عقیل احمد
جاریہ سال کے اوائل میں سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے ایک سروے کیا گیا ۔ اس سروے اور ریسرچ میں یہ پتہ چلانے کی کوشش کی گئی کہ امریکہ میں اسلامو فوبیا کے اثرات کس طرح کے مرتب ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر 5تا 9 سال کی عمر کے بچوں میں اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سروے اور ریسرچ کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں اور اس سے حقیقی صورتحال کا اندازہ لگانے میں بھی مدد مل سکتی ہے ۔
جو ریسرچ اور سروے کیا گیا ہے اس کے مطابق امریکہ میں ہر تین میں ایک بچہ دوسروں کو یہ نہیں بتانا چاہتا کہ وہ مسلمان ہے ۔ ہر دو میںایک بچہ کو یہ یقین نہیں ہے کہ آیا وہ بیک وقت امریکی اور مسلمان بھی رہ پائیگا یا نہیں۔ ہر چھ میں ایک بچہ یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ وہ دوسروں پر ظاہر نہیں کریگا کہ وہ مسلمان ہے ۔ یہ جو اعداد و شمار ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں اور اس سے امریکی معاشرہ میں جو حالات پیش آ رہے ہیں ان کی حقیقی تصویر سامنے آتی ہے ۔ حالیہ وقتوں میں مزید کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ظاہر ہوتا ہے ۔ اس رجحان میں اضافہ ہی درج کیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کو جس طرح سے امتیازی سلوک کا شکار بنایا جا رہا ہے اس سے ان میں احساس کمتری پیدا ہو رہا ہے اور ان کے امریکی ہونے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ ایسی روایت ہے جس نے امریکی مسلمانوں کے مستقبل کے تعلق سے ایک طرح کی بے چینی پیدا کردی ہے ۔ یہ شبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ امریکی مسلمانوں کا مستقبل تاریک بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ ادارے اور تنظیمیں اس رجحان کو یا اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کی بے تکان جدوجہد ثمر آور ثابت ہوگی ۔ ان کی کوششیں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔
امریکہ میں پہلے سیاہ فام باشندوں کے خلاف امتیازی سلوک کا آغاز ہوا تھا ۔ یہی وجہ رہی کہ وہ ایک طویل وقت تک امریکہ کے قومی دھارے کا حصہ بننے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ ان میں منظم طریقہ سے احساس کمتری پیدا کردیا گیا تھا ۔ انہیں ہر طرح سے یکا و تنہا کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ 1939 میں کینیتھ و مامی کارل نے ایک سنگ میل کارل ڈال اسٹڈی پیش کی تھی ۔ اس کے ذریعہ یہ پتہ چلانے کی کوشش کی گئی تھی کہ کس طرح سے سیاہ فام بچوں کو نسل پرستی کا شکار بنایا گیا تھا ۔ کس طرح سے انہیں ہر شعبہ میں پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس وقت سیاہ فام باشندوں کو منفی انداز میں پیش کیا گیا تھا ۔ ان کے کردار اور طرز عمل کو خراب اور غلط انداز میں پیش کیا گیا تھا ۔ اس وقت سیاہ فام گڑیاں Dolls تیار کرتے ہوئے ان کو مسخ شدہ حالت میں پیش کیا جاتا تھا اور اس کا مقصد سیاہ فام باشندوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونا تھا ۔ اسی طرح سفید فام گڑیاں تیار کی جاتی تھیں جنہیں انتہائی بہتر ‘ موثر اور خوبصورت بناکر پیش کیا جاتا تھا ۔ اس اسٹڈی کے مطابق اس عمل کے ذریعہ سیاہ فام باشندوں کو اندر ہی اندر دبانے اور کچلنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس کا مقصد سیاہ فام بچوں میں احساس کمتری پیدا کرنا تھا اور ایسا کیا گیا ۔
حالانکہ مسلم بچوں کے معاملہ میں بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے لیکن اس میں انداز کو تبدیل کردیا گیا ۔ 2016 کے ابتداء میں جو سروے اور ریسرچ کیا گیا تھا اس کے مطابق اب نسل پرستی کی بجائے مذہب کو بنیاد بناکر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ جو ریسرچ کیا گیا اس میں سابق ڈین کالج آف ایجوکیشن سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی ڈاکٹر ڈیوڈ ہیمفل بھی شامل تھے ۔ اس ریسرچ اور سروے کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ بھی چونکا دینے والے ہیں۔ سروے کے مطابق امریکی اور مسلمان شناخت میں کوئی مطابقت نہیں رہ گئی ہے ۔ یہ بھی داخلی طور پر دبانے اور کچلنے کی ایک مثال ہے ۔ والدین اپنے بچوں کے تعلق سے جو فیصلے کرتے ہیں وہ ان کے طرز عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلا بچوں کو حجاب استعمال کرنا چاہئے یا نہیں۔ یہ عرب ہیں یا ایشیائی ہیں یا پھر انہیں اسلامی اسکول کو بھیجنا چاہئے یا عصری تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں فیصلوں کے اثرات بچوں کے مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں کو بنیاد بناکر مسلمانوں میں بھی احساس کمتری پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس ساری مہم کی توجہ ایسا لگتا ہے کہ بچوں پر دی جا رہی ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ گذشتہ دنوں امریکہ کے ایک اسکول میں ایسا واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک اسکول ٹیچر نے پانچ سالہ مسلم طالب علم کو زد و کوب کیا اور اسے مسلمان ہونے پر برا بھلا کہا تھا ۔ یہ شاذ و نادر پیش آنے والا واقعہ نہیں کہا جاسکتا ۔ حالیہ عرصہ میں ایسے کئی اور بھی واقعات پیش آئے ہیں۔ کچھ واقعات یقینی طور پر ایسے بھی ہیں جو میڈیا میں جگہ حاصل نہیں کرپائے ہوں ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح کچھ دہے قبل تک امریکہ میں سیاہ فام باشندوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور انہیں احسا س کمتری کا شکار کردیا گیا تھا وہی طریقہ اب مسلمانوں کے ساتھ اختیار کیا جا رہا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکی مسلمانوں میں اعتماد پیدا کیا جائے ۔ اس کیلئے کچھ ادارے اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کی بے تکان جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی ۔