاہئے ؟ ہم مکہ مکرمہ میں ضیوف الرحمان کی حیثیت میں ہیں اور کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور حجر اسود کو بوسہ دینے کے مقدس عمل کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس مقام پر پہنچ کر اہل ایمان خوف خدا وندی سے لرزہ براندام ہوجاتے ہیں کیونکہ اول یہ تو بیت اللہ ہے ، دوسرے یہ کہ حجر اسود جسے آقائے دو جہاں نبی اکرم محمد مصطفیؐ نے بوسہ دیا تھا اور ہم اس حجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا اس عمل کے پورا کرنے کیلئے پولیس اہلکار ہمیں کنٹرول کریں۔ ان اعمال کی انجام دہی کے وقت اگر ہمارے اندر خوف خدا نہیں ، احترام خانہ کعبہ نہیں اور حجر اسود کو بوسہ کا سلیقہ اور اس کے تقدس کا خیال نہیں ۔ کیا ہمیں ہماری اس بنیادی اخلاقی ذمہ داری یاد دلانے اور خانہ کعبہ میں ہمارے رویہ اور مناسب کی ادائیگی کا سلیقہ سکھانے ہمیں پولیس اہلکار چاہئے۔

ہم نے تو اس گستاخانہ عمل کے مرتکب پولیس اہلکار کو تو کیفر کردار تک پہنچادیا ۔ کیا کبھی ہمارے ذ ہن میں یہ بات بھی آئی کہ خانہ کعبہ میں ہم مناسک کی ادائیگی میں کس قدر نازیبا اور گستاخانہ عمل اور رویہ سے گزرتے ہیں ۔ ا پنا طواف جلد از جلد مکمل کرنے اور حجر اسود کا بوسہ لینے میں ہم کس قدر خود غرض ہوجاتے ہیں کہ ہم وہاں موجود عورتوں ، ضعیفوں اور اپنے ہم نفسوں کا خیال کئے بغیر صرف اپنا طواف اور حجر اسود کے بوسہ کیلئے اسلامی اقدار اور اخلاقی قدروں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ کیا ہم احترام کے اس مقام پر اس طرح پیش آکر گستاخی نہیں کر رہے ہیں؟ کیوں وہ لوگ جن کی نظریں سماجی اور اخلاقی برائیوں پر رہتی ہیں ؟ ان افراد کی نگاہیں ان لوگوں کی گستاخی ، بد اخلاقی اور نازیبا رویہ پربھاتیں اور وہ کیوں مسلسل بنیاد پر سوشیل میڈیا میں نہیں لکھتے اور انہیں کیوں نہیں بتاتے کہ حرمین شریفین کے تقدس اور ان مقامات پر کس طرح پیش آنا چاہئے اور یہاں حاضری کے موقع پر کس طرح کا رویہ اپنانا چاہئے ۔ ہمیں کس طرح عجز و انکسار کا نمونہ بننا چاہئے ۔

سعادت زیارت مسجد نبویؐ حاصل کرنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ لوگ مسجد میں بیٹھے مسلسل اپنے موبائیل کیمرے پر ویڈیو اور فوٹو گرافی کرتے ہیں ۔ یہاں ہم آپ کی توجہ کوئی چار ماہ قبل شائع ایک مختصر خبر کی طرف مبذول کرائیں گے۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ مسجد نبوی شریف کے امام شیخ علی الخدیفی نے جمعہ کا خطبہ روک کر فوٹو بنانے والوں کو تصویر کشی سے منع کیا ۔ انہوں نے موبائیل فون کے ذریعہ جمعہ کا خطبہ کی تصویر کشی کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ جمعہ کے خطبہ کا احترام کریں اور یاد رکھیں کہ جو لوگ اس قسم کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں ، ان کی نماز غیر مقبول ہوسکتی ہے ۔ اس قسم کے کام ایسے لوگ ہی کرسکتے ہیں جن کے پاس مسجد نبوی کے تقدس کا کوئی خیال نہ ہو۔ یہ سچ ہے کہ ہر شخص کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حرمین شریفین میں اپنی حاضری کو یادگار کے طور پر اپنے کیمرے میں قید کرے ۔ یہ کام وہ لوگ ادائیگی مناسک اور عبادتوں سے فارغ ہوکر حرمین کے باہر جاکر بطور یادگار حرمین کو Back ground میں رہ کر دو ایک تصویریں بنائیں نہ کہ طواف کے دوران ، روضہ اقدس پر سلام عرض کرنے کے موقع پر مسلسل ویڈیو یا فوٹو گرافی کرتے رہیں۔

