مسلم قیادت میں نمایاں تبدیلی کی ضرورت

ظفر آغا
ایک اور 6 ڈسمبر گزر گیا ! بعض جگہوں پر کچھ سیکولر افراد اور کچھ مسلم تنظیموں نے بابری مسجد سانحہ کی یاد میں سوگ کا مظاہرہ کیا ، لیکن بابری مسجد شہید کئے جانے کے 22 برس بعد وہ سنگھ پریوار جس نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تحریک چلائی تھی اور جس بی جے پی پر یہ الزام ہے کہ اس نے بابری مسجد گرانے میں اہم رول ادا کیا تھا ، وہ آج ہندوستان کے اقتدار پر پوری طرح قابض ہیں ۔ جبکہ دوسری جانب وہ ہندوستانی مسلمان جو بابری مسجد گرائے جانے کے سبب مارا گیا ، اس کے گھر بار جلائے گئے اور وہ 6 ڈسمبر 1992 کو بابری مسجد کو گرائے جانے کے بعد خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کرنے لگا ، وہ اب پوری طرح ہندوستانی سیاست کے حاشیہ پر پہنچ گیا ، یعنی وہ سیاسی اور سماجی طاقتیں جو بابری مسجد گرانے میں پیش پیش تھیں

وہ مسجد منہدم ہونے کے 22 سال بعد اپنی ترقی کے عروج پر ہیں جبکہ ہندوستانی مسلمان اپنی سیاسی و سماجی تنزلی کی انتہا پر ہے ۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ بابری مسجد سازش کے تحت شہید کی گئی جس کا بنیادی مقصد مذہبی کم اور سیاسی زیادہ تھا ۔ اس سازش کے دو پہلو تھے ۔ اولاً یہ کہ سنگھ بی جے پی کی شکل میں ملک کا اقتدار اپنے قبضے میں کرسکے ۔ بابری مسجد گرانے والی قوتیں اپنی سازش میں پوری طرح کامیاب رہیں ۔ دوسری جانب ہندوستانی مسلمان پوری طرح ناکام رہا لیکن سوال یہ ہے کہ بابری مسجد گرائے جانے سے لے کر اب تک ہندوستانی مسلمان اپنے دفاع ، اپنی ترقی اور خود کو بدترین سیاسی و سماجی حالات سے نپٹنے کے لئے کوئی حکمت عملی یا کوئی کارگر لائحہ عمل تشکیل نہیں دے سکا ۔ بالفاظ دیگر کیا ہندوستانی مسلمان بابری مسجد گرائے جانے کے بعد سے آج تک یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا ۔ کیا اب تک وہ اپنے دفاع کے لئے سیکولر کہنے والی طاقتوں پر تکیہ کرتا رہا اور آخر اس نوبت کو پہنچ گیا کہ اب وہ خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کررہا ہے ۔ راقم الحروف کے خیال میں بابری مسجد انہدام کے بعد اور تازہ ترین سیاسی حالات کے مدنظر یہ وہ سوالات ہیں ، جن پر نہ صرف غور کرنے کی ضرورت ہے ، بلکہ ان سوالات کے جوابات بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ جن سوالات کو اوپر اٹھایا گیا ہے ان پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں ۔

بابری مسجد منہدم کئے جانے سے اب تک اگر ہندوستانی مسلمان کے سیاسی و سماجی منظرنامہ پر ایک نگاہ ڈالیں تو مجموعی طور پر مسلمانوں کی جو صورت حال ان 22 برسوں میں رہی ،اس کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلمان اس بدترین دور میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہی بیٹھا رہا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بابری مسجد جب شہید ہوئی تو مسلمانوں کا پورے ملک میں کشت و خون ہوا اور مسلمان بے بس تماشائی بنا دیکھتا رہا ۔ پھر چند ماہ بعد 1993 میں ممبئی فساد ہوئے جس میں پھر مسلمان لاچار و مجبور رہا ، اس کے بعد 2002 میں گجرات میں مسلم نسل کشی ہوئی اور سارے ہندوستان کا مسلمان ڈرا سہما سب کچھ دیکھتا رہا ۔ پھر اس کے بعد سارے ہندوستان سے نہ جانے کتنے مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام میں جیل گئے اور مسلمان کچھ نہیں کرسکا پھر ابھی 2014 کے پارلیمانی چناؤ میں مسلم ووٹ بینک منتشر ہوگیا اور مسلمان اپنے گھروں میں سہما سکڑا بے بسی کے عالم میں ملک کے انتخابی نتائج ٹی وی پر دیکھتا رہا ۔ لب لباب یہ ہے کہ پچھلے 22 برسوں کا سیاسی منظرنامہ ہندوستانی مسلمان کی جو شکل پیش کرتا ہے ، وہ بے بسی ، لاچاری اور مجبوری کی شکل ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ بابری مسجد منہدم ہونے کے بعد مسلمانوں نے نہ تو کوئی کارگر حکمت عملی اپنائی اور نہ ہی وہ کوئی سودمند لائحہ عمل بنانے میں کامیاب ہوا ۔ پھر ان سنگین حالات میں مسلمان نے کیا کیا ؟

