مشرق وسطی میں اسلام دشمنوں کا نیا کھیل

محمد ریاض احمد
مملکت سعودی عرب کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ یمن کے شیعہ حوثی باغیوں پر یلغار کے ساتھ ہی مملکت کے شیعہ اکثریتی علاقوں کی مساجد میں خودکش دھماکہ کئے جارہے ہیں ۔ عین نماز جمعہ کے موقع پر کئے گئے دو خودکش حملوں میں 25 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں ۔ مسلسل دوسرے جمعہ کے دن عین نماز کے موقع پر خودکش حملوں اور آئی ایس آئی ایس کی جانب سے اس کی ذمہ داری قبول کئے جانے سے اس بات کے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ سارے مشرق وسطی میں مسلمانوں کو فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیادوں پر ایکدوسرے کے مقابل لاکھڑا کرنے کی تیاریاں ہوچکی ہیں اور کچھ نادیدہ اسلام دشمن طاقتیں بڑی چالاکی سے مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کی ایک گہری سازش پر عمل پیرا ہیں ۔ خودکش دھماکہ کا دوسرا واقعہ دمام کی مسجد العنود کے باہر پیش آیا خودکش بمبار ایک خاتون کے حلیہ میں وہاں پہنچا تھا بلکہ وہ خواتین کے گوشہ میں داخل ہونے کا خواہاں بھی تھا لیکن اس گوشہ کے دروازہ بند تھے وہاں سے وہ مسجد کے مردانہ باب الداخلہ کی جانب بڑھا لیکن سیکورٹی پر تعینات اہلکاروں نے اسے اندر داخل ہونے سے روک دیا نتیجہ میں اس نے پارکنگ لاٹ میں ٹھہرائی گئی اپنی کار کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکہ سے اڑالیا ۔

دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ آگ نے قریب میں ٹھہری کاروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ خودکش حملہ آور خواتین کے گوشے اور مسجد کے اندرونی حصہ میں داخل ہونے میں ناکام رہا ورنہ ایک بہت بڑا المیہ پیش آتا ۔ اس واقعہ میں خودکش بمبار کے بشمول چار افراد ہلاک ہوئے ۔ سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصور الترکی کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں شاید مشتبہ کار کا ڈرائیور بھی شامل ہے ۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں چار افراد معمولی طور پر زخمی ہوئے ہیں ۔ واضح رہے کہ 22 مئی کو قطیف کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر ہی پیش آئے خودکش دھماکے کے واقعہ میں 21 افراد مارے گئے تھے ۔اس دوران مملکت سعودی عربیہ کے سینئر علماء نے ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ علماء کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے خطیف میں مسجد علی ابن طالب اور دمام کی مسجد العنود میں دھماکے کرتے ہوئے اپنا بدنما چہرہ دکھایا ہے ۔ علماء کمیشن کے سکریٹری جنرل محمد الماجد کے مطابق اسلام نے اللہ کے گھروں پر جائز جنگوں کے دوران بھی حملوں سے منع کیا ہے ۔

ایک ایسے مسلم ملک میں جہاں شریعت پر عمل کیا جاتا ہے اور حرمین شریفین ہو وہاں مساجد کو نشانہ بنانا ناقابل یقین ہے ۔ مغربی میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آئی رپورٹس کے مطابق اس خودکش حملہ کی ذمہ داری بھی آئی ایس آئی ایس نے قبول کی ہے اس کا دعوی ہے کہ یہ حملہ خلافت کے ایک سپاہی ابوجندال الجزراوی نے کیا ۔ بہرحال ان خودکش حملوں سے ایسا لگتا ہیکہ مملکت سعودی عرب میں فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہوئے دشمنان اسلام اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں ۔ ان دھماکوں کے اثرات صرف سعودی عرب پر ہی نہیں بلکہ سارے مشرق وسطی پر مرتب ہوں گے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مملکت سعودی عرب میں داخلی سیکورٹی پر سوالیہ نشانات لگ جائیں گے ۔ سعودی عرب یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کی جانب سے ایک جائز حکومت کو بیدخل کئے جانے کے خلاف اپنے عرب اتحادیوں کے ہمراہ کارروائی میں مصروف ہے ۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز ال سعود نے واضح طور پر متعدد مرتبہ کہا ہے کہ یمن پر حملہ شیعوں کے خلاف نہیں بلکہ ان باغیوں کے خلاف ہے جنھوںنے ایک جائز حکومت کو بیدخل کیا ہے ۔

سعودی عرب ہر حال میں یمن میں قانون و دستور کی بالادستی قائم کرکے رہے گا ۔ دوسری طرف مغربی میڈیا یمن پر سعودی حملہ اور سعودی عرب میں شیعہ مساجد پر خودکش حملوں کو سنی اور شیعوں کے درمیان بڑھتی خلیج کا باعث قرار دے رہا ہے ۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ سعودی عرب نے واضح کردیا ہے کہ یمن پر حملہ کا فرقہ واریت یا نسل پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مغربی میڈیا یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم شیعہ اپنی حکومت کے نہیں بلکہ شیعہ ایران کے وفادار ہیں حالانکہ آئی ایس آئی ایس شیعوں کو قابل قتل قرار دیتی ہے ۔ سعودی شاہی خانادن کے تعلق سے بھی اس کے خیالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں لیکن صرف اس بنیاد پر خودکش دھماکوں کیلئے آئی ایس آئی ایس کو مورد الزام ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہوگا ۔ ایک بات ضرور ہے کہ یہ اسلام دشمن طاقتوں کی کارستانی ہے اس کے باوجود اہل تشیع حضرات حکومت پر کافی برہم ہیں ۔