امسال ہم نے عیدالفطر کی نماز مسجد نبویؐ میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ عید کی نماز کے فوری بعد سیکوریٹی فورس کے اہلکاروں نے باب بلال اور باب بقیع کے سامنے کے کھلے حصہ سے زائرین کو فوری چلے جانے کی ہدایت کی جو روضہ مبارک کی طرف رخ کر کے سلام پڑھنا چاہتے تھے ۔ دوسری طرف باب سلام جہاں سے زائرین کو عام دنوں میں رو ضہ مبارک پر حاضری کیلئے اندر داخل ہونے دیا جاتا ہے کے اطراف حرم مدینہ کے انتظامیہ نے ایک مضبوط حصار بندی کردی ۔ حصار میں دو باب الداخلے بنائے گئے جہاں سے زائرین کو آہستگی سے گروپس کی شکل میں اندر جانے کا انتظام کیا گیا تھا ۔ اس مقام سے انتظامیہ عربی ، اردو ، انگریزی اور ترکی زبان میں یہ اعلان کر رہا تھا کہ زائرین کی سہولت اور بہتر انتظام کی خاطر انتظامیہ نے یہ حصار بندی کی ہے ۔ زیارت کا موقع 24 گھنٹے کیلئے کھلا ہے ۔ زائرین کو جب گروپ کی شکل میں روضۂ مبارکہ کی طرف جانے کی اجازت دی جائے وہ اطمینان اور مقام مقدسہ کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ باب سلام کی طرف جائیں ۔ تیز چلنے یا دوڑنے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے گر پڑنے ، چوٹ لگنے کا احتمال اور دیگر زائرین کیلئے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں لیکن راقم جو وہاں موجود تھا نے دیکھا کہ جب جب ایک بڑے گروپ کو باب سلام کی طرف جانے کی اجازت دی جارہی تھی لوگ نہ صرف دوڑتے ہوئے بلکہ شور و غل مچاتے ہوئے روضہ مبارک کی طرف جارہے تھے جبکہ یہاں اونچی آواز میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ انتظامیہ کی جانب سے اعلانات کے ذریعہ منع کرنے کے باوجود لوگ بدستور اپنے موبائیل کیمروں پر ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی گر رہے تھے۔ یعنی ان لوگوں کو نہ اس قابل احترام مقام کے تقدس کا ہی خیال تھا نہ حرم کے انتظامیہ کی ہدایات کی پروا تھی ۔ کسی نعت گو شاعر نے تو زائرین مدینہ سے کہا ہے کہ ’’اے رہروان شوق یہاں سر کے بل چلو‘‘

اخبارات کے ذریعہ پتہ چلا کہ ہندوستان میں عید گاہوں میں ائمہ حضرات نے عوام سے خواہش کی کہ وہ عید کے موقع پر ریلیز ہونے والی اداکار سلمان خان کی فلم نہ دیکھیں اور اس اداکار کا بائیکاٹ کریں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے مساجد یا عیدگاہوں کے منبروں سے اس قسم کے اعلانات کئے جائیں جبکہ ہمارے پاس سماجی برائیوں کو دور کرنے ، اسلامی تعلیمات اور اخلاقی قدروں کی پامالی کو روکنے کیلئے عوام کی ہدایت و رہنمائی کی شدید ضرورت ہے ۔ آج کل لوگ ہر ملک سے بڑی تعداد میں عمرہ ، حج و زیارت مسجد نبوی کیلئے یہاں آتے ہیں۔ ائمہ کو چاہئے کہ وہ اپنے خطبات و بیانات میں ان مقامات مقدسہ کی حاضری کے آداب سے لوگوں کو واقف کرائیں۔ اپنی روز مرہ کی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات ، اخلاقی قدروں ، احکامات قرآن و سنت پر زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں۔