محمد ریاض احمد
وزیراعظم نریندر مودی آج کل خواتین کے حقوق ، ان کے تحفظ اور خواتین پر مردو ں کے مظالم پر بہت زیادہ بولنے لگے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے ڈھائی سال بعد مودی جی کو صنف نازک کی حالت زار کا خیال آیا ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ جذبہ خیرسگالی کے تحت بعض مسلمانوں کی جانب سے پیش کی جانے والی ٹوپی پہننے سے انکار کرنے والے مودی جی مسلم خواتین کے حق کی بات کرنے لگے ہیں ، انھیں اُس وقت بہت دکھ ہوتا ہے جب کوئی مسلم مرد اپنی بیوی سے تنگ آکر یا اس کے ساتھ ازدواجی زندگی گذارنے کی آخری کوشش ناکام ہونے کے بعد اُسے طلاق ثلاثہ دے کر اپنی زوجیت سے خارج کردیتا ہے ۔ طلاق ثلاثہ ، نکاح حلالہ ، نان و نفقہ اور وراثت کے مسئلہ پر مودی بڑی شدت کے ساتھ مسلم خواتین کی تائید کرنے لگے ہیں ۔ کچھ دن قبل اُترپردیش کے بنڈیل کھنڈ کے علاقہ ماہویا میں شری نریندر مودی نے مہاپریورتن ریالی سے پرجوش خطاب کیا ۔ شریعت اسلامی سے ناواقف مودی نے مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ کے عمل کی مخالفت کی ساتھ ہی خود کو انصاف پسند اور غیرجانبدار ثابت کرنے کیلئے انھوں نے ہندو معاشرہ میں مادرشکم میں ہی لڑکیوں کو قتل کردینے (زندہ دفن کرنے) پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی جیسے انھوں نے ساری ہندوستانی خواتین کے درد و غم کا ریالی میں ٹھیکہ لیا ہو ۔ مودی نے ایک انسانیت نواز امن و انصاف پسند ، غیرجانبدار محب وطن حکمراں کی طرح خو د کو خواتین کے کاز کے چمپیئن کی حیثیت سے پیش کیا ۔ مہاپریورتن ریلی میں جب مودی نے یہ کہا کہ مادرشکم میں بیٹیوں کا قتل ایک گناہ ہے اور اگر گناہ گار ہندو ہوا تو کیا ہوا میری (مودی) حکومت نے اس تکلیف دہ رجحان کو ختم کرنے کے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کو جس نے بھی تقریر لکھ کر دی اُس نے بڑی ہی ہوشیاری سے کام لیا ہے لیکن شائد اُس نے یہ نہیں سوچا کہ مودی کی زبان سے اس طرح کے الفاظ وہ بھی مسلم خواتین کے حق میں جاری ہوں گے تو مسلمانوں کے بشمول سارے ملک کے انصاف پسندوں میں حیرت کی لہر دوڑ جائے گی ۔ بنڈیل کھنڈ ریالی میں مودی کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیٹیوں ، ماؤوں اور بہنوں کا تحفظ کیا جانا چاہئے ، اس معاملہ پر کسی مذہب کی بنیاد پر نہیں سوچنا چاہئے ۔ مودی نے خود کو مسلم خواتین کا ایک بہت بڑا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اُن کی حکومت نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو بڑی سختی کے ساتھ اُٹھایا ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ میری مسلم بہنوں کا کیا جرم ہے کہ کوئی فون پر انھیں طلاق کہدیتا ہے اور ان بیچاریوں کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ انھوں نے ایک طرح سے دھمکی آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ملک میں مسلم خواتین کی زندگیوں کو طلاق ثلاثہ کے ذریعہ تباہ و برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ہرحال میں اُن خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ مہاپریورتن ریالی میں مودی کی تقریر بہت خوب رہی ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتے ہوئے شائد یہ سمجھ لیا ہوگا کہ ملک کی خواتین میں ان کا قد مزید دراز ہوگیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے ،ہوسکتا ہے کہ اُترپردیش اسمبلی کے مجوزہ انتخابات کے پیش نظر مودی نے جان بوجھ کر مسلم خواتین کے حقوق کی بات کی ہوگی تاکہ انھیں مسلمانوں کادشمن کہنے والوں کی رائے تبدیل ہوجائے۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ وزیراعظم یا ان کی تقاریر لکھنے اور ان کی حکومت کا ظاہری و خفیہ ایجنڈہ طئے کرنے والوں کو سب سے پہلے شریعت اسلامی کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے ۔ اس سلسلہ میں ہمارے وزیراعظم اپنے سینئر رفیق مسٹر ایل کے اڈوانی سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ جنھوں نے کچھ عرصہ قبل قرآن پاک کا مطالعہ شروع کیا تھا ۔ مودی نے طلاق ثلاثہ پر مسلم خواتین کی حمایت میں جو کچھ بھی کہا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ طلاق ثلاثہ تو دور لفظ طلاق سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ مسلمانوں میں طلاق کن حالات میں دی جاتی ہے۔ میاں بیوی کس موڑ پر ایک دوسرے کی زوجیت سے خارج ہوتے ہیں ۔ طلاق کو دین اسلام میں کس طرح ناپسندیدہ عمل قرار دیاگیا ہے۔ اگر مودی جی شریعت اسلامی کا غیرجانبدارانہ اور خلوص دل کے ساتھ مطالعہ کریں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے ذہن و دل میں فروغ پاچکے اور پارہے ناپسندیدہ جذبہ سے نجات حاصل کرلیں گے ۔ حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے مودی نے اپنے خطاب میں بار بار مسلم خواتین کے حقوق کی حفاظت کرنے کااعلان کیا لیکن ہم ان کی اطلاع کے لئے یہ عرض کردیں کہ شریعت کے خلاف عدالت سے رجوع ہونے والی خواتین مسلم ہو ہی نہیں سکتی ہاں انھیں خودساختہ اور نام نہاد مسلم خواتین کہا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی سارے ملک میں اب یہ سوال گونج رہا ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے خود اپنی بیوی سے انصاف نہیں کیا ، اُس کے ارمانوں و خواہشات کو اپنے پیروں تلے روندکر سیاسی گلیاریوں میں بھٹکتا رہا ، جس نے بحیثیت شوہر اپنی ذمہ داریوں و فرائض سے راہ فرار اختیار کی جو اپنی شریک حیات کی جسمانی ضرورت پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہا اور جس نے اپنی اہلیہ کو شادی کے بعد دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے جرم کا ارتکاب کیا ہو وہ کس طرح دوسری عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرسکتا ہے ؟
مودی جی کو شریعت اسلامی کے خلاف صف آراء ہونے والی چند گمراہ مسلم خواتین کے حقوق یاد رہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ انھوں نے 1968 ء میں ایک نوجوان لڑکی جشودا بین کے ساتھ اُس وقت آگ کے سات پھیرے لیکر یہ وعدہ کیا تھا کہ زندگی بھر اُس کا ساتھ نبھائیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے ۔ انھوں نے اپنے وعدوں کو نہ صرف فراموش کیا بلکہ اس سے اپنی دوری اختیار کرکے عین عفوان شباب میں اسے اپنے شوہر کی محبت اور اس کے ساتھ سے محروم رکھا ۔ جشودا بین اب 62 سال کی ضعیف خاتون ہوچکی ہے ۔ کیا مودی جی نے اپنی بیوی کے حقوق کی حفاظت کی ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمارے وزیراعظم عمر بھر نہیں دے سکتے ۔ جشودا بین کو انھوں نے کبھی بیوی سمجھا ہی نہیں لیکن اس بیچاری نے ہر ظلم کو اپنے سینے میں دفن کرلیا ۔ آج بھی وہ اپنے شوہر کا انتظار کررہی ہے اور اس کا یہ انتظار کب ختم ہوگا یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے ۔ کاش مودی جی شریعت اسلامی کی مخالف عورتوں کی تائید و حمایت کرنے سے قبل ایک لمحہ کیلئے یہ سوچ لیتے کہ انھوں نے اپنی بیوی سے انصاف کیا ؟ بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دینے والے مودی جی کیلئے اب بھی وقت ہے کہ وہ کسی کی بوڑھی بیٹی کسی کی بوڑھی بہن اور اپنی بوڑھی بیوی (جشودابین) کو 7 ریس کورس میں بلالیں اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو صرف جشودا بین پر ہی نہیں بلکہ ہندوستانی خواتین پر ایک احسان ہوگا ۔ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات کرنے والے مودی جی مادرشکم میں لڑکیوں کو قتل کئے جانے پر بھی تشویش ظاہر کرتے ہیں۔ مودی جی کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین اسلام میں لڑکیوں کو رحمت قرار دیا گیا ہے ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ تین ، دو یہاں تک کہ ایک بیٹی کی بھی شادی کرکے اس کے فرائض سے فراغت پانے والا باپ جنت کا مستحق ہے ۔ مودی جی یہ جان لیں کہ دین اسلام میں بیٹی کو نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ، ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی گئی ہے۔ اپنی بیوی سے حسن سلوک کرنے والے کو بہترین شخص قرار دیا گیا ہے۔ اگر مودی جی حقیقت میں ہندو معاشرہ میں مادرشکم میں بچیوں کے قتل پر پریشان ہیں تو بیٹیوں سے متعلق اسلامی تعلیمات سے استفادہ کریں ، ہمیں سوفیصد کیا ناقابل تصور حد تک یقین ہے کہ ہندوستان میں جاری یہ تکلیف دہ رجحان رک جائے گا ۔
