معتبری کی نفسیات

ڈاکٹر مجید خان
آپ کی زندگی کا وہ عقلی حربہ جو معلومات کی معتبری کو جانچتا ہے اس کا آپ نے کبھی جائزہ لیا ۔ دھوکے بازی سے کس طرح بچا جائے اس موضوع پر نفسیاتی تحقیق گذشتہ 40 برسوں سے ہورہی ہے ۔ انٹرنیٹ کے وسیع استعمال سے اس موضوع کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے ۔ اب تو زیادہ تر منظم انداز میں قابل ، تعلیم یافتہ ، تجربے کار لوگ بھی اس کا شکار ہورہے ہیں ۔ میں یہاں پر اعتبار کے بنیادی مسائل پر ہی روشنی ڈالوں گا ۔ انٹرنیٹ سے پہلے ہم بچپن میں اساتذہ کی نصیحتوں پر اعتبار کرتے تھے یا پھر والدین کی کتابیں اور اخبارات ایک اہم ذریعہ تھا صحیح معلومات کا ۔ آہستہ آہستہ یہ نظام بدلتا رہا اورٹکنالوجی کی ترقی انسانی کردار پر اثر کرنے لگی ۔ اب تو قدم قدم پر دھوکہ دہی کا اندیشہ ہے ۔ کون قابل اعتبار ہے اور کون نہیں ایک پریشان کن مسئلہ بنتا جارہا ہے ۔ شادیوں کے معاملے میں تو یہ ایک وباء کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ اب ایک عام آدمی کرے تو کیا کرے ۔ پرانی روایتیں اب سود مند نہیں رہیں کیونکہ یہ انٹرنیٹ کی دنیا ہے۔ میرے مشورے میرے اپنے محتاط تجربات کے ساتھ میری معلومات کی روشنی میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ میں مسلسل اپنی قوت اعتبار کا جائزہ لیتا رہتا ہوں ۔ میں چٹ فنڈ کی دنیا سے بچا رہا ۔ قریبی دوست اس میں مصروف تھے اور مجھے ترغیب دیا کرتے تھے کہ میں فائدہ اٹھاؤں ۔ پردیسی کے مالک سے دوستی تھی اور جب اس کا دھندہ عروج پر تھی تب اس کا کافی اصرار رہا کرتا تھا کہ میں اس کے ساتھ سرمایہ کاری کروں اور دولت لوٹ لوں ۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری اس غیر معمولی احتیاط کی وجہ سے میں محفوظ رہا کیونکہ بعض ایسے مواقع بھی تھے جہاں پر اگر میں تھوڑا بھی خطرہ مول لیتا تو بے تحاشہ دولت کما سکتا تھا ۔ مگر مجھے سکون قلب رہا اور اپنی ذاتی محنت سے میں آج اس مقام پر پہنچا ہوں ۔

کالج کے زمانے ہی سے مجھے کسی بھروسہ مند کاروبار میں خفیف سی سرمایہ کاری کی خواہش تھی ۔ اتفاق سے میرے روزانہ ملنے والوں میں کچھ کامیاب تاجر بھی تھے ۔ وہ یقین دلاتے تھے کہ سب دوست مل کر اتنی اتنی رقم لگائیں اور ماہانہ اساس پر خاطر خواہ آمدنی ہوجائے گی ، وہ لوگ جھوٹ نہیں بول رہے تھے ۔ خود بھی کافی رقم لگائے اور سب ڈوب گئے ۔ والد صاحب ملازم پیشہ تھے مگر میرے اعتبار پر ان کو پورا اعتماد تھا ۔ کبھی بھی انہوں نے اس معاملے میں میری تنقید نہیں کی ۔ ہوا یہ کہ اس کے بعد سے میں ایک ناقابل فراموش سبق سیکھ چکا ہوں ۔ پارٹنرشپ کی دنیا بڑی خطرناک ہے ۔ کسی قسم کی پارٹنرشپ کے نام سے میں دور بھاگتا ہوں ۔ اب آپ اپنی اس صلاحیت پر غور کیجئے ۔ کسی معاملے پر یا کسی بظاہر انتہائی شریف لوگوں کی دلکش اسکیموں پر کیا بآسانی بھروسہ کرلیتے ہیں ۔ لوگ حقیقت میں انتہائی نیک ہونگے مگر معتبری اور غیر معتبری کے معاملے میں ان کا تجربہ بھی نیا ہی ہوسکتا ہے ۔ مثلاً پلاٹوں کا دھندا دلکش سرمایہ کاری ، شادی بیاہ کے مسائل وغیرہ وغیرہ ۔ میں اپنی کمزوری کا بھی اظہار کرنا چاہوں گا ۔ میں اتنا محتاط رہا ہوں کہ ممکن ہے خسارے میں رہا ہوں ۔

