معاشی ترقی کی رفتار 8.2 فیصد

ہندوستان کی شرحِ نمو غیر منظم شعبہ میں کچھ بھی صحیح نہیں

ارون کمار
ہندوستان کا جی ڈی پی ، پہلے سہ ماہی میں ہوشروبا 8.2 فیصد موجودہ مالیاتی سال میں حکومت کے دفتر سے حالیہ عرصہ میں جاری کیا گیا۔
گزشتہ دو برسوں میں یہ سب سے زیادہ اونچا ’’شرحِ نمو‘‘ فیصد ہے جس نے ’’نوٹ بندی‘‘ اور ’’جی ایس ٹی‘‘ کی شکل میں ’’دو بڑے جھٹکے‘‘ لگتے دیکھے۔ اس شرح نمو میں زبردست اضافہ نے مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں 13.5 فیصد، تعمیراتی شعبہ میں 8.7 فیصد، شعبۂ زراعت اور اس سے ملحقہ شعبوں میں 5.3 فیصد کو گزشتہ سال سے تقابل کیا جاسکتا ہے ۔ اب یہاں ناقدین نے سخت اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ متذکرہ حکومتی اعداد و شمار ’’بہت زیادہ اونچے ‘‘ ہیں جبکہ گزشتہ برس اسی میں یہ نہایت کم تھے۔
مینو فیکچرنگ کے شعبہ میں یہ 1.8 فیصد کم درج کیا گیا تھا جبکہ تعمیراتی شعبہ میں 1.8 فیصد کا اضافہ اور زراعت کے شعبہ میں 3 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا تھا ۔ اس کو ’’بیس ایفکٹ‘‘ یعنی بنیادی اثر‘‘ کہا جاتا ہے۔
گزشتہ سال اس شرحِ نمو میں نوٹ بندی کے ’’اثراتِ بد‘‘ کی وجہ سے پہلے سہ ماہی میں بری طرح متاثر ہوگئی تھی ۔اس لئے اگر معاشی خستہ حالی نوٹ بندی کے ’’اثراتِ بد‘‘ سے باہرنکلنے میں کامیاب ہوئی ہے ، جیسا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے تو ترقی کی شرح میں زبردست اضافہ ہونا چاہئے ۔ شرح نمو ’’شعبہ خدمات‘‘ میں بہت زیادہ گراوٹ دیکھی گئی جو گمشتہ سال کے بالمقابل نہایت کم ہے۔ مزید برآں، سرمایہ کاری میں بھی کوئی خاص اچھال نہیں ہے جو بمشکل 28.7 فیصد سے بڑھ کر 28.8 فیصد ہوئی جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بزنس میں (تجارتوں میں) بطورِ خاص مشینری اور بلڈ۔گس میں سرمایہ کاری صفر کے برار ہے ۔ اس لئے اگر ترقی ہو بھی جائے اور اونچائی پر پہنچ بھی جائے تو یہ ’’شرح نمو‘‘ ’’بنیادی اثر‘‘ اور سرمایہ کاری کی شرحوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ دن باقی نہیں رہ سکتا۔

8.2 فیصد ، شرح نمو کو پورے ملک میں اور معاشی ترقی میں اس کے بہترین اثرات محسوس کئے جانے چاہیں۔ اگر واقعی 8.2 فیصد ملک میں شرح نمو ہے تو پھر کیوں کسان اور تاجرین احتجاج کر رہیہیں ؟ انہیں بھی اس ’’شرح نمو‘‘ کے فوائد کیوں حاصل نہیں ہورہے ہیں؟ کسانوں کو ان کے زرعی ترقی کی شرح میں اگر واقعی اضافہ ہوا ہے تو انہیں احتجاج ہرگز نہیں کرنا چاہئے ۔
نوجوان اگر ملازمتوں کیلئے احتجاج کر رہے ہیں تو کس لئے ، کیا وہ یونہی احتجاج کر رہے ہیں، کیا وہ وقت گزاری یا ناقابل ہونے کی وجہ سے یہ احتجاج کر رہے ہیں ؟ اگر حکومت کے دعوؤں کے مطابق ملازمتوں وافر م قدار میں موجود رہنی چاہیں اور ملازمتوں کا بحران انت ہائی کم ہونا چاہئے ۔ کیا بزنسمین اور ٹریڈرس تکالیف کی شکایت بلا وجہ یونہی کر رہے ہیں ؟ حکومت نے اس بات کا ادعا کیا کہ ’’نوٹ بندی‘‘ کی وجہ سے معیشت پر کوئی برا اثر مرتب نہیں ہوا ہے اور اگر تھوڑا بہت ہوا بھی ہے تو وہ عارضی ہے اور عنقریب معدوم ہوجائے گا جبکہ نوٹ بندی کی وجہ سے اس کے مثبت اثرات دیرپا رہیں گے جو ابھی نظر آرہا ہے۔
اسی طرح جی ایس ٹی سے متعلق حکومت نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ (ٹیکس) سب سے زیادہ اہمیت والی مثبت تبدیلی ہے ۔ اس ٹیکس کے نفاذ کے بعد اوائل نفاذ میں چند سختیاں اور مسائل جھیلنا پڑا ، بعد ازاں اس نفاذ کے بعد اس کے مثبت اثرات معیشت پر نظر آنے لگے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد کاروبار اور تجارت میں آسانی کا دعویٰ حکومت کی طرف سے کیا گیا جس سے معاشی شرح نمو میں اضافہ ہوا۔ بہرحال معاشی طور پر اسٹرکچرل تبدیلی نے حالیہ شرح نمو میں زیادتی محسوس کی گئی جبکہ آغاز میں عارضی جھٹکے بھی لگے۔

