مضامین ۔ رضیہ چاند (بڑھتا چاند)

نسیمہ تراب الحسن
رضیہ چاند اُردو ادب کے گلشن کی ایک نوخیز کلی ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا ہے انھوں نے ’’محفل خواتین‘‘ میں آنا شروع کیا۔ پابندی کے ساتھ وقت مقررہ پر آنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ ان کا تعلق درس و تدریس سے رہا ہے اس لئے وہ نہایت انہماک سے محفل میں پڑھے جانے والے افسانوں، مضامین اور شعری تخلیقات پر توجہ دیتی ہیں۔ ادبی شوق ان کے خون کی روانی میں موجزن ہے جس کے باعث ان کے دل نے انھیں اس میدان میں قدم بڑھانے پر اُکسایا۔
کسی کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے پہلے ہم کو اس کے حالات کے متعلق کچھ جاننا ضروری ہے۔ رضیہ چاند اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہیں مگر ان کی طبیعت میں ناز و نخرے اور تکبر کا شائبہ نہیں۔ آگے برھ کر سب سے خندہ پیشانی سے ملنا ان کی فطرت ہے۔ گو میں انھیں پہلے سے نہیں جانتی لیکن ان کے خلوص سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ایک مطمئن زندگی کی حامل ہیں۔ ان میں کسی طرح کا احساس کمتری نہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ رہی کہ والدین کے زیر سایہ زندگی بسر کی پھر شادی کے بعد رفیق حیات سے محبت کے علاوہ ہر طرح کا تعاون ملا۔ دو فرما بردار بیٹے راحت جاں بنے۔ اپنی خوشی سے اسکول میں ٹیچر کی ملازمت کی۔ کامیابی نیک نامی کے ساتھ کام کرتی رہیں اور بہ حسن خوبی وظیفے پر سبکدوش ہوئیں۔ رضیہ چاند مذہبی اقدار کی پاسبان ہیں۔ ایمانی عقیدے اور ایمانی قوت کا سہارا لے کر اُنھوں نے اپنے شوہر کی دائمی جدائی کو صبر و استقلال سے برداشت کیا اور اپنی تنہائی دور کرنے کے لئے علم و ادب کی دنیا کی طرف راغب ہوئیں۔ انھوں نے سوچا کہ ادبی اداروں کی شرکت سے وقت اچھا گزرے گا اور تسکین قلب بھی ہوگی۔ اس خیال سے وہ ’’محفل خواتین‘‘ ، ’’دبستان جلیل‘‘ اور ’’بزم علم و ادب‘‘ سے وابستہ ہوگئیں۔ ان محفلوں میں جاتے رہنے سے مختلف اُردو ادیب، شاعرات سے شناسائی ہوئی، معلومات میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی رضیہ چاند کے دل میں کچھ لکھنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ علمی لگن تو دل و دماغ میں کروٹیں لیتی تھی بس انھوں نے قلم اُٹھالیا اور اپنے اطراف کے حالات کو قلمبند کرنا شروع کیا۔ اپنے تجربات، جذبات، احساسات کو الفاظ کا پیرہن دیا۔ ان محفلوں کے سینئر ممبرس سے سنانے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ ادبی محفلیں تو فروغ اُردو کی خاطر نئے لکھنے والیوں کی ہمیشہ ہمت افزائی کرتی ہیں، رضیہ چاند بھی ادب کے پلیٹ فارم پر پہنچ گئیں۔ قلم کی جنبش سے شخصیت کے ادبی کنویں کے پانی پر جمی کائی چھٹ گئی۔ جیسا کہ میں نے بتایا وہ مذہبی رنگ میں ڈوبی ہیں، ان کے مضامین میں اسلامی تذکرہ دکھائی دیتا ہے جو ان کے عنوانات پڑھنے ہی سے معلوم ہوجاتا ہے۔ پروردگار کی مداح سرائی کرتے ہوئے انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوۂ حسنہ کا ہر پہلو سے ذکر کیا ہے۔ اسلام میں خدا کی وحدانیت اور اس کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہی ایمان کامل کی بنیاد بناتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عقیدے پر روشنی ڈالی ہے جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سبقت اسلام میں نمایاں درجے کی بات کی ہے وہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو تاجدار کربلا کہنا نہیں بھولیں۔ کہاں تک بتاؤں یہ بڑا تفصیلی ذکر ہے۔ اسلام، تعلیم قرآن کی بابت مختلف سورتوں کی مختصر مگر معلوماتی آیتوں کا حوالہ، اپنے اُمتی ہونے پر خوشی اور شکر خدا ادا کرنے کی ہدایت، سبھی کچھ تو ہے ان تحریروں میں۔ اسی کے ساتھ رضیہ چاند نے اس معاشرے کی بے راہ روی اور دین اسلام سے دوری سے پیدا ہونے والے نتائج پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کی وجوہات مغرب کی اندھی تقلید، سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات ٹی وی، سیل فون کے مضر اثرات بھی گنائے ہیں۔ انھوں نے نئی نسل کو گمراہی کے گرداب میں گرنے سے بچانے کی رائے بھی دی ہے کہ یہ ہم بزرگوں کا فرض ہے۔

رضیہ چاند اتنا سب لکھ کر تھکی نہیں اور ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے شوہر و زوجہ کو ایک دوسرے کے حقوق سے بھی آگاہ کیا تاکہ اپنی نجی زندگی نہ صرف پُرسکون و مطمئن طریقے سے بسر کریں بلکہ دوسروں کے لئے تقلید کا نمونہ بنیں۔
ان کا مضمون ’’دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے‘‘ میں رضیہ چاند نے بڑے اچھے طریقہ سے سمجھایا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں، کوتاہیوں سے مصیبتوں میں پھنس کر دوسروں کو الزام دیتے ہیں یہ بجا نہیں۔ ہم کو اپنی بے راہ روی پر نظر ڈالنا چاہئے۔ اگر ہم صحیح راستے پر چلیں تو کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ الغرض ہر مضمون میں نصیحت پنہاں ہے۔ ان کے لکھنے کا انداز سیدھا ہے، عام فہم ہے، اختصار سے کام لے کر ہر عنوان سے انصاف کیا ہے۔ اکثر مناسب اشعار لکھ کر تحریر کو دل آویز بنادیا۔ انھوں نے اقوال زرین بھی لکھے ہیں۔ ان کی یہ پہلی کاوش ہے، خدا کرے ان کی عمر دراز ہو اور وہ صحت کے ساتھ اس ادبی سفر پر گامزن رہیں۔
میں دل کی گہرائی سے انھیں مبارکباد دیتی ہوں۔ اُمید ہے کہ اسی طرح لگن سے قلم کا استعمال ایک دن رضیہ چاند کو مہتاب بنادے گا۔ اللہ میری دعا قبول کرے۔ آمین