غیر ضروری خطرات مول لینا نہیں چاہتا ۔ مجھے ہر رات سکون کی نیند چاہئے جو مجھے نصیب ہے ۔ یعنی میرے ذہن میں کسی بھی طویل المدتی سرمایہ کاری اگر وہ خانگی ہو تو شکوک پیدا ہوتے ہیں اور اس جھنجھٹ میں میں پھنسنا نہیں چاہتا ۔ اس کو صلاحیت کہئے یا کمزوری ۔ روزانہ مریضوں سے جو واقعات سنتا ہوں وہ مجھے اور بھی محتاط بنادئے ہیں ۔
اس پس منظر میں بچوں کی نفسیات پر غور کیجئے ۔ ماں کی گود سب سے محفوظ جگہ اس کے لئے ہے ۔ اس کے بعد والدین کی زندگیاں ، جب بچہ سن بلوغ کو پہنچتا ہے تو اس کو اپنے والدین کی شخصیتوں کا اندازہ ہونے لگتاہے ۔اگر اس سے پوچھیں تو بیان نہیں کرسکے گا مگر اس کی اپنی شخصیت کی پرورش میں والدین کی شخصیتوں کی جھلک کم از کم ایک ماہر نفسیات کو صاف نظر آنے لگتی ہے ۔ مثلاً والد کا لاابالی پن بچوں کو محتاط بناسکتا ہے ۔ کسی بھی معاملے کو متوازن طریقے سے جانچنا اب ناگزیر ہورہا ہے ۔ میری اپنی فکر میں اعتبار کرنے کی طاقت ہمیشہ اعتبار کرنے پر حاوی رہتی ہے غالباً میری جانچ پڑتال کڑی ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ لوگ آپ کی نادانی اور لاعلمی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب لڑکے اور لڑکیاں بڑے ہو کر خود مختار سوچ کے حامل ہوجاتے ہیں تب احتیاط کی ضرورت ہے ۔
آپ اپنے روزمرہ کی مشغولیات میں معتبری اور غیر معتبری کو جانچنے کا کوئی نفسیاتی پیمانہ استعمال کرتے ہیں ۔ لوگوں کی سنی سنائی پر قطعی بھروسہ مت کیجئے ۔ کان کے کچے کی ہدایت تو ہم سنتے آرہے ہیں مگر اس کا استحصال اب دیکھنے میں آرہا ہے ۔ TRUST & MISTRUST بڑا دلچسپ موضوع ہے ۔ نوجوان جب اس قسم کے مخمصے میں پریشان ہوجاتے ہیں تو وہ ماہر نفسیات سے مشورے کرنے کے لئے بلاتکلف آجاتے ہیں ۔ اسکی ایک عمدہ مثال میں پیش کرنا چاہوں گا ۔