مودی جی کو شائد اندازہ نہیں ہوگا کہ ساری دنیا میں لڑکیوں کے سب سے زیادہ قتل ہندوستان میں اور ہندو معاشرہ میں ہوتے ہیں ۔ 2011 ء کی ایک اسٹڈی میں جو برطانوی طبی جریدہ لانیسٹ میں شائع ہوئی ہے یہ دردناک انکشاف کیا گیا کہ پچھلے 30 برسوں کے دوران ہندوستان میں تین ملین (30 لاکھ) بچیوں کو مادرشکم میں صرف اسی لئے قتل کیا گیا کیونکہ ہندو لڑکیوں کی پیدائش کو منحوس گردانتے ہیں۔ ہندوستان میں لاکھوں کی تعداد میں قتل ہورہی بچیوں کو بچانے کی فکر کرنے کی بجائے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے خواہاں مودی جی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ منظرعام پر آئی جس میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں ہر روز 7000 بچیوں کو مادرشکم میں قتل کردیا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس مرکزی وزیر مینکا گاندھی کے مطابق ہر روز 2000 لڑکیوں کو مادرشکم میں قتل کیا جاتا ہے ۔ ’’بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا پرفریب نعرہ دینے والے مودی جی کو ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایک عام ہندوستانی شہری یہ دردناک انکشاف کرتا ہے کہ اس نے اپنی دوسری بیٹی کو مادرشکم میں صرف اس خوف سے قتل کروایا کہ آگے چل کر اُسے جہیز کی بھینٹ پر چڑھنا پڑے گا ۔ واضح رہے کہ مادرشکم میں لڑکیوں کے قتل کے باعث ملک کی کئی ریاستوں میں لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے ۔ ہریانہ میں بھی لڑکیوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجہ میں وہاں عصمت ریزی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ طلاق ثلاثہ پر نام نہاد مسلم خواتین کی ہمدردی میں آواز اُٹھانے ولے وزیراعظم کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ملک میں عصمت ریزی عورتوں کے خلاف چوتھا جرم ہے ۔ 2015ء میں کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق عصمت ریزی کے 34651 واقعات پیش آئے جن میں 6 سال کی کم عمر لڑکی سے لیکر 60 سالہ بوڑھی خواتین تک شامل ہیں۔ کاش مودی جی کو ان مظلوم خواتین کی آہیں ان کی چیخیں سنائی دیتی ۔ نام نہاد مسلم خواتین کے نام پر خود کو روشن خیال ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے مودی جی سے یہ بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ان کی زبان پر تالے کیوں لگ گئے تھے جب میوات میں گاؤ رکھشک دلوں کے غنڈے ایک 20 سالہ خاتون اور اس کی 14 سالہ خالہ زاد بہن کی اجتماعی عصمت ریزی کررہے تھے ۔ نام نہاد مسلم خواتین کی تائید میں اُٹھ کھڑے مودی نے اس وقت خاموشی اختیار کیوں کی جب ان مظلوم خواتین کے خالو اور خالہ کو ہندودہشت گردوں نے بیدردی سے موت کی نیند سلادیا تھا ۔ مودی نے اس المناک واقعہ پر اپنی زبان سے ایک لفظ ادا نہیں کیا جیسے اُن کی زبان شدت غم سے گنگ ہوگئی ہو ۔ خودساختہ مسلم خواتین کی ہمدردی کا دم بھرنے والے مودی نے 26 ستمبر 2015 ء کو دادری میں گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں 57 سالہ اخلاق کے قتل پر بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی ۔ جھارکھنڈ لاتیہار ضلع کے بالومتھی میں 18 مارچ 2016 ء کو گاؤ رکھشک دلوں کے غنڈوں نے جب 32 سالہ مظلوم انصاری اور 15 سالہ کمسن امتیاز خان کو قتل کرکے درخت سے ان کی نعش لٹکادیں تب بھی مودی کی زبان سے ایک بھی لفظ ادا نہیں ہوا ۔
احمد آباد میں محمد ایوب کو عیدالاضحیٰ سے قبل شہید کیا گیا۔ مدھیہ پردیش میں ایک مسلم خاندان کے ارکان کو ایک دوسرے کا پیشاب پلایا گیا ۔ ماں بیٹے کو غیر فطری عمل کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ اس پر بھی مودی خاموش رہے۔ کشمیر میں درجنوں کی تعداد میں نوجوان سیکوریٹی فورسس کے پیلیٹ گنس سے زخمی ہوئے۔ انشا ملک نامی 14 سالہ لڑکی قوت بصارت سے محروم ہوگئی ۔ مودی خاموش رہے۔ مودی جی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہر ہفتہ ملک میں 13 دلتوں کا قتل ہوتا ہے ، 5 دلتوں کے گھر جلائے جاتے ہیں، 6 دلتوں کا اغواء کیا جاتا ہے ۔ 21 دلتوں خواتین کی عزت لوٹی جاتی ہے۔ دلت خواتین کو برہنہ کر کے گشت کروائی جاتی ہے۔ مودی ان حقائق پر توجہ کیوں نہیں دیتے۔ کاش مودی ذکیہ جعفری، کوثر بانو جیسی خواتین کی حمایت میں آواز اٹھاتے لیکن مودی جی کا قصور بھی کیا ہے ، کوئی مجرم کوئی گناہ گار خود کو مجرم اور گناہ گار نہیں کہتا۔
mriyaz2002@yahoo.com