مصائب اور مسلمان

کے این واصف
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں مسلمان آباد نہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ شائد ہی دنیا کے کسی حصہ میں مسلمان ایک پرسکون زندگی بسر کر رہے ہوں۔ ایسے علاقے جہاں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، وہاں بھی پریشان ہیںاور جہاں اکثریت میں ہیں وہاںبھی انہیں سکون نصیب نہیں ہے ۔ جہاں محکوم ہیں وہاں ظلم و ستم کا شکار ہیں اور جہاں حاکم ہیں (الاچند کے) وہاں آپسی رسہ کشی ، عقائد کے تفرقے ، مسلکی اختلاف ، اقتدار کی حوس ، سیاسی رقابتیں وغیرہ کی وجہ سے اپنا سکون خود برباد کئے ہوئے ہںے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمان اور مصائب ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوگئے ہیں ۔
کہتے ہیں خوشحالی اور مصائب ، سکون و اضطراب، اچھے اور خراب دن انسان کی زندگی میں دھوپ اور سایہ یا بدلتے موسموں کی مانند ہوتے ہیں اور یہ سب من جانب اللہ ہی ہوتے ہیں۔ اس کا انحصار ہماری تدبیر پر ہے کہ ہم کس طرح مصائب کی دھوپ سے بچ کر خوشحالی کا سایہ حاصل کریں۔ اضطراب کی کیفیت سے باہر نکل کر کس طرح سکون حاصل کریں۔ اس کا راز ہم اسلامی تعلیمات میں ہی تلاش کرسکتے ہیں۔
دو ہفتے قبل جمعہ کو کچھ اس طرح کے موضوع پر امام کعبہ نے اپنا خطبہ بھی دیا تھا جو مسلمانان عالم کیلئے کلمات ہدایت و رہنمائی ہیں۔

مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر صالح بن حمید نے واضح کیا ہے کہ نوشتہ تقدیر پر ایمان ہی بے چینی کا اصل علاج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جان سے پیدا کیا ، اسے رب کریم نے اپنی حکمت اور اپنی قدرت سے ایسی خصوصیات اور ایسی صلاحیتوں سے نوازا جو کسی اور مخلوق کا حصہ نہیں ہیں۔ انسان شکوک شبہات ، نفسانی خواہشات ، پسندیدہ اور ناپسندیدہ اشیاء کی طرف رغبت اور عدم رغبت کے چکر میں پڑا رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل کر کے انسان کو راہ حق دکھادی ہے ۔ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف امور کی ادائیگی اور متعدد کاموں سے اجتناب کا پابند ہے ۔ امام حرم نے حاضرین حرم کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں جن پر آفات و مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اسے عالم میں وہ ہمت یا حوصلہ نہیں ہارتے بلکہ وضو اور پاکی حاصل کر کے ا پنے گھر کے کسی حصے کا رخ کرتے ہیں یا مسجد چلے جاتے ہیں، وہاں وہ قرآن پاک کی تلاوت فرض اور نفل نماز ادا کرتے ہیں، ایسا کرنے سے ان کے دل کو قرار آجاتا ہے اور ان کا ذہن پرسکون ہوجاتا ہے ۔ کئی مسلمان ایسے ہیں کہ بے چینی کی کیفیت طاری ہونے پر سوتے وقت دائیں پہلو پر لیٹ جاتے ہیں، قرآن پاک کی بعض آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں یا ذ کر و اذکار کرتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چین کی نیند لے لیتے ہیں۔ متعدد مسلمان ایسے ہیں جو بے چینی اور وحشت کے حملے پر قرآن پاک کی تلاوت کر کے بے چینی اور پریشانی کو رفع کردیتے ہیں اور چین سکون پا جاتے ہیں۔ کئی ایسے مالدار ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں قرآن پاک کی تلاوت کی بدولت مصیبت کے بھنور سے نکال لیتا ہے۔ا یسے ہی بعض غریب مسلمان ناداری اور غربت کی وجہ سے پریشان ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کر کے روحانی آسودگی پالیتے ہیں۔ امام حرم نے بتایا کہ اللہ کے پاکیزہ و صالح بندے وہی ہیں جو ذکر الٰہی سے اطمینان کی انمول نعمت حاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگ زندگی کے مسائل صعوبتوں اور الٹ پھیر پر قابو پانے کیلئے اللہ تعالیٰ کی یاد کا سہارا لیتے ہیں ۔ امام حرم نے کہا کہ اہل ایمان کا حال یہی ہے جبکہ کروڑوں لوگ مشکلات و مسائل سے گھبراکر خواب آور گولیاں استعمال کرنے لگتے ہیں، ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے چکر لگاتے ہیں۔ ایسی کتابوںاور مضامین کی تلاش میں سر گرداں ہوجاتے ہیں جن سے انہیں سکون کے بجائے بے چینی ہی ملتی ہے۔ یہ لوگ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں ۔ یہ لوگ موت ، ناکامی ، غربت ، مرض اور تقدیر ہر شئے سے خوف و ہراس اور اضطراب و بے چینی میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آس پاس کے لوگوں کو حاسد ، سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ وہ ہیں جو دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ بے خوابی کے عارضے میں مستقل بنیادوں پر مبتلا ہوجاتے ہیں۔ امام حرم نے کہا کہ قلبی سکون اور دینی راحت انمول نعمت ہے۔ اس کی قدر وہی شخص کرسکتا ہے جو اس سے محروم ہوگیا ہو۔ امام حرم نے کہا کہ ایمان اور استقامت کی بدولت انسان بے چینی اور تناؤ سے آزاد ہوسکتا ہے ۔ نماز سکون کا بہترین ذریعہ ہے۔

