مغربی تہذیب اور نوجوان نسل

پروفیسر سید دستگیر پاشاہ

اقوام عالم میں سب سے مقدم اور سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ انسانی تمدن و تہذیب کا ہے کہ انسان کی کامیابی کے لئے مشرقی تہذیب کارآمد ہے یا مغربی تہذیب ایک طرح کا سنجیدہ تصادم آج سارے عالم میں برپا ہے ۔ حالانکہ ارباب مجاز کا کہنا ہے کہ تہذیبیں ٹکرایا نہیں کرتیں بقول ڈاکٹر ذاکر حسین تہذیبیں ٹکرایا نہیں کرتیں وحشتیں ٹکرایا کرتی ہیں ۔ موصوف نے تہذیب کا موازنہ وحشت سے کرکے بنی نوع انسان کی پستی و بلندی کو واضح کردیا ہے آج ہندوستانی سماج میں ایک بڑا مسئلہ حیوان ناطق کا ہے جن کی زندگیوں کو دیکھ کر جانور بھی شرما جائیں کہ اللہ نے آپ کو خلیفتہ اللہ بنایا اور آپ کیا بن گئے ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کا کوئی مقصد حیات نہیں ان کا تعلق براہ راست زنا پھر قتل و غارت گری سے ہے ۔ یہ خدا فراموش اور خود فراموش ہوتے ہیں ۔ یہ افراد تہذیب یافتہ ہرگز نہیں ہوسکتے ان کا تعلق کسی بھی تہذیب سے نہیں ہوسکتا ۔

ایسے ہی افراد کے ہاتھوں دیس و دین بدنام ہوتے ہیں۔ کیا ہمارے لئے یہ شرم کی بات نہیں کہ بیرونی ممالک کی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہندوستان اس لئے نہیں آتیں کہ ان کیساتھ برا سلوک ہوگا ۔ اب ہم یہ کہہ کر دوش نہیں دے سکتے کہ یہ سارا کھیل مغربی تہذیب کا ہے مغربی تمدن کی ایجاد کردہ ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ برائیاں عام ہورہی ہیں ۔ ناچ گانا ، نیم عریانیت کا مظاہرہ ہورہا ہے اس لئے ان جدید ایجادات کا استعمال ممنوع قرار دیا جائے یہ سوچ ترقی کے راستے میں روڑے اٹکانے کے برابر ہے ۔ انکار کس کس سے کروگے کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں سائنس اور ٹکنالوجی کا استعمال نہیں ہے معاشیات ، طب ، کیمیا ہر جگہ ان کا بول بالا ہے ۔ ان ہی کا جال بچھا ہوا ہے آج کوئی بھی قوم جدید ایجادات سے انکار کرکے پچھڑنا نہیں چاہتی ۔ سائنس اور ٹکنالوجی افکار تازہ کی دین ہیں سائنسداں بے کار نہیں ہوسکتا وہ اپنی تحقیق وتخلیق کو خون جگر سے سینچتا ہے ۔

