مفاد پرستی کیلئے مذہب کااستعمال

ظفر آغا

’’اسلام خطرہ میں ہے‘‘ یہ نعرہ ہندوستان میں سب سے پہلے غالباً 1857 کی غدر کے وقت گونجا تھا ۔ پھر تو مسلم قائدین پر ذرا سی آفت آئی اور اسلام خطرے میں آیا ۔ گو جنگ آزادی کے دوران کیا بلکہ اس کے کافی بعد تک اس عالم فانی میں ہمارا وجود بھی نہ تھا ،لیکن بزرگوں سے اور اکثر کتابوں کے حوالوں سے یہ ضرور معلوم ہوا کہ مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی قیادت میں اسلام کو خطرے میں ڈال کر پاکستان کو جنم دے دیا تھا ۔ اس پاکستان میں اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، ہاں اب اسلام ضرور خطرہ میں ہے اور اسلام کو یہ خطرہ کسی اور سے نہیں بلکہ خود ان مسلمانوں سے ہے جو اسلامی تعلیمات سے دور ہیں ۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب توکبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر اسلام اور مسلمان کیلئے دنیا میں کہیں سب سے زیادہ محفوظ جگہ ہے تو وہ صرف ہندوستان ہے ۔

خیر بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پہلے تو اسلام کو مسلم لیگ جیسی مسلم پارٹیوں نے خطرے میں ڈال کر بٹوارے کی سیاست کو چمکایا ۔ پھر لیگی تو پاکستان چلے گئے اور اس کے بعد اسلام کا ٹھیکہ سیاستدانوں اور علماء کے پاس آگیا۔ بس پھر کیا تھا آئے دن اسلام خطرے میں ہوتا اور فتنوں کی چھاؤں میں ، اسلام کا تحفظ ہوتا رہا ۔ تحریک پاکستان کے بعد اسلام کو اس ہندوستان میں دوسرا سب سے بڑا خطرہ اس وقت ہوا جب سپریم کورٹ نے شاہ بانو کو یہ حق دے دیا کہ ایک طلاق شدہ عورت کو طلاق دینے والے پر اسکو نان نفقے (انگریزی میں اس کو Maintenance کہتے ہیں) دینے کا حق ہے ۔شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ فیصلے کے بعد اسلام پھر زبردست خطرہ میں آگیا ۔ تحریک پاکستان کے بعد پہلی بار مسلمان پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم قائدین ملت کے زیر سایہ لاکھوں کی تعداد میں شاہ بانو فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل پڑے ۔ دہلی کا بوٹ کلب نعرہ تکبیر کی صداؤں سے گونج اٹھا۔ راجیو حکومت جھک گئی ۔ شاہ بانو کو سپریم کورٹ نے جو maintenance کا حق دیا تھا ۔ وہ پارلیمنٹ نے واپس لے لیا ۔ مسلمان مرد کو تین طلاق (جس کو پرسنل لابورڈ بھی طلاق بائن مانتا ہے) کا پھر سے ڈر ختم ہوگیا کیونکہ جب بیوی کو maintenance دینے کا حق ہی نہیں رہا تو جب چاہو تین طلاق کہو اور بیوی کو گھر سے باہر کرو ۔ بہرحال اس واقعہ سے ہندوستانی سیاسی پارٹیوں کویہ سمجھ میں آگیا کہ بھائی اگر مسلم ووٹ چاہئے تو مولویوں کو رام کرلو بس مسلم ووٹ کھڑا ہوگیا ۔