ان متذکرہ بالا دعوؤں کو جو غیرمنظم شعبہ میں کئے گئے کوئی بھی صحیح نہیں ہے ۔ غیر منظم شعبہ 45 فیصد جی ڈی پی رکھتا ہے جبکہ اس شعبہ میں 93 فیصد ملازمین کام کرتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اس شعبہ میں اعداد و شمار سہ ماہی یا سالانہ کی بنیاد پر جمع نہیں کئے جاتے بلکہ Pariodically جمع کئیجاتے ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر سے اہمیت کے ساتھ سہماہی جی ڈی پی شمار کیا جاتا ہے ، جس کے بعد زراعت و دیگر کا شمار ہوتا ہے ۔ حکومت کی طرف سے جاری پریس نوٹ کے بموجب صنعتوں کیلئے ’’پہلا سہ ماہی فینانشیل نتائج کی بنیدا پر ہوتا ہے جو بی ایس ای / این ایس ای کی درج کمپنیاں ہوتی ہیں جسے عام فہم زبان میں انڈیکس آف انڈسٹریل پراڈکشن (آئی پی پی ) کہا جاتا ہے ‘‘۔ اس لئے یہ بات سمجھنے کی ہے ’’مکمل منظم شعبہ ‘‘ کے اعداد و شمار بھی شرح نمو میں اضافہ کو ظاہر کرنے کیلئے استعمال نہیں کئے جاسکتے ۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ غیر منظم شعبہ کے اعداد و شمار کو جوکہ حاصل ہی نہیں ہے ، اسے استعمال کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس لئے غیر منظم شعبہ کے اعداد و شمار کو جبکہ وہ موجود ہی نہیں ہیں ، تخمینہ کیسے لگایا جاسکتا ہے ؟ یاد رہے کہ اس ضمن میں چند غیر حقیقی قیاسات قائم کئے گئے ہیں۔
پہلا یہ کہ منظم شعبہ میں ترقی کا تناسب جس کے اعداد و شمار دستیاب ہیں۔ دونوں شعبوں (منظم و غیر منظم) میں ریفرنس سال کے تخمینہ کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ دوسرا سروے کیا جائے لیکن یہاں ایک مشکل یہ ہے کہ ان دونوں سروے کے دوران اگر اچانک کوئی (معاشی) جھٹکا پیش آئے تو تازہ تناسب کو لیتے ہوئے قدیم تناسب کو بھول جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ’’نئے تناسب‘‘ کیلئے ایک نئے سروے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد ہی نیا تناسب استعمال کیا جاسکتا ہے وگر نہ نہیں۔
اس ضمن میں یہ اہم بات یاد رکھیں کہ ’’نوٹ بندی اور جی ایس ٹی ‘‘ نے حکومت کے دیئے گئے تناسب کو زبردست جھٹکے دیئے جس کی وجہ سے دراصل جی ڈی پی پر ’’اثراتِ بد‘‘ ظاہر ہوئے۔ اس لئے زمانۂ قدیم کی ازکارِ رفتہ خستہ طریقہ کار میں جدید سائنٹفک اختراعی تبدیلی لازمی طور پر لائی جانی چاہئے ۔ غیر منظم شعبوں نے جہاں ’’رقمی لین دین‘‘ زیادہ ہوتا ہے ، نوٹ بندی نے سب سے زیادہ متاثر کیا ۔ نوٹ بندی کی وجہ سے کیونکہ 8 ماہ تک ’’جدید کرنسی نوٹس‘‘ کی کمی تھی ، وہ کئی ماہ تک آگے نہیں بڑھ سکی اور بعد ازاں دوسرا جھٹکہ ’’جی ایس ٹی ‘‘ کے نفاذ کی وجہ سے رہی سہی کسر پوری کردی۔

