مفتی امان اللہ قاسمی کی دینی و ملی خدمات ناقابل فراموش

مریال گوڑہ میں تعزیتی جلسہ کا انعقاد، مولانا محمد محمود زبیراور دیگر علماء کا خطاب
مریال گوڑہ۔/31جولائی، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) مسجد عرفات چھوٹی مسجد، سیتا رام پور مریال گوڑہ میں بعد نماز مغرب ایک تعزیتی جلسہ حضرت مولانا مفتی امان اللہ قاسمی سابق ناظم مدرسہ مدینتہ العلوم مریال گوڑہ  منعقد کیا گیا جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مولانا سید احسان الدین قاسمی ناظم مدرسہ دارالعلوم نلگنڈہ، مولانا محمد عبدالبصیر قاسمی ناظم تنویر البنات نلگنڈہ، مولانا اطہر حسامی نلگنڈہ، مولانا اطہر مظاہری ناظم بیت العلوم سریا پیٹ، مولانا عبدالقادر ناظم مدرسہ مدینتہ العلوم کوداڑ، مفتی خواجہ معین الدین جگیا پیٹ، حافظ خواجہ نذیر الدین ناظم مدرسہ عائشہ نسواں حیدرآباد، مولانا محمد محمود زبیر قاسمی جنرل سکریٹری جمعیتہ العلماء آندھرا و تلنگانہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر علمائے کرام کی جانب سے حضرت مولانا مفتی امان قاسمی کو ان کے دینی ملی علمی خدمات پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس موقع پر جلسہ سے مخاطب کرتے ہوئے مولانا محمد محمود زبیر سکریٹری جمعیتہ العلماء نلگنڈہ و آندھرا نے کہا کہ مولانا جہاں ایک طرف جید عالم دین اور دینی بصیرت کے حامل تھے وہیں اللہ پاک نے ان کو بہترین سیاسی بصیرت سے بھی نوازا تھا۔ دینی معاملات اور مشوروں میں ان کے فیصلے جہاں انتہائی معتبر سمجھے جاتے تھے وہیں حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر تھی۔ جب کبھی بھی مسلمانوں کا کوئی بھی سیاسی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ فوری متعلقہ سیاسی قائدین اور افسران سے ربط پیدا کرتے ہوئے اس مسئلہ پر ان سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ان پر اپنا دباؤ ڈالتے ہوئے ان کو حل کرنے کی کوشش  کرتے اور بارہا یہ دیکھا گیا کہ جب بھی کوئی سیاسی قائد مریال گوڑہ کے دورے پر آتے تو ان سے ملاقات کے بغیر نہیں جاتے۔ معروف دینی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند شعبہ عربی سے تعلق رکھنے والے مولانا نور عالم خلیل کے ساتھیوں میں مولانا امان اللہ قاسمی کا شمار ہوتا تھا۔ اس موقع پر مولانا اطہر مظاہری ناظم مدرسہ بیت العلوم سریا پیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کا تعلق گوکہ ریاست بہار سے تھا مگر وہ ہمارے والد محترم حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب سابق ناظم مجلس علمیہ سے نہایت گہرا تعلق تھا دوسرے الفاظ میں وہ ہمارے گھر کے ایک فرد شمار کئے جاتے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر مقامی حفاظ و طلباء سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحوم نے جس دینی درسگاہ کی ترقی کیلئے اپنی ساری توانائیاں صرف کیں اور صرف مدرسہ اور مریال گوڑہ کے ہی ہوکر رہ گئے تھے اب آپ تمام حفاظ و علماء کی ذمہ داری ہے کہ آپ اس دینی درسگاہ کو سرسبز و شاداب بنائے رکھتے ہوئے اس دینی چشمہ سے اس علاقہ کے عوام کو سیراب کریں۔ ان کے لئے یہ ایک بہترین خراج عقیدت ہے۔ مولانا عبدالبصیر رشادی و قاسمی ناظم مدرسہ تنویر البنات نلگنڈہ نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ و آندھرا کے جید علماء میں مفتی امان اللہ کا شمار کیا جاتا تھا وہ کئی ایک دینی مدارس کے سرپرست رہے اور ریاستی مجلس علمیہ و جمعیتہ العلماء کے بھی ذمہ داران میں مفتی امان کو شمار کیا جاتا تھا۔ مولانا کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ وقت کے بڑے پابند تھے۔حافظ خواجہ نذیر الدین ناظم مدرسہ عائشہ نسوان حیدرآباد نے کہا کہ مفتی امان کی دینی محنت مریال گوڑہ شہر کے علاوہ دیہاتوں میں بھی تھی۔ جہاں فتنہ قادیانیت اور عیسائیت نے ضیعف ایمان حضرات کو اسلام سے ہٹاکر دنیا اور آخرت کی سرخروئی سے محروم کرتے تھے ایسے خطرناک ماحول میں مولانا مرحوم ان دیہاتوں کا سفر کرکے فتنہ قادیانیت اور عیسائیت کے خاتمہ کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مفتی امان کی جوانی کا ایک بڑا حصہ ( چالیس سالہ زندگی ) مریال گوڑہ شہر اور اطراف و اکناف کے دیہاتوں کے مسلمانوں کی ایمان کی حفاظت اور اصلاح میں گذرا ۔ مولانا احسان الدین قاسمی ناظم مدرسہ دارالعلوم نلگنڈہ نے خطاب کرتے ہوئے مولانا کی رحلت پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔ مولانا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ انتہائی سادہ مزاج اور تواضح کے حامل تھے اور ہر ایک سے گھل مل جاتے۔ اس موقع پر مولانا عبدالقادر ناظم مدرسہ مدینتہ العلوم کوداڑ، خواجہ معین الدین جگیا پیٹ، مولانا مخدوم محی الدین، مولانا ضیاء الرحمن اکرم، مولانا مفتی عمران، مولانا جاوید نے بھی خطاب کیا۔ جلسہ کا آغاز حافظ و قاری حنیف کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حافظ شاکر نے نعت شریف سنانے کی سعادت حاصل کی۔ نظامت کے فرائض مولانا مفتی عبدالمعید ریاض نے انجام دیئے۔ حافظ سید ابراہیم عارف نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ مولانا ضیاء الرحمن اکرم نے مہمانوں اور جلسہ میں تعاون کرنے والے تمام احباب کا شکریہ ادا کیا۔ مولانا سید احسان الدین کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا۔ اس جلسہ میں حفاظ ، علماء اور مریال گوڑہ کے علاوہ اطراف واکناف کے مسلمانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