معاشرتی زندگی کو بہتر بنائے بغیر جشن

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
جنتری میں سال بھر کی تفصیلات کے بارے میں لکھا ہوتا ہے، اب اس جنتری میں تلنگانہ کا یوم تاسیس بھی درج ہوچکا ہے۔ گذشتہ سال کی طرح تلنگانہ کا جشن مختلف ہوگا۔ حکومت نے صرف کھانے پینے اور ناچنے گانے کے پروگراموں کو ترجیح دینے کے سوا کوئی خاص معاشرتی منصوبہ نہیں بنایا ہے۔ کسی بھی عنوان سے جشن منانے کا مطلب عوام کو اصل راحت و کامیابی ملنے پر خوشی کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ تلنگانہ کے قیام کا اصل مقصد اور کامیابی حاصل کئے بغیر ہی حکومت صرف اپنی اَنا کی تسکین کے لئے جشن منارہی ہے تو پھر معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے والے کام اس جشن کی رونق کی نذر ہوجائیں گے۔ عوام کو حکومت کے وعدوں سے دور کرنے کیلئے دیگر واقعات کو اتنی شدت سے زور دیا جارہا ہے کہ تلنگانہ کے حصول کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے۔ان دنوں تلنگانہ حکومت میں کسی بھی وزارت کے کیبن میں جھانکیں وہاں بس کھچڑی کی دیگیں نظر آتی ہیں،کھچڑی عموماً نرم غذا کو کہا جاتا ہے جس کی تیاری میں زیادہ وقت نہیں لگتا، مگر یہ کھچڑی اور اس میں ڈالا گیا گھی کسی اور نوعیت کا ہے یعنی ’ گھی کہاں گیا کھچڑی میں ‘ کے مصداق تلنگانہ کے حصول کے مقصد کا گھی بھی انہی وزارتوں کی کچھڑی میں چلا گیا۔ وزراء نے کرسیا ںسنبھال لیں، لیڈروں نے اپنی دنیا گرم کرلی اور عوام کے حق میں مابعد تلنگانہ کے مسائل ہی آئے۔ مگر حکمراں طبقہ کے لوگوں کو اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ ان لوگوں نے مل کر جو کھچڑی بنائی ہے یہ کھچڑی گلنے اور ہضم ہونے والی نہیں بلکہ ریاست کے پانسے کو خراب کرنے کے درپے ہے۔ حکومت کے بارے میں ان دنوں کچھ بھی سچ کہا جائے اس کچھڑی کے دربار کے سے لوگ تردید کرنے کیلئے ڈنڈا اُٹھائے نمودار ہوتے ہیں۔ چیف منسٹر کے کیمپ آفس پر گردش کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں یہ گردش ستاروں کی نہیں ان خواہشات کے اسیروں کی تیار کردہ ہے جو خود کو تلنگانہ کا ستارہ سمجھتے ہیں اور مرکز میں موجود چاند سے گہرے مراسم کے دعوے کرتے ہیں۔ مرکز سے اچھے تعلقات کے باوجود تلنگانہ کے قیام کے دو سال بعد بھی اس کا حصہ نہیں ملا۔ ایک نئی ریاست کے کئی تقاضے ہوتے ہیں مگر مرکز سے فنڈ کے نام پر کچھ نہیں ملا البتہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کے سی آر کی ستائش کرتے ہوئے انہیں ذاتی طور پر خوش کرکے واپس ریاست بھیج دیا۔ چیف منسٹر بھی وزیر اعظم کی شاباشی سے سرشار ہوکر خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ تلنگانہ کا جشن منانے کی اصل خوشی جب ہوگی تب حکومت ان تمام وعدوں میں سے پورے نہ سہی کچھ نہ کچھ وعدے پورا کرکے عوام کو راحت بخشیں۔ جشن کا میلہ یا اس طرح کے میلہ کا تصور ہمیشہ شادمانی اور سرشاری سے ہوتا ہے۔ میلہ میل جول سے ہے

جشن کا مطلب انسانوں کے انسانوں سے زمینی، ثقافتی، سماجی، معاشی اور معاشرتی تعلقات استوار کرنے سے ہے۔ عوام کو ایک عظیم برادری میں ڈھالنے اور آفاقیت کی طرف لے جانے والی رہگزر پر سفر کا آغاز کرنے کا سبب بنتا ہے۔ تلنگانہ میں جشن یا میلہ کا منظر ان تمام حقائق سے دور ہے۔ عوام کو مسائل سے چھٹکارا ملنا مشکل ہے تو پھر جشن کا کیا مطلب ہوا۔ تلنگانہ کے عوام بہت سے معاملات میں بغیر تحقیق اپنی رائے قائم کرنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ ٹی آر ایس کے بارے میں یہ رائے قائم کرلی گئی ہے کہ اب اس کا دوبارہ واپس اقتدار پر آنا مشکل ہے کیونکہ عوام نے اس حکومت کی نبض پہچان لی ہے کیونکہ ٹی آر ایس میں اہم قائدین کا فقدان ہے ۔ دیگر پارٹیوں کے کہنہ مشق سیاستدانوں نے بتایا ہے کہ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس اپنے ذاتی لیڈروں کے دیوالیہ سے دوچار ہے،اس لئے تلگودیشم نے جو لیڈر تیار کئے تھے انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرکے ان پر ہی انحصار کررہی ہے۔ دراصل اس وقت ٹی آر ایس حکومت کی کابینہ میں جو وزراء شامل ہیں تمام تلگودیشم سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی سیاسی رگوں میں تلگودیشم ہی کا خون دوڑ رہا ہے۔ لیڈر سازی بھی ایک کمال کا ہُنر ہوتی ہے، جو پارٹی لیڈروں کو تیار کرنے میں مہارت رکھتی ہے اسے ہی حکوت کرنے کا گہرا تجربہ ہوتا ہے۔ ٹی آر ایس نے کئی لیڈروں کو اُدھار لیا ہے تو حکومت کی کارکردگی بھی اُدھار پر چل پڑی ہے۔ مسلمانوں کو تحفظات کا اُدھار ہے تو دیگر طبقات پر ترقیاتی اقدامات کرنے کا اُدھار ہے۔ شہر حیدرآباد کو عالمی سطح کے درجہ کا شہر بنانے کا وعدہ اُدھار ہے۔ تلنگانہ کے قیام سے پارٹی کے جو وعدے مقبول تھے اب وہ نامقبول ہوتے جارہے ہیں۔ تلنگانہ سے پہلے تپتے ہوئے ریگستان میں جہاں  لُو کے تھپیڑے اہل قافلہ کے اوسان خطا کررہے ہوںوہاں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا لمحوں کیلئے مرجھائے چہروں پر بشاشت کی لہر دوڑا دیتا ہے، ٹھیک اسی طرح تلنگانہ کے قیام کے بعد عوام کو یہ بشاشت کا اندازہ ہورہا تھا مگر انہیں کیا علم کہ آندھرائی تسلط سے آزادی کے بعد تپتے ریگستان کا گرم لُو کا تھپیڑا ان کا تعاقب کرتا رہے گا۔ چیف منسٹر کے روپ میں کے سی آر کے اندر اطمینان و سکون کا مسیحا تلاش کرنے والوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ البتہ چیف منسٹر نے ان لوگوں کا سکون حرام کردیا ہے جنہوں نے تعلیم کے شعبوں کے ذریعہ طلباء اور سرپرستوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ ریاست میں تعلیم کے نام پر بوگس ادارے چلانے والوں کے خلاف کارروائی کے بہترین نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ تلنگانہ حکومت نے یہ پیام دیا ہے کہ ریاست میں عوام تک ایک بہترین تعلیمی معیار فراہم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اب خانگی انجینئرنگ ڈگری ، فارمیسی اور دیگر پیشہ ورانہ اداروں کے انتظامیہ سے قائم کردہ تلنگانہ میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کی پالیسی کو وضع کریں اور اس پرسختی سے عمل آوری کی جائے۔ ریاست کو اعلیٰ اور بہترین تعلیم کا گڑھ بنانے کی پالیسی میں خانگی تعلیمی ادارے اہم رول ادا کرسکتے ہیں، مگر تلنگانہ کے تعلیمی شعبوں میں آندھرائی طریقہ تعلیم کا چلنا زیادہ سے زیادہ اثر پذیر ہوچکا ہے۔ تلنگانہ کے قیام کے دو سال بعد بھی سابق آندھرا پردیش حکومت کے طور طریقوں پر ہی کام ہورہا ہے۔ خانگی تعلیمی ادارے آندھرائی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہیں اس لئے نئی ریاست کو اپنے طور پر ریاست کا تعلیمی نصاب اور طرزِ تعلیم و طرز تدریس کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ تلنگانہ میں تعلیمی شعبوں پر اس ریاست کی پیداوار کا مجموعی حصہ خرچ نہیں کیا جارہا ہے۔ اگر حکومت ریاست کی آمدنی کا ایک قابل لحاظ حصہ تعلیمی شعبوں پر خرچ کرے تو تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، یہاں کی یونیورسٹیاں کم بجٹ میں کام کررہی ہیں۔ وائس چانسلر اور پروفیسرس کے تقررات کے معاملوں کو عدم دلچسپی کا شکار بنادیا جاتا ہے۔ ہمارے مدارس بھی اپنے طلباء کی اخلاقی تربیت کرنے میں ناکام ہیں۔ ریاست تلنگانہ کو ایک ترقی یافتہ ریاست بنانے تعلیمی شعبہ کو مضبوط بنانا ضروری ہے مگر اس طرح کے جشن اور دیہی علاقہ میں سے لیکر ہندوؤں تک کھانے پینے اور موج مستی کرنے والا جشن ریاست کو خوشحال نصیب کرنے میں کام نہیں کرے گا ۔ آندھراپردیش کی حکمراں پا رٹی تلگو دیشم نے اپنے سالانہ مہاناڈو کے ذریعہ ٹی آر ایس حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تلنگانہ میں صفر سطح پر پہونچنے والی تلگو دیشم جب تلنگانہ کی حکمراں پا رٹی کی ناکامیوں کو نشانہ بنائے گی تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
kbaig92@gmail.com