محمد ریاض احمد
ملک میں فرقہ پرست طاقتیں حکومتوں اور سیاستدانوں کی مبینہ سرپرستی میں اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان میں خوف و دہشت پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ان طاقتوں کا مقصد جہاں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو معاشی لحاظ سے بالکل کمزور کردینا ہے وہیں ملک کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنا بھی ہے لیکن ہمارے ملک میں سیکولرازم اس قدر مستحکم ہے کہ فرقہ پرستوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ۔ فرقہ پرستوں کے عزائم کو مسلمان صرف تعلیمی اور معاشی شعبوں میں مستحکم ہو کر ہی ناکام بناسکتے ہیں اور اس کیلئے مظفرنگر کے چند چھوٹے مواضعات کے مظلوم مسلمان ہندوستانی مسلمانوں کیلئے مثال بن کر ابھررہے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں اگست ۔ ستمبر 2013 میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے ۔ انسانیت کے دشمنوں نے نہتے اور غریب مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ یہاں تک کہ کئی مواضعات میں اپنی جانیں بچانے کیلئے پناہ کی خواہاں مسلم خواتین اور لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی ۔ ان کی عزتوں کو تار تار کیا گیا ۔ ان واقعات میں زائد از 70 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ عارضی کیمپوں میں رہ کر اپنی زندگیاں بچانے والے ماں باپ نے شدید سردی کے نتیجہ میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دم توڑتے ہوئے بھی دیکھا ۔ صرف سردی سے ٹھٹھرکر جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 50 سے تجاوز کرگئی تھی ۔
ان تمام پریشانیوں و مصائب نے مظفرنگر کے مسلمانوں کو ایک بات ضرور سکھائی کہ اپنی نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں اور تجارتی میدان میں قسمت آزمائیں چنانچہ اب مظفرنگر کے جوگی کھیڑا جیسے علاقوں میں ایک تعلیمی انقلاب برپا ہورہاہے ۔ وہاں روزنامہ سیاست کے ملت فنڈ اور فیض عام ٹرسٹ کی جانب سے دو اسکولس چلائے جارہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہیکہ ان اسکولوں میں طلباء وطالبات کی کثیر تعداد تعلیم حاصل کررہی ہے ۔ 6جنوری 2014 کو تعلیمی کارواں شروع کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں مظفرنگر کے اطراف و اکناف کے علاقوں اور پڑوسی اضلاع کے مسلمانوں میں تعلیمی شعور پیدا ہوا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ جوگیا کھیڑا میں 3700 مسلمان ہیں جن میں صرف 13 لڑکے اور لڑکیاں ایسی ہیں جنھوں نے ایس ایس سی کامیاب کیا تھا ۔ ان لوگوں کا تعلق دراصل قریبی مواضعات سے ہے ۔ فسادات کے باعث انھیں تباہی و بربادی کا شکار ہو کر جوگیا کھیڑا میں پناہ لینی پڑی ۔سب سے اہم بات یہ ہیکہ پریشانی کے عالم میں بھی جوگیا کھیڑا کے مسلمانوں نے انصار و مہاجر کی سنت پر عمل کیا ۔ تباہ حال مسلمان جب دوسرے علاقوں سے جوگیا کھیڑا آئے تب وہاں کے مسلمانوں نے اپنے تباہ حال مسلم بھائیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا ، اپنے گھروں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان کے قیام کی گنجائش نکالی ، اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کاروبار میں بھی مصیبت زدہ مسلمانوں کی مدد و اعانت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ جوگیا کھیڑا میں ادارہ سیاست اور فیض عام ٹرسٹ نے سب سے پہلے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے ساتھ ہی تعلیم پر توجہ مرکوز کی اور ان کے بچوں کیلئے حیدرآباد ملت پبلک اسکول قائم کیا ۔ وہاں مسلمانوں کو جان بوجھ کر برسوں تعلیم سے دور رکھا گیا تھا ان کی کئی نسلیں جاٹوں اور راجپوتوں کے کھیتوں اور گھروں میں بندھوا مزدور کی حیثیت سے کام کرتے تھے ۔
ایک طرح سے وہ ان کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ، تعلیم سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔ انگریزی تو دور اردو اور ہندی بھی پڑھنے لکھنے سے وہ قاصر تھے لیکن ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان اور فیض عام ٹرسٹ کے سکریٹری جناب افتخار حسین کی کاوشوں سے وہاں کا ماحول یکسر بدل گیا ہے اب ان علاقوں میں علم و ہنر کی خوشبو پھیل رہی ہے ۔ اس ضمن میں اقبال خاں ، گلفام جیسی شخصیتوں نے بھی رائے عامہ کو ہموار کیا چنانچہ ایک سال کی محنت رنگ لائی اب وہاں 400 سے زائد لڑکے لڑکیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں ۔ 19 ٹیچرس کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں ان میں 50 فیصد اساتذہ غیر مسلم ہیں ان کا تعلق جاٹ اور راجپوت ذاتوں سے ہے ۔ اس کے باوجود بچوں میں پائے جانے والے حصول علم کے شوق کو دیکھتے ہوئے وہ لوگ پڑھانے میں خوشی محسوس کررہے ہیں ۔ ان اسکولوں میں 19 کلاسس چلائی جارہی ہیں ۔ نرسری میں 200 بچے ہیں جن کی عمریں 10 اور 12 سال کے درمیان ہیں ۔ کریسنٹ ایجوکیشن سوسائٹی کے بلال بھائی نے ان اسکولوں میں ریاضی کی تربیت کا خصوصی انتظام کیا ہے اور حیدرآباد کے انس نے انگریزی تربیت کی فراہمی کا منصوبہ بنایا ہے ۔ ادارہ سیاست اور فیض عام ٹرسٹ نے علاقہ میں وقفہ وقفہ سے برقی مسدود کے پیش نظر شمسی توانائی کا استعمال شروع کردیا ہے جبکہ 10 کمپیوٹرس چلانے کیلئے جہاں شمسی توانائی کا استعمال کیا جارہا ہے وہیں یو پی ایس بھی کام میں لائے جارہے ہیں ۔ چند ماہ بعد ای کلاسس شروع کرنے کا بھی ارادہ ہے ، ان اسکولوں کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً 300 لڑکے لڑکیاں داخلے کی منتظر ہیں ۔26 جنوری کو اس حیدرآباد ملت پبلک اسکول میں بڑے پیمانے پر یوم جمہوریہ تقریب منائی گئی جس کے بارے میں جان کر قریبی علاقوں میں رہنے والے غیر مسلم بھی حیران رہ گئے ۔ اس طرح جوگیا کھیڑا اور اس کے متصل علاقوں میں رہنے والے مسلم بچے ۔ بچیوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ پیام دیا ہیکہ مسلمانوں کو مٹانے انھیں تباہ و برباد کرنے کی کوششوں کا مقابلہ وہ صرف اور صرف حصول علم کے ذریعہ کرسکتے ہیں ۔ حصول علم کا جذبہ انھیں دینی علم سے بھی نوازتا ہے ۔ ان غریب بچوں نے فرقہ پرستوں کو بھی یہ پیام دیا ہیکہ مسلمان کسی کا بندھوا مزدور نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آپ مالک ہے اور خود کو علم و ہنر سے لیس کرتے ہوئے وہ اپنی تقدیر آپ لکھ سکتا ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com