یہ تو رہا قصہ ہندوستان کا جس کا لب لباب یہ تھا کہ سیاسی اور اسلام اور مولویوں کا ایک سیدھا رشتہ بن گیا ۔ جس میں اسلام خطرہ میں رہتا ہے اور اس کے محافظ عموماً علماء ہوتے ہیں ۔ لیکن سیاست اور اسلام کا یہ رشتہ ہندوستان کے راستے پاکستان بھی پہونچ گیا ۔ جہاں جناح صاحب مذہب کی سیاست کی جڑیں پہلے ہی جماگئے تھے ۔ 1980 کی دہائی میں سابق سوویت یونین کی فوجوں نے قدم رکھا نہیں کہ پاکستان کی مسجدوں اور مدرسوں میں اسلام خطرہ میں آگیا اور تواور اب اسلام ایسے خطرے میں آیا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں جگہوں سے جہاد کا نعرہ بلند ہوگیا اور دیکھتے دیکھتے سارے عالم اسلام سے مجاہدین پاکستان میں فوجی ٹریننگ لے کر افغانستان میں اسلام بچانے کو پہنچ گئے ۔ اس بھیڑ میں ایک شخص تھا جس کا نام اسامہ بن لادن تھا جس نے اسی دور میں ایک تنظیم بھی بنالی جس کا نام القاعدہ رکھا جس سے ساری دنیا واقف ہے ۔ لیکن جب تک اسامہ بن لادن سوویت یونین کے خلاف لڑتے رہے تب تک وہ امریکہ کے بھی دوست رہے اور امریکہ کو اس وقت تک اسامہ دہشت گرد نہیں نظر آئے ۔ لیکن 9/11 کے واقعہ کے بعد اسامہ اور القاعدہ دونوں دہشت گرد ہوگئے اور اس وقت سے اسلام مستقل خطرہ میں ہے ۔ اب یہ عالم ہے کہ خود ساختہ خلافت اسلامیہ کو ایک برس ہوگیا اور اس کے خلیفہ ابوبکر البغدادی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو عراق و شام پہنچ کر دفاعِ اسلام میں جہاد کرنے کی دعوت دے دی ۔ اور اب ہزاروں کی تعداد میں نوجوان مسلم مرد ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی ان کی دعوت جہاد پر لبیک کہہ کر عراق و شام جارہے ہیں لیکن ابوبکر البغدادی کی خلافت میں جس اسلام کا ڈنکا بج رہا ہے اسکی شکل کیا ہے ؟ وہاں بے گناہ جرنلسٹ اور جنگ سے بدحال مسلمانوں کی مدد کرنے والے Aid workers کو اللہ ہواکبر کہہ کر جانور کی طرح ذبح کیا جارہا ہے ۔ محض اس کو ذبح ہی نہیں کرتے بلکہ اسکا ویڈیو بڑے فخر سے داعش کی ویب سائٹ پر لگاتے بھی ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کرنیوالے بوکوحرام کے لیڈر انگریزی پڑھنے والی لڑکیوں کو اٹھا کر لے گئے جن کو صرف یہ حکم تھا کہ وہ بوکوحرام کے جنگجوؤں کے ساتھ زبردستی اسلام قبول کرنے کے بعد شادی کریں ورنہ ان کو جہادیوں کی غلامی میں دے دیا جائے گا ۔

