مسلم خواتین سے اسلام کیا چاہتا ہے؟

سمیہ ناصر القعیطی
اسلام، اللہ تعالی کی طرف سے ایک لازوال اور آفاقی مذہب ہے، جو انسانیت کے لئے خیر و فلاح کا سرچشمہ ہے اور اس کا بے انتہا احسان ہے کہ اس پاک ذات نے ہم سب کو مسلمان بنایا۔ لیکن ہم نسلی مسلمان ہیں، کیونکہ ہمارے آبا و اجداد بھی مسلمان تھے۔ اللہ تعالی نے ہمیں فہم و شعور عطا فرمایا ہے تو ہمیں اسلامی تعلیمات کی جانکاری حاصل کرتے ہوئے عملی طورپر مسلمان بننا چاہئے۔ اگر ہم اسلام چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری زندگی پر اسے حکمراں بنانا ہوگا، کیونکہ اس کا واضح مطالبہ ہم سے یہ ہے کہ ’’تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ‘‘۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ایمان کا مزہ چکھ لیا اس شخص نے جو راضی ہو گیا اس بات پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو اور اسلام ہی اس کا طریقہ زندگی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رہنما ہوں‘‘۔ اس حدیث شریف کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس نے سوچ سمجھ کر اسلام کو بہ رضا و رغبت قبول کیا، اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا، ورنہ وہ دین سے ناواقف رہا۔

اسلام کی حقیقت جان لینے کے بعد گویا مسلمان کا معنی یہ ہے کہ ایک آدمی پورے شعور کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ وہ دنیا میں صرف ایک رب العالمین کی بندگی کرے گا اور اسی کے آگے سر اطاعت جھکائے گا اور یہ بھی کہ دنیا میں اپنی رہنمائی اور رہبری کے لئے صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانے گا اور زندگی گزارنے کے مختلف طریقوں کو چھوڑکر صرف وہی ایک طریقہ زندگی کو پسند کرے گا، جس کو اسلام نے پیش کیا ہے۔ اس شعور و ادراک کے ساتھ اسلام کو اپنانے کے بعد اسلامی زندگی کا معنی یہ ہے کہ ایک مسلمان کے اندر ذمہ داری کا احساس ہو۔ یعنی جس دل میں ایمان ہو، وہ کبھی اللہ کے حضور جوابدہی سے غافل نہیں ہوتا، بلکہ وہ پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس کی اس زندگی کے بعد پھر ایک زندگی ہے، جس میں اللہ کے سامنے حاضر ہوکر اسے اپنے ایک ایک کام اور ایک ایک حرکت کا حساب دینا ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’خبردار! تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک سے اُس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے صحیح اسلامی معاشرہ بنانے کی ذمہ داری مرد و خواتین دونوں پر عائد کی ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنا ہر مؤمن کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے مرد اور عورت دونوں کے لئے الگ الگ دائرۂ عمل بنایا ہے۔ بحیثیت مسلمان ایک مرد کس میدان میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور بحیثیت مسلمان ایک عورت پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، تاہم یہاں صرف عورت کی ذمہ داریوں کا ذکر مقصود ہے۔

ایک مسلم عورت کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالے، اپنے اندر سے جہالت کی ایک ایک چیز چن چن کر نکال دے، اپنے خیالات، اپنے اعمال اور اپنے اخلاق و معاشرت کو دین کا تابع بنائے۔ عورت کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اپنے گھر سے غیر اسلامی رسوم اور طور طریقے ختم کردے۔ اسی طرح نئے زمانے کی روشن خیالی سے دور رہے اور ماڈرن فیشن زدہ ماحول سے اپنے گھر کو بچائے۔ عورت کا تیسرا کام یہ ہے کہ اپنے گھر کے چھوٹے بچوں کی تربیت اسلامی طرز پر کرے، تاکہ ہمارے گھروں میں دین کا ماحول بنے، اسلام کا نور پھیلے اور گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے اسلامی طرز زندگی کا نمونہ بن جائیں۔ علاوہ ازیں نماز اور تلاوت قرآن کی پابندی سے ان بچوں کے اندر اسلام کے وجود کا احساس پیدا کریں۔

ایک مسلم خاتون کا چوتھا کام یہ ہے کہ جن مرد حضرات سے اس کا قریبی رشتہ ہو، یعنی باپ، بھائی، شوہر اور بیٹوں کو اسلامی زندگی کی طرف راغب کرے اور ان سے کہے کہ ہمیں اسلامی زندگی مرغوب ہے، جس میں نماز، روزہ، پرہیزگاری، حسن اخلاق کے علاوہ خدا کا خوف اور اسلامی آداب و تہذیب کا لحاظ ہو تو (انشاء اللہ تعالی) مردوں کی زندگی میں تبدیلی آئے گی۔ ان سے یہ بات صاف صاف کہہ دے کہ حرام کی کمائی کے ذریعہ حاصل کی ہوئی کسی چیز کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، ہمیں حلال کی محدود کمائی میں روکھی سوکھی کھاکر جھونپڑی میں رہنا زیادہ عزیز ہے۔ خواتین اسلام اگر یہ عزم کرلیں تو حرام خوری ختم ہو جائے گی اور نہ جانے کتنی خرابیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ اگر ہم واقعی اسلام کو دل و جان سے چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام کو پوری طرح سے اپنانا ہوگا اور اپنی زندگی پر اسے حکمراں بنانا ہوگا۔
آج ہمارے معاشرے کی عورتوں نے اپنا مقام و مرتبہ کھودیا ہے اور وہ اسلامی احکامات کو بھول کر دنیا کے پیچھے لگی ہوئی ہیں۔ حالانکہ عورت کی وجہ سے ایک معاشرہ سدھر بھی سکتا ہے اور بگڑ بھی سکتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے عورت پر بہت ہی نازک ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور مردوں کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی ہر میدان میں اس کا حق عطا کیا ہے، لہذا مسلم خواتین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور ایک بگڑے ہوئے معاشرہ کو سیدھی راہ پر لانے کی کوشش کریں۔