میرا کالم سید امتیاز الدین
ہماری عادت ہے کہ ہم اخبار میں صرف خبریں ہی نہیں پڑھتے بلکہ اشتہارات اور مراسلے بھی پڑھتے ہیں ۔ عام طور پر مراسلے مختلف عوامی مسائل پر لکھے جاتے ہیں مثلاً فلاں محلے میں چار دن سے پانی کی سربراہی بند ہے یا نلوں سے گدلا پانی آرہا ہے ۔ کبھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی جگہ اسٹریٹ لائٹس بند ہیں جس کی وجہ سے چوروں کی بن آئی ہے ۔ وظیفہ یابوں کے مسائل ، بسوں کی منسوخی ، مچھروں کی کثرت وغیرہ کے تعلق سے مختلف محکمہ جات کو توجہ دلائی جاتی ہے ۔ بعض مرتبہ کسی مضمون میں شائع شدہ شعر کے بارے میں مطلع کیا جات ہے کہ وہ شعر یوں نہیں یوں ہے ۔ کل کے اخبار میں ہم نے ایک مراسلہ پڑھا جس سے ہم چونک گئے ۔ ہم کو اس مراسلے سے پتہ چلا کہ شہر میں مختلف تواریخ میں مظلوم شہروں کی کانفرنس کے کئی اجلاس منعقد ہوئے جن کو بعض نامی گرامی وکلاء نے بھی مخاطب کیا ۔ بعض جھوٹے مقدمات میں گرفتاری اور غیر ضروری ہراسانی کے خلاف جد و جہد کا آغاز کیاگیا ہے ۔مراسلہ نگار نے مظلوم شوہروں کے اجلاس مسلسل منعقد کرتے رہنے کی درخواست کی ہے ۔ ہم قانون داں نہیں ہیں اور دفعات تعزیرات ہند سے یکسر ناواقف ہیں ۔ جب ذمہ دار شہری اور معزز ایڈوکیٹس اس معاملے میں دلچسپی لے رہے ہیں تو معاملہ یقیناً اہم اور قابل توجہ ہوگا ۔
اس پورے مراسلے میں جس لفظ یا ترکیب نے ہمیں بے حد متاثر کیا بلکہ تڑپادیا وہ یہ تھا کہ مراسلہ نگار نے دو تین جگہ مظلوم شوہروں کا ذکر کیا ہے اور ان کی کانفرنسیں منعقد کرنے بلکہ کرتے رہنے کی تجویز پیش کی ہے ۔ ہم کو تعجب ہوا کہ ہم نے کئی جلسوں اور کانفرنسوں میں بحیثیت سامع شرکت کی ہے لیکن اب تک ہم کو مظلوم شوہروں کی کانفرنس میں شرکت کا موقع نہیں ملا جبکہ ہماری شادی کو کم و بیش چوالیس سال گزر چکے ہیں ۔ تھوڑا بہت ظلم و ستم ہم بھی سہہ چکے ہیں ۔ ہماری بیگم ہمارے گھر سے نکلنے اور واپس ہونے کے اوقعات پر کڑی نظر رکھتی ہیں ۔ بسا اوقات ان کی نگرانی اتنی سخت ہوتی ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ ایسی نگرانی ہمارے طالب علمی کے زمانے میں رکھی جاتی تو شاید ہم بہتر طالب علم ثابت ہوتے اور عملی زندگی میں جس مقام پر پہنچے اس سے کہیں بلند مقام پر پہنچتے ۔ بہرحال اب کیا ہوسکتا ہے ۔
ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اکثر تعلیمیافتہ حضرات اپنی بیویوں سے تھوڑا بہت ڈرتے ہیں ۔ ایک صاحب سے ان کی کامیاب شادی شدہ زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ان کی کامیاب زندگی کا راز بہت آسان اور عام فہم ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ جب ان کی شادی ہوئی تو میاں بیوی نے ایک معاہدہ کیا کہ زندگی کے جتنے اہم اور ضروری مسائل ہوں گے ان میں شوہر فیصلہ کرے گا اور غیر اہم اور معمولی معاملات بیوی نپٹائے گی ۔ اس کے بعد انھوں نے بڑے عجز سے اعتراف کیا کہ شادی کو پچیس سال ہوگئے لیکن ابتک کوئی ایسا اہم معاملہ پیش نہیں آیا جس میں شوہر کی رائے یا فیصلہ کی ضرورت پڑے سب معاملے معمولی ہیں اور بیوی فیصلے کئے جارہی ہیں ۔ شوہر کا غصہ عام طور پر جھاگ کی طرح ہوتا ہے جو بہت جلد بیٹھ جاتا ہے ۔ ہم نے کئی فاتح عالم قسم کے حضرات کو بھی بیوی کے سامنے پہلے یہی مرحلہ میں پسپا ہوتے دیکھا ہے ۔ اکبر الہ آبادی ہماری زبان کے بہت بڑے شاعر گزرے ہیں ۔ ان کا ایک شعر ہے جو ان کی سوانح عمری کا درجہ رکھتا ہے ۔ شعر ملاحظہ ہو ۔