نعوذ باللہ کیا یہی اسلام ہے جس میں قتل و غارت گری اور عورت کے ساتھ ہر فعل جائز ہے؟ ہم مسلمان آج کے جہادیوں سے یہ سوال کررہے ہوں یا نہیں لیکن دنیا تمام اہل اسلام سے اب یہی سوال کررہی ہے ، جسکا جواب اب مسلمانوں سے نہیں بن پڑرہا ہے ۔ کیونکہ جو مسلم لیگ نے 1940 کی دہائی میں اسلام کے ساتھ ہندوستان کی اس وقت کی مسلم قیادت نے کیا تھا وہی کام پھر تمام عالم اسلام کے سیاستدانوں نے کم و بیش دنیا بھر میں کیا ۔ پاکستان میں فوج کو سمجھ میں آگیا کہ اسلام خطرہ میں ہے یہ نعرہ بلند کرو اور پھر جس کو چاہو کوڑے لگاؤ اور جہاد کے نام پر سوویت یونین کے خاتمہ کے لئے امریکہ سے کروڑہا ڈالر کی امداد بھی کھاؤ یعنی مسلم لیگ نے جس اسلام کو بٹوارے کی سیاست کے لئے استعمال کیا اسلام کا وہ رشتہ ساری دنیا میں جڑ پکڑتا گیا جس کا استعمال پاکستان جیسے جرنلوں نے کیا اور امریکہ نے کیا ۔ لیکن آہستہ آہستہ ان ’مجاہدین‘ کو یہ سمجھ میں آنے لگا کہ بھائی ہم تو جہاد کے نام پر مر کٹ رہے ہیں اور اقتدار کے مزے یہ جنرل اور قائدین ملت اٹھارہے ہیں ۔ بس اسامہ نے پھر اعلان کردیا کہ اب ہم کسی کے تابعدار نہیں ۔ تب سے اسلام خطرے میں تو ہے لیکن اب اسکا استعمال وہ دہشت گرد کررہے ہیں جو اکثر سیاستدانوں اور جرنلوں کے ہاتھوں سے بھی نکل گئے اور اس وقت عالم اسلام کے لئے خطرہ بن گئے ہیں ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ واقعی اسلام بھی خطرے میں ہے اور مسلمان بھی خطرے میں ہیں ۔ غیر مسلم اسلام کو رسول کریم اور قرآن کا بتایا ہوا اسلام ماننے کو تیار نہیں اور البغدادی جیسے مجاہدین مسلمانوں کو مسلمان ماننے کو تیار نہیں جو ان کی طرح معصوموں کا گلا نہ کاٹیں ۔ تب ہی تو میرے سامنے اس کالم کو لکھتے وقت ایک اخبار پڑا ہے جس کے صفحہ اول پر یہ خبر ہے کہ البغدادی کے جنگجوؤں نے گذشتہ رات ساٹھ لوگوں کو ہلاک کردیا جس میں زیادہ تر لوگ تیونس اور کویت میں مارے گئے ۔ کیا کویت اور تیونس میں مارے جانے والے مسلمان نہیں تھے ؟ پاکستان ، افغانستان ، عراق ، شام میں جو لوگ مارے جارہے ہیں وہ کیا مسلمان نہیں ہیں ۔ جناب ایک 9/11 کے بعد سے آج کے جہاد میں جتنے افراد مارے گئے ہیں ان میں 90 فیصد سے بھی زیادہ مسلمان تھے ۔ یہ کون سے انتہا پسند ہیں جو مسلمانوں کو ماررہے ہیں ۔

بس یہ کہئے کہ اب محض اسلام ہی خطرہ میں نہیں بلکہ خود مسلمان بھی خطرہ میں ہیں اور وہ کیوں ؟ کیونکہ مسلم لیگ نے 1940 کی دہائی میں دور حاضر کی سیاست کا جو رشتہ اسلام سے جوڑا تھا وہ اب اس قدر خطرناک ہوگیا ہے کہ خود مسلمان اس کی زد میں آگیا ہے ۔ تو پھر ہو کیا ؟ بس ایک ہی راستہ ہے جس کا سبق ہم ہندوستانی ہر وقت غیر مسلموں کو دیتے رہتے ہیں ۔ وہ راستہ کیا ہے ؟ وہ راستہ سیکولرازم کا ہے ۔ عراق میں خلافت اسلامیہ کے قیام کے بعد اس جون کی گرمی میں دنیابھر کے مسلمان اسی سوال سے جوجھ رہے ہیں جس کا جواب ابھی تک کہیں سے صاف سنائی نہیں پڑتاہے ۔ اس لئے اب صرف اسلام ہی خطرے میں نہیں رہے گا بلکہ خود مسلمان بھی دنیا بھر میں آنے والے برسوں میں خطرے میں رہے گا !