آر ایس ایس تقریب میں شرکت،نوبل انعام یافتہ کیلاش ستھیارتی کے نام خط

شاہ عالم خان
محترم کیلاش ستھیارتی جی،
میں یہ خط دکھ بھرے دل اور اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرتے ہوئے آپ کو لکھ رہا ہوں۔ دل میرا کافی بھاری ہے کیونکہ میں نے آپ کے حالیہ آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر کے دورہ کو دیکھا ہے جو آپ نے وجے دشمی تقریب میں شرکت کیلئے کیا تھا، آپ نوبل امن انعام حاصل کرنے والے شخص ہیں اور اس وجہ سے آپ کا آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر کا یہ دورہ کئی امن کے شیدائی شہریوں کیلئے مایوس کن ہے ، اس دنیا کے امن پسند شہری بے شک آپ کے اس دورہ سے مایوس ہوئے ہیں۔ امن چاہنے والے تمام عالمی عوام کی نگاہیں آپ کے ہر قدم پر مرکوز ہوتی ہیں چونکہ آپ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے جس کے بعد امن چاہنے والے عوام کی امیدیں آپ سے مزید بڑھ جاتی ہیں ان ہی حقائق کے تناظر میں، میں یہ مکتوب آپ کے نام تحریر کررہا ہوں۔
آر ایس ایس تقریب میں آپ کی حاضری نے آپ کے امن کے نوبل انعام کی ساکھ کو متاثر کیا ہے ذرا ملالہ یوسف زئی کا تصور کریں جوکہ آپ کے ساتھ نوبل انعام کی شریک وصول کنندہ ہیں اگر وہ پاکستان کی جماعت الاسلامی کی ایک تقریب شرکت کرتی ہیں تو عالمی امن کے شیدائیوں کے دلوں پر کیا گزرے گی؟ اگر وہ ایسا کرتی تو اس سے انکی شناخت کس طرح تبدیل ہوجاتی؟ میں یہاں یہ ذکر کرنا چاہوں گاکہ پاکستان میں ایک تصوراتی طالب علم ملالہ کوطالبان نظریات کی حمایتی ایسی کسی تنظیم کی تقریب میں شرکت سے روکتا حالانکہ آر ایس ایس اورطالبان کے درمیان موازنہ صحیح نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود دونوں کی تنظمیوں کی حتمی منزل ایک جیسی ہی دکھائی دیتی ہے ایک تنظیم ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے تو دوسری تنظیم اپنے ملک کو ایک اسلامی خلافت کی خواہاں ہے۔ چونکہ ہم اجتماعی امور کے دور میں رہتے ہیں، یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ آپ نے جس تنظیم کی تقریب میں شرکت کی ہے اس پر ہندوستان کی حکومت نے 3 مرتبہ پابندی عائد کی ہے۔ آرایس ایس پر سب سے پہلے پابندی اس وقت عاید کی گئی تھی جب مہاتما گاندھی کو قتل کیا گیا تھا۔گاندھی جی کے اس قتل کے بعد ہندوستانی حکومت نے فیصلہ کیا کہ آرایس ایس تنظیم پر ہندوستان کے مختلف حصوں میں پابندی عائد کر دی جائے اس پابندی کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے افراد ڈکیتی، قتل وغارت گری اور امن کو نقصان پہنچانے کی کارروائیوں میں ملوث تھے اس کے علاوہ آرایس ایس کے ارکان پام پلیٹ تقسیم کرتے ہوئے اپنی دہشت گرد کارروائیوں کو پھیلا رہے تھے۔ دوسری جانب پڑوسی ملک پاکستان میں طالبان پر پابندی عائد کرنے کی وجوہات بھی کچھ ایسی ہیں جو آر ایس ایس سے میل کھاتی ہیں۔ کیا آپ یہ نہیں سمجھتے؟

اس کے علاوہ، کون یہ نہیں جانتا ہے کہ آپ نے ایک معزز مہمان کے طور پر اس تنظیم میں شرکت کی جو گاندھی کے قتل میں ملوث ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ چند برسوں میں، آر ایس ایس کی طرف سے خطرناک کوششیںہوئی ہیں اورگاندھی کے قاتل، نتھورام گوڈسے کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن خوش قسمتی سے تاریخ ہمارے سامنے حقائق پیش کرتی ہے ۔آپ کو دعوت نامے قبول کرنے سے پہلے آر ایس ایس کی میراث سے محتاط ہونا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا اس خط میں ذکر کردہ تمام مسائل پر بات کرنا مشکل ہے کیونکہ مختلف وجوہات اور آپ کے نوبل وصول کنندہ ہونے کی وجہ سے آپ کو ان موضوعات پر جواب دینا آسان نہیں ہوگا۔یاد رہے کہ ہندوستان میں بچوں کے حقوق کا اگر ذکر ہو تو ضروری ہے کہ ’بچپن بچاؤ تحریک‘ کا ذکر بھی آہی جائے گا۔ یہ غیر سرکاری ادارہ کیلاش ستیارتھی نے قائم کیا اور اسے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں میں سرِفہرست مانا جاتا ہے۔ ستیارتھی نوبل امن انعام حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی ہیں۔ مہاتما گاندھی تک اس اعزاز سے محروم رہے تھے۔ انعام ملنے کے بعد انہوں نے کہا کہ تمام ہندوستانیوں کے لیے یہ بڑے فخر کی بات ہے، یہ ان بچوں کے لیے بھی بڑا اعزاز ہے جو آج بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، میں اس اعزاز کو دنیا میں محرومی کا شکار بچوں کے نام کرتا ہوں۔ ستیارتھی 1954 میں مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے تھے اور پیشے کے لحاظ سے وہ الیکٹریکل انجینیئر تھے لیکن 26 سال کی عمر میں ہی انھوں نے اپنی ملازمت چھوڑ کر بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ان کا ادارہ اب تک ہزاروں بچوں کو کہیں غلامی تو کہیں استحصال سے بچا چکا ہے۔ ان کے کام کا بنیادی محور وہ بچے ہیں جن سے زبردستی کام کروا کر ان کا بچپن چھین لیا جاتا ہے۔