اکبر نہ دب سکے سکی سلطان کی فوج سے
لیکن ہلاک ہوگئے بیوی کی نوج سے
اسی طرح حضرت جوش ملیح آبادی بہت دبنگ شاعر تھے ۔ ان کا نام شبیر حسن خاں تھا اور ان کو اپنے پٹھان ہونے پر ناز تھا لیکن اپنی بیگم سے بہت ڈرتے تھے ۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ان کی بیوی تھکن کی وجہ سے بے ہوش ہوگئیں ۔ جوش صاحب بہت پریشان ہوگئے ۔ انھوں نے فوراً فون کرکے شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر کو بلایا۔ ڈاکٹر نے معائنہ کیا اورکہا کہ کوئی خاص بات نہیں ہے ۔ ہر چیز نارمل ہے ۔ میں ایک انجکشن لگاتا ہوں پانچ منٹ میں ہوش آجائے گا ۔ چنانچہ انجکشن کے تھوڑی دیر بعد ان کو ہلکا ہوش آنے لگا ۔ جوش صاحب نے ڈاکٹرکا ہاتھ پکڑا اور کمرے سے باہر آگئے ۔ ڈاکٹر نے حیرت سے جوش کو دیکھا تو جوش نے کہا ’اب یہاں سے چلو ۔ اٹھے گی تو بور کرے گی‘ ۔ جوش صاحب اور ان کی بیگم کا ایک اور قصہ بھی دلچسپ ہے ۔ جوش صاحب مئے نوش تھے ۔ ان کی بیگم کو یہ عادت پسند نہیں تھی ۔ پھر بھی اپنا کنٹرول رکھنے کے لئے جوش صاحب کے مقررہ وقت پر شراب کی ایک معین مقدار خود بھیجتی تھیں ۔ ایک مرتبہ وہ غصہ میں بیٹھی تھیں ۔ جوش صاحب نے شراب منگوائی ۔ ان کی بیگم نے شراب بھیج دی لیکن سوڈا نہیں بھیجا ۔ جوش صاحب نے ایک کاغذ پر یہ شعر لکھ کر بھیجا ۔
کشتیٔ مئے کو حکم روانی بھی بھیج دو
جب آگ بھیج دی ہے تو پانی بھی بھیج دو
اردو کے ایک مشہور شاعر تھے ۔ جو اساتذہ میں تھے ۔ شاید ان کا نام مرزا مظہر جان جاناں تھا ۔ ان کا شمار بزرگوں میں تھا ۔ان کی بیوی انتہائی تیز مزاج خاتون تھیں ۔ ہمیشہ برسرپیکار رہتی تھیں ۔ ایک مرتبہ مظہر جان جاناں کو کسی چیز کی ضرورت پڑگئی ۔ انھوں نے اپنے کسی مرید کو گھر بھیجا تاکہ وہ ان کی بیگم سے مانگ کر لائے ۔ مظہر جان جاناں کی بیگم نے اس بے چارے کو جھڑک کر رخصت کردیا ۔ مرید حضرت جان جاناں کی خدمت میں واپس آیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ حضرت پتہ نہیں کیسے ان کو برداشت کرتے ہیں ۔ مرزا مظہر جان جاناں نے مسکرا کر کہا ’میاں وہی تو ہماری مغفرت کا ذریعہ ہیں‘ ۔
انگریزی کا مشہور ادیب اور ڈکشنری کا مؤلف ڈاکٹر جانسن بھی اپنی بیوی کے ہاتھوں بے بس تھا ۔ ایک بار کافی دیر تک اس کی بیوی ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہی ۔ جانسن خاموش بیٹھا رہا ۔ اس کی خاموشی سے جانسن کی بیوی کو اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوئی ۔ میز پر ایک گلاس رکھا ہوا تھا غصے میں جانسن کی بیوی نے وہ پانی جانسن پر پھینک دیا ۔ جانسن نے مسکراکر کہا After so much thunder, so little rain! (اتنی گھن گرج کے بعد اتنی کم بارش!)کئی سال پہلے ہم نے ایک کارٹون دیکھا تھا ۔ بیوی غصے میں بھری ہوئی ہاتھ میں بیلن لئے کھڑی ہے ۔ شوہر صاحب جانماز پر رکعت باندھے کھڑے ہیں ۔نیچے لکھا تھا۔
آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک صاحب کا اپنی بیوی سے زبردست جھگڑا ہوگیا اور وہ ڈر کے مارے پلنگ کے نیچے چھپ گئے ۔ جب بیوی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انھوں نے شوہر کو پکارا ’’اب نکلتے کیوں نہیں؟‘‘ ۔ شوہر نے غصے سے جواب دیا ’’میرا گھر ہے ۔ چاہے میں پلنگ کے نیچے رہوں یا اوپر‘‘ ۔
ہمارے ایک دوست بھی اپنی بیوی سے بہت ڈرتے تھے ۔ ایک مرتبہ اُن کی بیوی نے انھیں کچھ سودا لانے کے لئے کہا اور سامان کے لئے تھیلی دی ۔ اتفاقاً وہ تھیلی الٹی تھی ۔ جیسے دکاندار ان کا سامان تھیلی میں ڈال رہا تھا تو اس نے تھیلی سیدھا کرنا چاہا لیکن ہمارے دوست نے اسے منع کردیا ۔ ہم نے پوچھا ’آپ نے تھیلی کو سیدھا کیوں نہ کرنے دیا‘ ۔ انھوں نے جواب دیا ’میری بیوی اسے پسند نہیں کرے گی کہ میں نے اس کی دی ہوئی الٹی تھیلی سیدھی کردی‘ ۔ ان کی بیگم ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو پوری تنخواہ لے لیتی تھیں اور بہت مختصر پاکٹ مٹی دیتی تھیں ۔ ہم نے پوچھا کہ اتنی کم پاکٹ منی میں آپ کا گزارہ کیسے ہوتاہے ۔ کہنے لگے ’’ماہانہ غلّہ اور سودا سُلف میں لاتا ہوں ۔ اسی میں وارے نیارے ہوجاتے ہیں‘‘ ۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک بار ایک خاتون نے کسی فقیر سے کہا کہ تم ذرا جھاڑو دے دو اور برتن دھودو تو میں تم کو کھانا بھی دوں گی اور کچھ پیسے بھی دوں گی ۔ فقیر نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا ’محترمہ میں ایک فقیر ہوں آپ کا شوہر نہیں ہوں‘ ۔
ہمارے ملک میں تو ایسا نہیں ہوتا لیکن اکثر یوروپی ممالک اور شاید امریکہ میں بھی اکثر شوہر اپنی ساس سے بہت چڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو شوہر کی بغاوت پر اُکساتی ہے ۔ ایک مرتبہ کسی صاحب کی ساس کسی دوسرے ملک میں انتقال کرگئی ۔ داماد سے پوچھا گیا کہ آپ کی ساس کو دفنایا جائے ، جلادیا جائے یا دریا میں بہادیا جائے۔ داماد نے جواب دیا تینوں طریقے اختیار کرو ۔ بہرحال مظلوم شوہروں کی کانفرنس کا مراسلہ پڑھنے کے بعد کچھ ہلکے پھلکے خیالات ہمارے ذہن میں آئے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کی طرف سنجیدگی سے توجہ کرنے اور مناسب قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ کانفرنس کے علاوہ سہ ماہی ’مظلوم شوہر‘ جاری کرنے کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے ۔
قانونی اقدام اپنی جگہ لیکن بنیادی ضرورت میاں بیوی میں جذباتی ہم آہنگی ، صبر و تحمل ، مذہبی شعور اور اخلاقی معیار کی ہے ۔ ہمارے سماج میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور اخبارات میں ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں جن سے بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔ ہر ایک کو زندگی ایک ہی بار ملتی ہے ۔ خاندان سنوارنے کے لئے ہوتا ہے اجڑنے کے لئے نہیں ۔ یہ بات سب کے پیش نظر ہو تو بہتر ہے ۔