بابری مسجد گرنے کے بعد مسلمانوں نے صرف ایک سودمند کام کیا تھا ، وہ یہ کہ اس نے اپنے ووٹ بینک کو متحد کرکے ملک کے اسمبلی اور پارلیمانی دونوں انتخابات میں Tactical voting کا حربہ استعمال کیا یعنی اسکے سیاسی دشمنوں کے خلاف جس حلقہ میں جو ’سیکولر‘ نمائندہ کامیاب ہوسکتا ہے اس کو متحدہ ووٹ دیا ۔ یہ حکمت عملی کبھی کامیاب رہی اور کبھی ناکام ہوئی ۔ لیکن اس حکمت عملی کا نچوڑ یہ تھا کہ ہندوستانی مسلمان نے ملک کی ’سیکولر‘ پارٹیوں پر پوری طرح بھروسہ کیا ۔ لیکن 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے اس حکمت عملی کو بھی ناکام بنانے کیلئے ایک تو ہندو ووٹ بینک کو متحدہ کرلیا اور ساتھ ہی مسلمانوں میں پوری طرح بھرم پیدا کرکے مسلم ووٹ بینک کو منتشر کردیا ۔ تو اب سوال یہ ہے کہ کیا وقتی حکمت عملی وضع کرنے اور اسے اپنانے سے کسی قوم کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ ہرگز نہیں ! اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج نریندر مودی اس ملک کے وزیراعظم نہیں ہوتے بلکہ ان کی جگہ پھر سے کوئی نام نہاد ہی سہی لیکن ’سیکولر‘ وزیراعظم ہوتا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم مسائل محض ایک وقتی حکمت عملی سے حل نہیں ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ مسلم مسئلہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے ۔ مسلم مسئلہ دراصل ایک سماجی ، معاشی ، تعلیمی اور سیاسی مسئلہ ہے ، جس کا حل خود مسلمانوں کو تلاش کرنا ہوگا ۔ محض سیکولر جماعتیں مسلم مسائل کو حل نہیں کرسکتیں ۔ ہاں وہ وقتی راحت ضرور پہونچا سکتی ہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا بابری مسجد شہید ہونے کے بعد سے مسلمانوں نے اپنے مسائل کے حل کے لئے مجموعی طور پر کوئی قدم اٹھایا کہ نہیں ؟ اس سوال کا سیدھا جواب یہ ہے کہ پچھلے 22 برسوں میں مسلمانوں پر وہی غفلت چھائی رہی جو اب اس کا شیوہ بن چکی ہے ۔ کہیں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی تاکہ مسلمانوں کے مسائل حل ہوسکیں ۔ ہم نے کبھی ملائم سنگھ ، کبھی لالو پرساد یادو تو کبھی مایاوتی توکبھی سونیا گاندھی پر تکیہ کیا ۔ ان کو ہماری مدد سے جس حد تک فائدہ ہوا اس حد تک انہوں نے ہمارا ساتھ دیا اور جب ان کو یہ لگا کہ محض مسلم مفاد کارگر نہیں تو انہوں نے مظفر نگر جیسے واقعہ سے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ۔ یعنی بابری مسجد انہدام کے بعد سے آج تک کے تجربات یہ سبق دیتے ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات میں مسلمان ’سیکولر‘ پارٹیوں کو چھوڑ تو نہیں سکتا ،لیکن پوری طرح ان پر انحصار بھی نہیں کرسکتا ہے ۔ اس صورت حال میں کیا مسلمانوں کو دوسری مسلم لیگ بنانی چاہئے ۔ ایک مسلم سیاسی جماعت سے بڑھ کر کوئی دوسری بڑی غلطی نہیں ہوسکتی ہے ، کیونکہ جہاں مسلم جماعت بنی نہیں کہ وہاں سنگھ پریوار ہندو ووٹ بینک بنانے میں کامیاب ہوا مثلاً ابھی مہاراشٹرا کے انتخاب میں ایک مسلم جماعت نے دو اسمبلی حلقوں میں کامیابی ضرور حاصل کرلی لیکن اس کے نمائندوں کے سبب پندرہ سے بیس دیگر حلقوں میں ہندو ردعمل کے سبب بی جے پی اور شیوسینا کامیاب ہوگئی ۔ یعنی مسلم سیاسی جماعت بنانے سے خود مسلمانوں کے ہاتھ جھلس جائیں گے ۔ ہاں کچھ افراد کی سیاسی دوکانیں ضرور چمک جائیں گی تو پھر مسلمان کرے تو کیا کرے ؟

بابری مسجد انہدام کی 22 ویں برسی پر ہندوستانی مسلمان کے سامنے یہی سوال ہے کہ آخر ہندوستانی مسلمان کرے تو کرے کیا ؟ اس سے پہلے کہ اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے ایک بات مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھنی ہوگی کہ بابری مسجد گرائے جانے کے بعد سے اب تک جن مسلم تنظیموں نے مسلم قیادت کی ہے وہ مسلمانوں کے کسی کام کی نہیں ہیں ۔ کیونکہ اگر وہ کام کی ہوتیں تو آج مسلمان خود کو دوسرے درجے کا شہری نہیں محسوس کررہا ہوتا ۔ دوسری بات یہ بھی طے کرنی ہوگی کہ مسلم سیاسی جماعت مسلم مسائل کا حل نہیں ہوسکتی ۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ملک کی ’سیکولر‘ پارٹیاں اور ’سیکولر‘ قیادت کو وہ ترک نہیں کرسکتا ہے لیکن محض اس پر وہ پوری طرح بھروسہ بھی نہیں کرسکتا ہے ۔ اب اس پس منظر میں کیا ہوسکتا ہے ، اس صورت حال میں محض یہی ممکن ہے کہ مسلمانوں کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہو جو اپنی حد میں اور سیکولر لب و لہجے میں مسلم مسائل کے حل کے لئے ایک جامع حکمت عملی بناسکے جو مسلم مفاد میں بھی ہو اور جس کا دباؤ ملک کی سیکولر قیادت پر بھی ہو ۔ یہ کام اب علمائے دین کے بس کا نہیں کیونکہ آزادی کے بعد سے اب تک وہی مسلمانوں کی قیادت کرتے رہے اور ناکام ہوگئے ۔ یہ کام اب جدید فکر رکھنے والے مسلم مڈل کلاس کوکرنا ہوگا ۔