اب جبکہ وہ ’’جی ایس ٹی ‘‘ سے علحدہ کردی گئی یا دوسرے الفاظ میں ایک انتہائی سادہ انداز میں ’’کمپوزیشن اسکیم‘‘ نے ’’جی ایس ٹی ‘‘ کے ڈیزائین کو بری طرح متاثر کیا۔ اس ’’جی ایس ٹی ‘‘ نے ان پٹ ٹیکس کریڈٹ (آئی ٹی سی ) کو اور ’’ریورس چارج میکانزم ‘‘ (آر سی ایم) کو بری طرح متاثر کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس (گبر سنگھ ٹیکس) جی ایس ٹی کے نفاذ نے بین ریاستی فروخت پر سخت ترین پابندیاں عائد کیں جبکہ آفیشل سروے نہیں کیا گیا ، خانگی سروے کئے گئے جس میں غیر منظم شعبہ میں زبردست گراوٹ دیکھی گئی ۔
ملازمتوں کی طلب میں ’’مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائیمنٹ گیارنٹی اسکیم‘‘ (ایم جی این آر ای جی ایس) کے تحت شہری علاقوں میں ملازمتیں ختم ہوگئیں اور دیہی مزدوروں کو واپس اپنے دیہاتوں کو جانا پڑا۔ تاہم اس کے باوجود وہاں بھی روزگار / ملازمتوں کی طلب میں کوئی کمی نہیں درج کی گئی ۔ آخرکار سرمایہ کاری کے اعداد و شمار میں زبردست گراوٹ درج کی گئی ۔
یہ تمام عوامل اس بات کو نہایت طاقت کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معیشت میں انتہائی سطح پر گراوٹ آئی ہے جو محسوس کی جاتی ہے۔ طاقت کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معیشت میں انتہائی سطح پر گراوٹ آئی ہے جو محسوس کی جاتی ہے ۔ مزید برآں ، غیر منظم شعبہ میں گراوٹ کے دو بڑی اہم وجوہات تھیں۔ غیر منظم شعبہ کی پراڈکشن کو منظم شعبوں میں متبدل کیا جاتا تھا اور غیر منظم شعبہ کی طلب میں زبردست گراوٹ تھی جبکہ منظم شعبہ میں اضافہ نے غیر منظم شعبہ کو مزید تکلیف دینے کا موجب بنا۔ زراعتی سر پلس مع ہارسائی صحت بخش غذا نے بڑی تعداد میں خوا تین اور اطفال کو اس طرح متاثر کیا کہ وہ انتہائی مہنگی ہونے سے وہ قابل دسترس نہیں رہیں جو غیرمنظم شعبہ کے تحت تھیں۔
ضرورت سے زائد ہونے کی بناء پر ان کی طلب میں کمی اور طرفہ تماشا یہ کہ اس کی وجہ سے زرعی پیداوار کی قیمتوں میں کمی کے تناظر میں کسانوں کی آمدنی شدید متاثر ہوئی۔ مختصر یہ کہ دو جہتی تحریک نے معیشت کو منظم شعبوں کی پیداوار میں اضافہ اور غیر منظم شعبوں کی آمدنی میں زبرست گراوٹ محسوس کی گئی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوٹ بندی سے بل کے تناسب میں برائے سہ ماہی معاشی ترقی یا شرح نمو قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ منظم و غیرمنظم شعبوں میں ترقی کا دعویٰ قطعی صحیح نہیں قرار پاتا۔ اس سے دو اہم نتائج سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ منظم شعبوں میں ترقی ، غیر منظم شعبوں کی بنیاد پرنہیں ہونا چاہئے کہ جس کی وجہ سے دوسرا شعبہ انحطاط پذیر ہوجائے ۔ دوسرا یہ کہ سرکاری اعداد و شمار کو درست پیش کیا جائے اور ’’شرح نمو ‘‘ کو 8 .2 فیصد زائد یا کم تبدیل کیا جائے ۔