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
آج کا مشرقی نوجواں خواب غفلت سے بیدار ہو کر آنکھ کھول کر دیکھے کہ دنیا تحقیق و تنقید کی بدولت فطرت کو تسخیر کررہی ہے ۔ یہ انسان اپنی تخلیقی چیزوں پر اتراتے ہوئے اپنا اصل مقصد حیات خدا کی بندگی بھول چکا ہے کرہ ارض پر ایک ہلچل مچی ہوئی ہے ۔ اس کھلبلی و گھبراہٹ میں مغرب ہو یا مشرق سب گرفتار ہیں دنیا کمیکل بم نیوکلیئر بم کے منہ پر رکھی ہوئی ہے ۔
آج کے نوجوان کو یقین دلانا ہوگا کہ تسخیر کی ہوئی مادی چیزوں میں کس کی قدرت کارفرما ہے ۔ ذرہ کس کا پیدا کردہ ہے کیا تمام مخلوق مل کر ایک ذرہ پیدا کرسکتی ہیں ۔ جیسے ایک مٹی کا ذرہ ہزاروں لاکھوں کروڑوں elements رکھتا ہے جس کی بدولت الکٹرانک علم میں آیا ہے ۔ اس مٹی میں کس کی قدرت کام کررہی ہے یہ ذرہ ایک لمحہ میں دنیا کے گوشے گوشے میں آواز پہنچاتا ہے ۔ یہ مذہبی و روحانی تعلیمات کی بدولت ہی یقین بنے گا کہ دنیا کا سکون خدا کے مطیع ہونے میں ہی ہے مشرقی تہذیب کا سب سے بڑا مقصد ہے ، بندہ خالق کا مطیع ہو اور اس کے عطا کردہ قوانین کا پابند ہو اور اس پر یقین رکھتا ہو ۔
مشرقی تہذیب میں روحانیت کی فضا سیکڑوں سال سے رہی ہے جو عارفوں کے وجدان ، زاہدوں کی ریاضت اور فنکاروں کے تخیل سے پیدا ہوئی ہے ۔ صوفیا کرام کے سلسلے جس کی بہترین مثال ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں پہلے پہل مادی تہذیب یا مغربی تہذیب کی مخالفت ہوتی رہی مگر مقامی جدت پسند محرکوں اور انگریزوں کی جدید ایجادات کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ تہذیب اثرکرتی رہی ۔ آج ہندوستان کیا ساری دنیا اس کی گرویدہ ہے ۔ بقول مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مغرب سے مشرق تک کوئی ملک ان کے اثر اور نفوذ سے خارج نہ رہا ۔ آج قومیں یا تو مادی اور سیاسی حیثیت سے ان کی غلام اور زیر فرماں ہیں یا ذہنی علمی اور تہذیبی حیثیت سے زیر اثر اور زیر اقتدار ہیں ۔

حالانکہ مغرب میں تہذیبی زندگی ایشیا کے بہت بعد ان قوموں کی بدولت شروع ہوئی جو ایشیائی ملکوں سے جاکر وہاں آباد ہوئیں ۔ ایران اور ہندوستان 1000 ق م میں شاندار تہذیبوں کے مراکز تھے ۔ سید عابد حسین لکھتے ہیں کہ اسی زمانہ میں آریہ قبائل جن میں سے بعض ایران اور ہندوستان میں شاندار تہذیبوں کی بنیاد ڈال چکے تھے ، وسطی اور جنوبی یوروپ میں یونان میں یونانی تہذیب کی اور روما میں رومی تہذیب کی بنیاد ڈالی ۔ یہ وہ بڑے مرکز تھے جہاں سے تہذیبی اثرات رفتہ رفتہ سارے یوروپ میں پھیلے اور آج بھی مغربی تہذیب میں موجود ہیں ۔ یوروپ میں انسانی زندگی جغرافیائی و ماحولیات کی وجہ سے سخت کشمکش میں گزرتی تھی ، شدت کے موسم ، چھوٹے چھوٹے جزیرے ، پہاڑ اور برف کی وادیاں ان میں زندگی گزارنے کے لئے سہولت مہیا کرلینا ان کے لئے اشد ضروری تھا ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اسی لئے انہوں نے دنیا کے مختلف علماء بالخصوص مسلمانوں کے آغاز کردہ علوم کو حاصل کرکے تحقیق و تخلیق کے میدان جیت لئے اور فطرت سے سخت کشمکش کرکے کامیابی حاصل کرنے کے بعد بعض لوگ مذہب سے مخالفت کرنے لگے اور بعض تحریف شدہ مذاہب سے بیزار ہوگئے اور رد و بدل کرنے لگے ۔ سیاست و مذہب علم و مذہب ایک دوسرے کے ضد اور مقابل واقع ہوئے ۔ غرض کہ اس جدید مغربی تہذیب پر جامع تبصرہ کرنے کے لئے یہاں وقت درکار ہے مجھے صرف عنوان کے تحت ان بنیادی اصولوں پر ایک نظر ڈالنی ہے جن کے ذریعہ یہ تہذیب اپنا جال بچھاتی رہی ۔ سید عابد حسین ان اصولوں کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔
۱) اجتماعی زندگی کا مرکز ریاست کو قرار دینا
۲ ) مذہب کو انفرادی چیز سمجھ کر سیاست سے الگ رکھنا
۳) فرد کو مذہبی اور ذہنی آزادی اور ایک حد تک سیاسی آزادی دینا
۴) علم کی بنا عقل اور تجربے پر رکھنا اور اس کا مقصد تسخیر فطرت اور مادی تمدن کی ترقی کو قرار دینا