ایک تعلیم یافتہ ، برقعہ پوش نوجوان لڑکی کو والدین لیکر آتے ہی ں۔ جب میرے مددگار نے تفصیلات سنیں تو معلوم ہوا کہ تین دن کے بعد شادی مقرر ہے ۔ پورے انتظامات ہوچکے ہیں مگر لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ یہ شادی نہیںکرنا چاہتی ہے کیونکہ اس کو کسی اور سے پیار ہے ۔ میں نے اپنے مددگار سے کہاکہ ایسے کیس صرف تضیع اوقات ہیں ۔ تین دن کے بعد شادی مقرر ہے ۔ ہمارے پاس کوئی جادوئی ترکیب یا گولی نہیں ہے جو اس لڑکی کے خیالات میں انقلاب لائے ۔ آپ ہی انہیں یہ بات سمجھا کربھجوادیجئے کہ اس وقت کسی قسم کی نفسیاتی مداخلت کارگر نہیں ہوسکتی ۔
مگر لڑکی مجھ سے ملنے پر مصر تھی اس لئے میں نے اس کو بلایا ۔ سنا کے غصے والے ماموں وغیرہ ڈرا دھمکا کر اور مار پیٹ کرنے کے بعد اس کو کہہ دیئے کہ رضامند ہو یا نہ ہو شادی تو ہوگی ۔ وہ لوگ دولہا کے لوگوں کو بھی حالات سے واقف کروادئے تھے ، ہونے والا دلہا قریبی رشتہ دار تھا اور دونوں طرف جو صحیح معنوں میں ایک ہی طرف کے سب رشتے دار اس بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لئے کمربستہ ہوگئے ۔
میں نے پوچھا کہ آپ لوگ ہر قسم کی پیش بندی اختیار کرچکے ہیں اور میں کس طرح سے آپ کی مدد کرسکتا ہوں ۔ ایک ماہر نفسیات کے ناطے میں تو یہ کہوں گا کہ تعلیم یافتہ لڑکی کی زور زبردستی شادی مت کیجئے جس کو آپ قبول نہیں کرینگے ۔

مگر وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ لڑکی کی ایک خواہش ہے کہ ایک بار آپ سے وہ بات کرلے اس لئے ہم لوگ اس کو لائے ہیں ۔ معاملہ میری دانست سے بھی باہر تھا ۔ بہت ہی پراعتماد لڑکی یہ کہہ رہی تھی کہ آپ لوگ پریشان مت ہویئے میں شادی کیلئے بالکل تیار ہوں ۔ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے ظلم و ستم کے ڈر سے میں راضی ہوگئی ہوں یہ غلط ہے ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں فیصلہ نہیں کرپارہی ہوں ۔ کبھی اس لڑکے سے کرنا چاہتا ہوں تو کبھی اس لڑکے سے ۔ یہ میرا مسئلہ ہے جس کو آپ سمجھ سکتے ہیں ۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ ہر معاملے میں قطعی فیصلہ نہیں کرسکتے مثلاً معمولی ساڑی خریدنے میں بھی دو ساڑیوں کے بیچ میں فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کونسی بہتر ہے ۔ اور ممکن ہے خریدنے کے بعد یہ پچھتاوا لگا رہتا ہے کہ مجھے یہ نہیں بلکہ دوسری خریدنا تھا ۔

بس یہ ایک نفسیاتی کمزوری تھی اور وہ چاہ رہی تھی کہ میں فیصلہ کروں اور وہ بڑوں کے فیصلے کو قبول کرنے کے لئے تیار تھی ۔
میں نے کہا کہ نام نہاد محبت کی شادیاں بہت ہوتی ہیں اور اکثر دل پھینک منچلے نوجوان عاشقی کی گرمی میں والدین کی مرضی کے خلاف شادیاں تو کر بیٹھتے ہیں مگر جب شادی کے بعد کی ذمہ داریاں سر پر پڑتی ہیں تو رویہ بدل جاتا ہے ۔ زندگی مشکل ہوجاتی ہے اور لڑائی جھگڑوں کے بعد لڑکی کو لازماً والدین کے پاس ’’بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘‘ کے مصداق واپس آنا پڑتا ہے ۔ یہی حالات والدین کی پسند کی شادی کے بعد بھی ہوسکتے ہیں مگر سارا خاندان اس کے ساتھ رہتا ہے اور بے آبرو ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔
اسی لئے اعتبار کے نفسیاتی عمل کا سمجھنا اور اس کو مضبوط کرنا آنے والے انٹرنیٹ کے حالات میں ناگزیر ہوتا جارہا ہے ۔