امام کعبہ کے بیان کو پڑھ کر اور مسلمانان عالم کے حالات کو بغور دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم اپنی اصل سے دور ہوگئے ہیں جیسا کہ امام کعبہ نے کہا کہ مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ قرآن حکیم نازل فرمایا جس میں ہمیں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ قرآن حکیم انسانی زندگی کا Manuel ہے۔ نیز سیرت طیبہ ، خلفائے راشدین کی زندگیاں ، تابعین کے اعمال ، بزرگان دین کے طریقے کار یہ سب مانند مشعل راہ ہیں۔ ہمارے لئے جس کی مدد سے مسلمان بے چینی ، ظلم و ستم ، مصائب اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے کسی نے پوچھا کہ مصائب وپریشانیاں عذاب الٰہی ہے یا ہماری آزمائش۔ تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ پریشانیوں کے عالم اگر انسان اللہ کی طرف رجوع ہوتاہے اور قرب الٰہی حاصل کر کے پریشانیوں سے نجات مانگتا ہے تو وہ آزمائش ہے اور برے وقت میں اللہ سے لو لگائے بغیر ادھر ادھر بھٹکتا ہے تو وہ عذاب ہے۔

مسجد الحرام کے امام و خطیب شیح ڈاکٹر صالح آل طالب نے واضح کیا ہے کہ یمن میں اسلام دشمن فرقہ وارانہ طوفان کو روکنا فرض ہے ۔ مدینہ منورہ مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ علی الحذیفی نے کہا کہ یمن میں منحرف گروہ تشخص تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ امام حرم ڈاکٹر آل طالب نے ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ جب پیغمبر اسلام محمدؐ نے اسلامی شریعت کا پرچم بلند کرنے اور دنیا بھر میں اسلام کا پیغام پھیلانے کا مشن شروع کیا تھا تو اپنے رشتے داروں اور دور کے لوگوں دونوں کی طرف سے انہیں شدید مزاحمت ، مشکلات و مسائل اور جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ایسے وقت میں یمن کے کوہتانی علاقوں سے حجاز کیلئے ایسے مرد میدان نبی کریمؐ سے ملاقات کیلئے نکلے تھے جن کے دل ایمان کے نور سے مامور تھے اور جو پاکیزہ فطرت کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے اپنے وطن سے مدینہ منورہ کیلئے عازم سفر ہوئے تھے ۔ رسولؐ نے اہل یمن کی تعریف میں جو کلمات ارشاد فرمائے تھے وہ اپنی جگہ پر رحمت عالم محمد مصطفیؐ کی جانب سے ایسی عظیم الشان شہادت اور سند ہیں جس سے بڑھ کر کوئی اور شہادت اور جس سے بڑھ کر کوئی اور سند نہیں ہوسکتی۔ آپؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم تھا کہ تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں

وہ رفیق القلب ہیں، ایمان یمن کا حصہ ہے۔ سوجھ بوجھ یمن کا حصہ ہے اور حکمت یمن کا حصہ ہے ۔ امام حرم نے کہا کہ حقیقت یہی ہے کہ اہل یمن ہی عربوں کا جوہر اور ان کی روح ہیں۔ ا ہل یمن سکون ، وقار، فقہ ، اعتبار ، بلاغت ، ادب اور شعر گوئی کے شہسوار ہیں۔ یہ اسلامی پیغام کے انصار ، جہاد کے قائدین اور جرات و شجاعت کے امام ہیں۔ نبی کریمؐ یمن کیلئے خیر و برکت کی دعا دے چکے ہیں۔ لہذا یمن کا نعمتوں سے معمور نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امام حرم نے کہا کہ یمن علماء اللہ کے نیک بندوں ، صبر و تحمل ، حکمت و فراست ، بردباری ، قناعت اور تجربے سے مالا مال انسانوں کا وطن ہے۔امام حرم نے کہا کہ بدقسمتی سے یمن کے مٹھی بھر لوگوں نے اپنی تاریخ پر کلنک کا ٹیکہ دیا ہے، ان لوگوں نے اپنی وفاداریوں کو چند سکون کے عوض فروخت کردی ہیں۔ ان لوگوں نے امت مسلمہ کے جذبات و احساست کو پس پشت ڈال کر دشمنوں سے ہاتھ ملالیا ہے ۔ یہ یمن کے باغی عناصر ہیں جن کی پشت پناہی عربوں سے نفرت کرنے والی علاقائی قوتیں کر رہی ہیں ۔ یہ یمن کی پوری تاریخ سے مختلف راستہ اختیار کر کے یمن کو یرغمال بنانے کے درپے ہیں۔ یہ ان علاقائی قوتوں کا آلہ کار بن گئے ہیں جو یمن پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر کے اسے پوری مسلم عرب دنیا کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں ۔ امام حرم نے کہا کہ باغی عناصر نہ رحم دلی سے متاثر ہوئے نہ دینداری کے آگے جھکے نہ انہوں نے قوانین اور دستاویزات کی پاسداری کی۔ یہ لوگ قانونی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے اقتدار اپنے ہاتھ لے بیٹھے تھے ۔ ان لوگوں نے ریاست کے سربراہ کو یرغمال بنایا ۔ شہروں ، قریوں اور قصبوں کی ناکہ بندی کی ۔

یمنی باشندوں کو طرح طرح سے ذلیل و خوار کیا۔ ان پر جبر و تشدد کے پہاڑ توڑے ، گھروں ، مسجدوں، اسکولوں اور جامعات کو تل پٹ کر دیا۔ امن پسند مسلمانوں کو قتل کیا۔ دیگر کو گھر سے بے گھر کردیا ۔ یہ لوگ یمن کو ذلیل و خوار اور اس کے باشندوں کو مجبور و مقہور کرنے کے درپے ہیں۔ آخر میں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ’’فیصلہ کن طوفان آپریشن‘‘ کا اہتمام کیا ۔ آل الشیخ نے کہا کہ شاہ سلمان کا فیصلہ حکیمانہ اور جراتمندانہ ہے ۔ انہوں نے امت مسلمہ کو اس فیصلے کی تائید و حمایت کی تر غیب دیتے ہوئے کہا کہ امت اس فیصلے کے رہنما کی موجودگی پر مبارکباد کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ کن طوفان نے سوتی ہوئی امت کو جگادیا اور پوری امت کو ایک بار پھر اتحاد و اتفاق کی شاہراہ پر گامزن کردیا ۔ انہوں نے یمنی عوام سے کہا کہ ایک ارب مسلمانوں کے دل و دماغ آپ لوگوں کی طرف لگے ہوئے ہیں۔ آپ صف بستہ ہوکر اسلام کے مفاد کوہر مفاد پر ترجیح دیں اور یمن کے لہو لہان وجود سے فرقہ وارانہ فتنے کے کانٹے نکال کر پھینک دیں۔ انہوں نے کہا کہ مظلوم کی نصرت اور دین کا دفاع فرض ہے ۔ تقریب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