۱) اجتماعی زندگی کا مرکز ریاست کو قرار دینا ۔ اس مقصد کو لے کر یوروپ کے ادیب و علماء نے کہا کہ خدائے تعالی اپنے خاص بندوں کو اس کام پر مامور کرتا ہے کہ شیطانی قوتوں کو شکست دے کر حق کی حکومت دنیا میں قائم کریں ۔ اس جد و جہد میں کامیاب ہونے کا انعام دولت اور حکومت ہے جو خدا کے فضل سے برگزیدہ قوموں کو عطا ہوتی ہے ۔ اس عقیدے نے جہاں ان کی سخت کوشی جفاکشی اور ضبط نفس کو اور پختہ کردیا وہاں ان کے کسب زر کا شوق ملک گیری کی ہوس کو بھی مذہبی تقدس کا جامہ پہنادیا ۔ ان کو یقین ہوگیا کہ ان کی قوم خدا کے برگزیدہ بندوں کی حمایت ہے جو دنیا پر حکومت کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہے اور سیاست اور تجارت میں ان کی کامیابی خدا کی خوشنودی کی نشانی ہے ۔علامہ اقبال رمز شناس تھے اس نظریہ پر کہا کہ

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
۲ ) مغربی تہذیب کا دوسرا اصول مذہب کو سیاست سے الگ رکھناہے ۔ مذہب سیاست کی مکاریوں میں رکاوٹ پیدا کرسکتا ہے ۔ مذہب کا پہلا فرض خدا کا یقین اور تقوی ہے ۔ ایثار و قربانی ہے ۔ مکاری اور قربانی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ سامراجی حکومتوں کا نصب العین کیا تھا ۔ اس اصول کے تحت ان کی سیاست میں خود غرض مکاری شامل ہوگئی ۔ شعر ملاحظہ ہو
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
۳) تیسرا اصول فرد کو مذہبی اور ذہنی آزادی دینا سے مراد مذہب یا بغیر مذہب کے زندگی گذارنے کا حق دیا گیا جس کی وجہ سے ان کی سماجی زندگی اجڑ گئی ۔ جو قوم فیضان سماوی سے محروم ہو اس کے شرف و عزت کی ہلاکت یقینی ہے ۔ عریانی ، مے نوشی ، مجرد زندگی غرض من چاہی زندگی کا شکار ہوگئے ۔ زندگی اجیرن ہوگئی ۔ فیشن ، جسم کی نمائش والی تجارتیں اسی کی دین ہیں ۔
۴) چوتھا اصول علم کی بنا عقل اور تجربے پر رکھنا اور اس کا مقصد تسخیر فطرت اور مادی تمدن کی ترقی کو قرار دینا ہے ۔ عقل اور تجربے کے ذریعہ علم الطبیعیات ، علم الفلکیات میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ سیاروں کی سیر کرنے لگے ۔ بھاپ اور بخارات سے ایسے کام لئے کہ دنیا حیرت کرنے لگی من جد و جدہ (حدیث) جس نے کوشش کی اس نے پالیا کے مصداق یہ مادی تہذیب ساری دنیا پر اثر کرنے لگی ۔ یوروپ کا رخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف ہوگیا ۔ خیالات ، نقطہ نظر ، نفسیات و ذہنیت ، اخلاق ، اجتماع علم و ادب حکومت و سیاست کی غرض زندگی کے تمام شعبوں میں مادیت غالب آگئی ۔ ترقی پسند مصنفین ادارہ اسی تحریک سے متاثر تھا ۔ یوروپین نے علوم طبیعیات کے ذریعہ غور اور بحث کرنی شروع کی کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے نہ منتظم ۔ اس کے ظواہر و آثار کی تشریح خالص میکانیکی طریقہ پر کرنے لگے اور اس کا نام علمی و تحقیقی طرز قرار دیا ۔ خدا کے وجود اس کے یقین کے نظریہ کو تقلیدی اور غیر علمی کہنے لگے اور اس کا مذاق اڑانے لگے ۔ حرکت اور مادہ کے علاوہ ہر چیز کا انکار کردیا اور ہر اس چیز کے ماننے سے عذر کیا جو حواس اور تجربہ کے اندر نہ آسکے اور جس کا وزن شمار و پیمائش نہ ہوسکے اس کا طبعی اور منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کا وجود اور تمام حقائق مابعد الطبیعیات ایسے فرد بن گئے جن کی گویا عقل و علم سے کوئی تائید نہیں ہوتی ۔حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا موجودہ مذہب جس کی دلوں اور حکومت ہے وہ عیسائیت نہیں بلکہ مادہ پرستی ہے ۔ مغربی نفسیات و مظاہرات سے اس کی قدم قدم پر تصدیق ہوتی ہے ۔