مغربی میڈیا کے خیال میں سعودی عرب اور ایران کے اختلافات مشرق وسطی کیلئے تباہ کن ثابت ہوں گے سب سے پہلے اس کا بھیانک اثر علاقہ کی معیشت پر پڑے گا جو اب تک پیش آچکے ناگفتہ بہ حالات میں بھی بہتر ہی ہیں ۔ اس کے برعکس جوہری پروگرام پر پابندیوں کے نتیجہ میں ایران کی معیشت کافی متاثر ہوئی ہے ۔ عراق ، شام ، لبنان ، بحرین اور عمان میں اس کے رول کو لیکر عالم اسلام میں کافی سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ ایسے میں مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ مشرق وسطی میں ایک بھائی دوسرے بھائی کے ساتھ دست و گریباں ہے ۔ ادھر مصر میں اسلام پسند معزول صدر ڈاکٹر محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے کئی سرکردہ قائدین کوسزائے موت سنائی گئی ہے ۔ مملکت شام میں جس کے نصف سے زیادہ حصہ پر دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) نے قبضہ کرلیا ہے وہاں ہر روز نئے نئے انداز میں خوب آشامی کا سلسلہ جاری ہے ۔ شام میں آئی ایس آئی ایس کی پیشقدمی سے قبل ایسا لگ رہا تھا کہ عرب ممالک اور امریکہ اور اس کے اتحادی ، صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن اب حال یہ ہے کہ بشار الاسد حکومت کے مظالم کا کوئی ذکر نہیں ہورہا ہے ۔ عالمی برادری کی توجہ بشار الاسد حکومت سے ہٹ کر پوری طرح آئی ایس آئی ایس پر مرکوز ہوگئی ہے جس میں ہر روز کثیر تعداد میں بیرونی جنگجو شمولیت اختیار کررہے ہیں ۔ آئی ایس آئی ایس کے باعث ہی دنیا نے شاید مسئلہ فلسطین پر بھی توجہ کم کردی ہے ۔ تمام مسلم اور عرب ملک ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والے قطعی معاہدہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اس کے علاوہ یمن کے حالات نے انھیں فلسطین اور شام کے مسائل پر توجہ دینے سے روک دیا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ عراق و شام میں آئی ایس آئی ایس کی پیشقدمی ، لاکھوں انسانوں کے قتل ، یمن کے حالات ، بحرین میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہورہا ہے اور کون ہے جو بڑے سکون سے تباہی و بربادی کے اس کھیل کا مشاہدہ کررہا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں تمام مسلم و عرب ممالک پریشان ہیں پریشانیوں و مسائل داخلی بے چینی اور بیرونی مداخلت سے متاثر ہیں ۔ علاقہ میں حالات دھماکو ہوچکے ہیں لیکن اسرائیل وہ واحد ملک ہے جو بڑے آرام سے اپنے اطراف و اکناف ہورہی تباہی کا مشاہدہ کرتے ہوئے لطف اندوز ہو رہا ہے ۔ اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان آپسی اختلافات اس قدر شدت اختیار کرگئے ہیں کہ انھیں فلطسینیوں کی پریشانیوں ان کی مصیبتوں اور ان پر دنیا کی ناجائز مملکت اسرائیل کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم پر آواز اٹھانے کی فرصت نہیں ۔ اسی وجہ سے اسرائیل میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارہ و خود ساختہ طاقتوں کا کوئی ڈر و خوف باقی نہیں رہا ۔

وہ یروشلم میں موجود اسلامی آثار مٹانے کی ناپاک سازش پر تیزی سے عمل کررہا ہے ۔ نئی یہودی بستیوں کی تعمیرات کے عمل کو آگے بڑھا رہا ہے ۔ وہ ایک ایسی شازش پر عمل کررہا ہے جس کے تانے بانے امریکہ سے لیکر مشرق وسطی تک جڑے ہوئے ہیں ۔ اسرائیل اور اس کے خفیہ ہمدردوں کا واحد مقصد امت مسلمہ کی تباہی و بربادی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ عرب ملکوں میں تیل کی شکل میں جو دولت بہہ رہی ہے اس کا بہاؤ رک جائے ، چنانچہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں مسلسل گراوٹ لائی جارہی ہے ۔ اس کا نشانہ دراصل سعودی معیشت ہے ۔ جہاں تک سعودی عرب کا سوال ہے دنیا کے چپہ چپہ میں بسنے والے مسلمانوں کو اس مقدس سرزمین سے قلبی لگاؤ ہے ۔ عالم اسلام کو کامل یقین ہیکہ دشمنان اسلام کی لاکھ سازشوں کے باوجود سعودی عرب کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا اور مسلم ممالک کے اتحاد کو پارہ پارہ نہیں کیا جاسکتا ۔ حالات و قرائن سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے کہ دشمنوں کی تدبیریں الٹی ہورہی ہیں ان کی مکاریاں خود ان کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں ۔ اگرچہ بظاہر وہ پرسکون نظر آرہے ہیں لیکن ان کے اذہان و قلب پر ایک قسم کی ہیبت طاری ہے ۔ فی الوقت عالم اسلام کو انتہائی دور اندیشی سے کام لینا ہوگا ۔ جہاں تک ایران کے ساتھ مسلم ممالک کے تعلقات کا سوال ہے یہاں ملت کے مفادات کو ترجیح دینی ہوگی ورنہ اس سے نقصان ہی ہوسکتا ہے ۔ آج علاقہ کے ممالک اور ان کی قیادتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دشمن مسلک کے نام پر اختلافات کو ہوا دے رہا ہے ۔ سنیوں اور شیعوں کے بیچ تفرقہ پیدا کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
mriyaz2002@yahoo.com