ظفر آغا
راجستھان میں ابھی ایک ماہ قبل ہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار سنبھالا اور ایک ماہ کے اندر ہی ہندو۔ مسلم فساد شروع ہو گیا۔ خبروں کے مطابق راجستھان کے پرتاب گڑھ ضلع کے دو دیہاتوں میں فساد کی آگ بھڑک اٹھی اور تین افراد ہلاک ہو گئے۔ ارد گرد کے کئی دیہاتوں میں بھی فساد کا اثر ہوا، حد یہ ہے کہ تقریباً 40 تا 50 افراد اپنا گھر بار چھوڑکر مدھیہ پردیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ راجستھان میں جو کچھ ہوا وہ تو ہونا ہی تھا، کیونکہ دنیا واقف ہے کہ بی جے پی اقتدار میں آنے کے لئے فرقہ پرستی کی حکمت عملی اپناتی ہے، اسی لئے سنگھ نے مودی کو بی جے پی حکومت کے عہدۂ وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ راجستھان میں ہونے والے فساد کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹے سے ضلع میں ہوا ہے اور اس فساد میں محض شہر ہی نہیں، بلکہ ارد گرد کے دیہات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ فساد کا اثر اس قدر سنگین ہے کہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑکر آس پاس کے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ راجستھان میں ہونے والے فساد کا انداز کم و بیش وہی ہے، جو اتر پردیش میں مظفر نگر فساد کا تھا۔ یعنی فرقہ پرست طاقتوں نے ایک ایسا شہر چنا ہے، جو مظفر نگر کی طرح دیہی آبادی سے گھرا ہوا ہے اور فساد کے شعلے منظم طریقے سے دیہاتوں میں بھی بھڑکائے گئے۔
ظاہر ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے چناؤ سے قبل اپنی حکمت عملی اس طرح تیار کی ہے کہ فرقہ پرستی کی آگ دیہاتوں میں پھیلاکر انتخابات سے قبل وہاں بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا دی جائے، تاکہ فرقہ پرست جماعتوں کو عام انتخابات میں دیہی علاقوں میں بھی کامیابی حاصل ہوسکے۔ اگر فرقہ پرستی کی آگ دیہی علاقوں میں پھیلتی ہے تو اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوگا، کیونکہ بی جے پی شہروں میں تو کامیاب ہوسکتی ہے، لیکن دیہی علاقوں میں عموماً بی جے پی ناکام رہتی ہے۔ لیکن اگر مسلم منافرت دیہاتوں میں بھی پھیل جائے تو پھر نریندر مودی دیہی علاقوں میں بھی ’’ہندو ہردے سمراٹ‘‘ بن جائیں گے اور اس طرح سنگھ کی حکمت عملی کامیاب ہو جائے گی۔ غالباً یہی سبب ہے کہ مظفر نگر اور راجستھان کے پرتاب گڑھ جیسے اضلاع فرقہ پرستی کا شکار ہو رہے ہیں۔
لب لباب یہ کہ فرقہ پرست طاقتوں نے آئندہ عام انتخابات کے لئے نہ صرف اپنی حکمت عملی تیار کرلی ہے، بلکہ یہ طاقتیں اس حکمت عملی پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔
اس کے برخلاف فرقہ پرستی کا نشانہ بننے والوں نے اب تک اپنی کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی۔ کیا ہندوستانی مسلمانوں نے فرقہ پرست طاقتوں کو ناکام بنانے کے لئے اپنی کوئی حکمت عملی تیار کی ہے؟۔ سچ پوچھئے تو مسلمانوں کی حکمت عملی تو بہت دور کی بات ہے، بلکہ 2009ء کے لوک سبھا انتخابات تک مسلمان جس حکمت عملی پر عمل پیرا رہے، اسے بھی فراموش کرچکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فی الوقت مسلم ووٹ بینک میں جو انتشار نظر آرہا ہے، ایسا انتشار پچھلے تقریباً 20 برسوں میں کبھی نہیں دیکھنے کو ملا۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں نے انتہائی سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے ایک انتہائی کامیاب حکمت عملی تیار کی تھی۔ اس حکمت عملی کا مقصد یہ تھا کہ متحدہ ووٹ کا استعمال کرکے فرقہ پرست طاقتوں کو روکا جاسکے، جس کا پہلا اشارہ بابری مسجد کی شہادت کے تقریباً ایک سال بعد اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں دیکھنے کو ملا تھا۔ اس وقت اتر پردیش کے مسلمانوں نے اپنی پوری طاقت صرف کرکے یو پی میں بی جے پی کو ناکام بنا دیا تھا۔ اس حکمت عملی کے تحت مسلمانوں نے اپنا متحدہ ووٹ اپنے اپنے علاقوں میں اس پارٹی کے حق میں استعمال کیا تھا، جو بی جے پی کو ہرانے کے موقف میں تھی۔ اس حکمت عملی کی دو بنیادی وجوہات تھیں، اول یہ کہ مسلمانوں کو اس بات کا پورا پورا احساس تھا کہ ان کا دشمن کون ہے؟۔
دوسری بات یہ کہ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ کس پارٹی کے پاس اتنے ووٹ ہیں کہ اگر ہم ان کی حمایت کردیں تو فرقہ پرست پارٹی ناکام ہو جائے گی۔ اس حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں نے پہلے تو کئی ریاستوں میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست سے دو چار کیا، پھر 2004ء اور 2009ء کے عام انتخابات میں فرقہ پرستوں کو مرکزی اقتدار تک پہنچنے سے روک دیا۔ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اس سوجھ بوجھ سے سنگھ میں خلفشار پیدا ہو گیا، کیونکہ مسلم ووٹ بینک نے سنگھ کی انتخابی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا، تاہم اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سنگھ نے متحدہ مسلم ووٹ میں انتشار پیدا کرنے کی ٹھان لی ہے اور اب یہ صاف نظر آرہا ہے کہ مسلم ووٹ بینک میں کافی انتشار پیدا ہو چکا ہے۔اگر آپ راجستھان کے حالیہ اسمبلی انتخابات کا جائزہ لیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ راجستھان کے مسلمان اس بار متحد نہیں تھے۔ پچھلی کانگریس حکومت کو بدنام کرنے کے لئے فرقہ پرست طاقتوں نے پہلے راجستھان میں فساد کروایا، پھر وہاں کے مسلمانوں میں اس قدر انتشار پیدا کیا گیا کہ کچھ حلقوں کے مسلمانوں نے بی جے پی نمائندوں کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا۔ کچھ اسی طرح کی اطلاعات مدھیہ پردیش سے بھی ملی ہیں، جس کا نتیجہ اب آپ کے سامنے ہے۔ اس وقت راجستھان فسادات کی آگ میں جھلس رہا ہے اور آئندہ لوک سبھا انتخابات میں فرقہ پرست طاقتوں کی کامیابی کے لئے ذہن سازی کی جا رہی ہے۔لب لباب یہ کہ 2014ء کے عام انتخابات کے لئے فرقہ پرست طاقتوں کی حکمت عملی نہ صرف تیار ہے، بلکہ کامیاب بھی ہے، جب کہ اس کے برخلاف مسلمانوں میں انتشار پایا جاتا ہے۔ فی الحال جتنے منہ اتنی باتیں ہیں، کوئی کہتا ہے کہ کانگریس کو ناکام بناؤ، کوئی کہتا ہے عام آدمی پارٹی کو کامیاب بناؤ، الغرض اس بحث میں مسلمان یہ بات بھول چکے ہیں کہ ان کا اصل دشمن کون ہے؟ اور انھیں کس پارٹی کو ناکام بنانا چاہئے۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ مسلمان ایک بار پھر متحد ہوکر اپنا ووٹ تمام حلقہ جات میں اسی پارٹی کے حق میں استعمال کریں، جو فرقہ پرست طاقت کو ناکام بناسکے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اس کا فائدہ نریندر مودی کو ہوگا، جو 2014 ء میں ہندوستانی وزیر اعظم بننے کا عزم رکھتے ہیں۔