مغربی تہذیب صاف صاف پرزور طریقہ پر خدا کا انکار نہیں کرتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذہنی نظام میں اللہ کی کوئی جگہ نہیں اور اس کے ماننے میں وہ کوئی فائدہ محسوس کرتی ہے اور نہ اس کی ضرورت سمجھتی ہے ۔غرض کے خدا فراموشی عام ہے ۔ ہمارا نوجوان بصارت ہی نہیں بصیرت کی آنکھ سے دیکھے اقوام عالم کا مطالعہ کرسکے اور اس مغربی مادہ پرست تہذیب کی خوبیوں اور خامیوں کو جانے ان ایجادات کو خدا کی قدرت رحمت ونعمت کے طور پر استعمال میں لائے اوردنیا کو یہ یقین دلائے کہ یہ خدا کی نعمتیں ہیں ان سے مستفید ہونا محض اللہ کا انعام اور اس کی بخشش ہے ۔ عقل و تدبر ، علم و حکمت اور مادہ میں قوت وحرکت خدا ہی کی قدرت ہے کہ یقین دلائے اور ان نعمتوں کو جہاں استعمال کیا اور ان کا کیا حق ادا کیا ایک دن حساب دینا ہے کا یقین بھی دلانا ہوگا ۔ یہ وہ سوالات ہیں جو مشرقی اقوام کے ضمیر میں پیوست ہیں اپنی خود فراموشی میں بھی ان کے دل کی گہرائیوں سے بار بار اٹھتے رہتے ہیں ۔ مشرق نے ان فطری و ایمانی سوالات کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا ۔ بعد الطبیعی و روحانیت مجاہدہ و ریاضت علم و حکمت یہ مشرقی علوم و تجربات خدا کے یقین کا پیغام دیتے رہے ہیں ۔ خدا کا وعدہ ہے کہ تم ہی بہترین امت ہو جو نفع رسانی کے لئے پیدا کی گئی ہے تم ہی سربلند رہوگے ۔ خدا کے پیغام کے تحت ہمیں یہ یقین ہے کہ یقیناً ہم دنیا کو جگاسکتے ہیں خدا کے بندوں کو خدا سے ملاسکتے ہیں ۔ قرآن اور حدیث و بزرگان دین کی روحانی تعلیمات سے مشرق ہو یا مغرب ان کے تاریک دلوں میں روشنی پیدا کرسکتے ہیں ۔غرض کہ امید کو قائم رکھنا ہوگا اور جد وجہد کرنی ہوگی ۔