معصوم لڑکیوں کے ساتھ عصمت ریزی کرنے والوں کو موت کی سزا پر دائیر پی ائی ایل کے وکیل الاک الوک سریواستو سے ملاقات

ہفتہ کا دن الاک الوک سریواستو کے لئے نہایت مصروف ترین رہا کیونکہ جنوری میں انہوں نے عدالت میں ایک پی ائی ایل دائر کی تھی جس کے تحت انہوں نے عصمت ریزی کے مرتکبین کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کیاتھا اور ہفتہ کے روز اسی ضمن میں مرکزی حکومت بارہ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے ساتھ عصمت ریزی اور بے رحمانہ قتل کے مرتکبین کے لئے سزائے موت کے ارڈنینس کو منظوری دینے کی تیاری کررہی تھی۔

سریواستو نے ایک اٹھ ماہ کی معصوم کے ساتھ اس کے 28سالہ رشتہ کے بھائی کی جانب سے بے رحمانہ عصمت ریزی واقعہ میں انصاف کے لئے پی ائی ایل دائیر کی تھی۔

دہلی یونیورسٹی کے گولڈ میڈل یافتہ سریواستو نے کہاکہ’’ میں اخبار میں اس کیس کے متعلق مطالعہ کیا اور معصوم کو دیکھنے کے لئے اسپتال گیا۔ بڑے تکلیف دہ لمحہ تھا ۔ معصوم کے گھر والے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لوگ تھے ‘ جن کے پاس علاج کی گنجائش نہیں تھی۔

اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ انصاف کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاؤں۔اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے لئے سزائے موت سے ہٹ کر کچھ نہیں ہے‘‘۔ پی ائی ایل کے پیش نظر سپریم کورٹ نے ایک میڈیکل بورڈ کا نفاذ عمل میں لاتے ہوئے معصوم کی جانچ اور بہتر علاج کے لئے انتظامیہ کو ہدایت دی۔

متاثرہ کے والدین سوائے شکریہ کے کچھ اور نہیں کرسکتے۔ رشتہ داروں اورچاہنے والوں کے شکریہ کے فون کالس وصول ہونے کے بعد کہاکہ و ہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا ایس ایچ کپاڈیہ سے متاثر ہوئے ہیں جنھوں نے بہتر تنخواہ والی ملازمت چھوڑ کر مقدمہ سازی میں شامل ہوگئے۔انہوں نے کہاکہ ’’ دہلی یونیورسٹی میں جسٹس کپاڈیہ نے 2012کے کنونشن میں تشریف لائے تھے۔ اسی سال میں نے ٹاپ کیاتھا ۔

مجھکو گولڈ میڈل عطاء کرتے ہوئے انہو ں نے کہاتھا کہ سماج کے پسماندہ طبقات کے ساتھ انصاف کی لڑائی میں میرے جیسے نوجوانوں کی حصہ داری ضروری ہے‘‘۔اس کے فوری بعد ہندوستان پٹرولیم میں لا ء افیسر کی ملازمت چھوڑدی ۔ سال2014میں انہوں نے اپنے طور پر پریکٹس کی شروعات کی ۔

انہو ں نے 2017میں پہلی پی ائی ایل دائرکی تھی جو چندی گڑھ میں اس کے انکل کے ہاتھوں عصمت ریزی کاشکار ہوئے دس سال کی معصوم کا حمل ساقط کریاگیاتھا۔ عدالت نے حمل ساقط کرانے کی اجازت دینے سے انکار کردیاتھا۔

دوبیٹیوں کے والد سریواستو نے کہاکہ اس واقعہ کے بعد میں نے معصوم لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے اس طرح کے جرائم کے معاملات میںآگے بڑھ کر کام کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ بیٹیوں کے باپ کی حیثیت سے میں متاثرہ والدین کے درد کو سمجھ سکتا ہوں‘ اگر میں کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا تو خود کو کبھی معاف نہیں کرسکتا تھا‘‘