مسلم تحفظات ہنوز خواب

اولڈ سٹی گولڈ سٹی نہیں بن سکا
سارے وعدے فراموش

محمد نعیم وجاہت
ٹی آر ایس نے تحریک تلنگانہ کے دوران مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کے لئے ہر سیاسی و سماجی تنظیم کے علاوہ مذہبی تنظیموں سے بھی مدد حاصل کی تھی اور اُس وقت مسلمانوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ تشکیل تلنگانہ ریاست اور ٹی آر ایس کا اقتدار مسلمانوں کے لئے نعمت ثابت ہوگا لیکن 4 سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوگی کہ تلنگانہ میں مسلمانوں کے اچھے دن ویسے ہی ہیں جسے نریندر مودی کے دور اقتدار میں ہندوستانیوں کے اچھے دن جاری ہیں۔ کے چندرشیکھر راؤ نے شاد نگر کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ٹی آر ایس کو اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں اندرون 4 ماہ ٹاملناڈو کی طرز پر تلنگانہ کے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں گے۔ ٹی آر ایس حکومت کے 4 سال مکمل ہوچکے ہیں مگر وعدے کے مطابق مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے میں ٹی آر ایس حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ بجٹ سیشن کے دوران ٹی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ نے ایک ہفتہ تک پارلیمنٹ میں احتجاج کیا مگر یہ احتجاج مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ تحفظات کے توسیع کے اختیارات ریاستوں کے سپرد کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ روزنامہ سیاست نے تلنگانہ کے چپہ چپہ میں 12 فیصد مسلم تحفظات کی تحریک چلائی۔ نیوز ایڈیٹر عامر علی خاں نے تلنگانہ میں 15 ہزار کیلو میٹر کا سفر کرتے ہوئے مسلمانوں میں شعور بیدار کیا۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اپنے 4 سالہ دور اقتدار میں دیڑھ دو سال قبل ایک ہی مرتبہ ٹی آر ایس کے مسلم قائدین کو اپنے فارم ہاؤز پر لنچ پر مدعو کیا۔ ان سے کافی دیر تک بات چیت کرتے ہوئے ایک مسلم قائد کو راجیہ سبھا کا رکن بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ موقع ہونے کے باوجود مسلمانوں کو راجیہ سبھا کی رکنیت فراہم نہیں کی۔ اسمبلی سیشن کے دوران چھاتی ٹھوک کر چیف منسٹر نے اردو میڈیم اسکولس کی مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات کرنے کے لئے خصوصی ڈی ایس سی کا انعقاد کرنے کا اعلان کیا۔ 8 ماہ گزرنے کے باوجود اس پر بھی کوئی عمل آوری نہیں کی۔ کبھی اولڈ سٹی کو گولڈ سٹی میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تو کبھی پرانے شہر کو استنبول اور نئے شہر کو ڈلاس کے طرز پر ترقی دینے کا اعلان کیا۔ اولڈ سٹی اولڈ سٹی ہی ہے گولڈ سٹی میں تبدیل نہیں ہوئی اور نہ ہی تاریخی پرانے شہر کو استنبول کی طرز پر اور نئے شہر کو ڈاس کے طرز پر ترقی دی گئی، وعدے کرنا فراموش کردینا چیف منسٹر تلنگانہ کی عادت سی بن گئی ہے۔ کانگریس کے دور حکومت میں جب میٹرو ریل چلانے کا منصوبہ تیار کیا گیا تو املی بن بس ڈپو سے فلک نما تک میٹرو ریل چلانے کے فیصلے کو منصوبہ میں شامل کیا گیا مگر ٹی آر ایس حکومت نے پرانے شہر میں میٹرو ریل چلانے کے منصوبے کو ختم کردیا۔ اسمبلی کے بجٹ سیشن میں ایل اینڈ ٹی کے بجائے حکومت کی جانب سے پرانے شہر سے انٹرنیشنل ایرپورٹ تک میٹرو ریل چلانے کا دوبارہ فیصلہ کیا گیا مگر اس پر کوئی عمل آوری نہیں ہوئی۔ کانگریس کے دور حکومت میں اُس وقت کے چیف منسٹر ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی نے پرانے شہر کی ترقی کے لئے 2000 کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان کیا اور کئی ترقیاتی و تعمیری کام بھی انجام دیئے گئے۔ ماہ رمضان کے آغاز سے تقریباً 20 دن قبل چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے پرانے شہر کی نمائندگی کرنے والے عوامی منتخب نمائندوں کا ایک اجلاس طلب کیا اور پرانے شہر کی ترقی کے لئے 1000 کروڑ روپئے کا اعلان کیا جو مضحکہ خیز ہے۔ کیوں کہ 12 تا 14 سال میں ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے ایک ہزار کروڑ کے پیاکیج کے بجائے 4 ہزار کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان کیا جانا تھا۔ چیف منسٹر نے ماہ رمضان کے آنے سے قبل پرانے شہر میں ترقیاتی و تعمیری کاموں کا خود پہونچ کر سنگ بنیاد رکھنے کا وعدہ کیا تھا اس کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ ٹی آر ایس حکومت نے ساری ریاست میں 2.70 لاکھ ڈبل بیڈ روم مکانات تعمیر کرنے جس میں ایک لاکھ ڈبل بیڈ روم مکانات گریٹر حیدرآباد میں تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 4 سال میں صرف 10 ہزار ڈبل بیڈ روم مکانات تعمیر کئے گئے جس کا ریکارڈ حکومت نے اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ پرانے شہر میں ایک بھی ڈبل بیڈ روم مکان تعمیر نہیں کیا گیا۔ 10 ایکر اراضی اراضی پر عالمی تقاضوں سے لیس اسلامک کلچر سنٹر تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ابھی تک اراضی کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ ٹی آر ایس کو اقتدار حاصل ہوتے ہی پہلے بجٹ تلنگانہ کے زائرین کو اجمیر میں رباط قائم کرنے کے لئے 5 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے ان 4 برسوں کے دوران دو مرتبہ اجمیر کا دورہ کیا اور ایک مرتبہ چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے سندھیا سے ملاقات کی مگر رباط کے لئے آج تک اراضی حاصل نہیں کی جاسکی۔ انتخابی مہم کے دوران کے سی آر نے لینکو ہلز کی وقف اراضی واپس حاصل کرتے ہوئے دوبارہ وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ جتنی بھی وقف اراضیات پر قبضے ہوئے اُن قبضوں سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے وقف اراضی وقف بورڈ کے حوالے کرنے اور ایک ایک انچ وقف اراضی کی حفاظت و نگہداشت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ان چار برسوں کے دوران کوئی بھی قبضہ کردہ اراضی وقف بورڈ کے حوالے نہیں ہوئی اور کئی مقامات پر وقف اراضیات پر ناجائز قبضے ہوگئے۔ شہر حیدرآباد کے کئی مقامات پر سڑکوں کی توسیع میں وقف اراضی حاصل کرلی گئی۔ 300 کروڑ روپئے معاوضہ بھی گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن حیدرآباد نے وقف بورڈ کے حوالے نہیں کیا۔ حکومت نے ریاست میں اراضی سروے کرایا ہے۔ کئی مقامات پر وقف کی اراضیات پر کاشت ہورہی ہے۔ اس کا مالک کو کس کو بنایا گیا ہے اس کی ابھی تک وضاحت نہیں کی گئی۔ وقف بورڈ کو جوڈیشیل اختیارات دینے کے وعدے کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ گزشتہ 4 سال کے دوران اقلیتوں کے لئے مختص کردہ بجٹ کبھی مکمل استعمال نہیں کیا گیا۔ اقلیتی نوجوانوں کی بے روزگاری کو دور کرنے کے لئے کوئی نئی اسکیم متعارف نہیں کی گئی۔ اقلیتوں سے 1.60 لاکھ درخواستیں وصول کرنے کے بعد انھیں قرض کی اجرائی سے انکار کردیا گیا۔ بینکوں کے تعاون کے بغیر 80 فیصد سبسیڈی کے ساتھ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے لون جاری کرنے کا وعدہ کیا گیا اس پر بھی کوئی عمل آوری نہیں کی گئی۔ چنچل گوڑہ جیل اور ریس کورس کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا گیا اس پر بھی کوئی عمل آوری نہیں ہوئی۔ تلنگانہ کے ہر اسمبلی حلقہ میں ایک پالی ٹیکنک کالج ہر ضلع میں ایک سوپر اسپیشالیٹی ہاسپٹل منڈل سطح پر 30 بستروں پر مشتمل ہاسپٹل قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا جو وعدے بن کر رہ گئے۔ ٹینک بینڈ کا پانی صاف کرنے اس کے اطراف و اکناف آسمان چھوتی بلند عمارتیں تعمیر کرنے، حیدرآباد کے اطراف سیٹلائیٹ ٹاؤن شپ تعمیر کرنے کے علاوہ ڈھیر سارے وعدے کئے گئے جس پر 4 سال میں کوئی عمل آوری نہیں ہوئی۔ گزشتہ تین سال سے طلبہ کی فیس ری ایمبرسمنٹ کے بقایا جات جاری نہیں کئے گئے۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کے جال کو محدود کردیا جس سے ہزاروں نشستیں گھٹ گئیں۔ اردو اکیڈیمی کی آج تک تشکیل عمل میں نہیں آئی۔ وقف بورڈ و کارپوریشن پر صدور کا انتخاب کیا گیا ہے انھیں کوئی آزادانہ فیصلے کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔

چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے صرف مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دیا بلکہ پہلا دھوکہ دلت سماج کو دیا ہے۔ دلت قائد کو چیف منسٹر بنانے کے وعدے سے انحراف کرلیا۔ خاندان کے کسی فرد کو کوئی عہدہ نہ دینے کا وعدہ کرنے والے کے سی آر نے اقتدار حاصل ہوتے ہی خاندان کے 5 افراد میں اہم عہدے تقسیم کردیئے۔ اُس سے قبل علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے پر ٹی آر ایس کو کانگریس میں ضم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے سونیا گاندھی کو دھوکہ دے چکے ہیں۔ تلنگانہ کی تشکیل میں جن لوگوں نے رکاوٹیں پیدا کی ہیں اُن میں نصف قائدین تلاگانہ کی کابینہ میں شامل ہیں۔ تلنگانہ تحریک کے ہیرو پروفیسر کودنڈا رام چیف منسٹر تلنگانہ کے لئے ویلن بنے ہوئے ہیں۔ تمام چیزوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کے سی آر کو تلنگانہ سے زیادہ اقتدار عزیز تھا۔ اس کے حصول کے لئے انھوں نے جماعت اسلامی ہو یا تحریک مسلم شبان، ائمہ ہوں یا موذنین، صحافی ہوں یا وکلائ، مسلم لیگ ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت سب کا استعمال کیا۔ اور ان سب کو اس بات کی طمانیت دی گئی کہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کے لئے سب پلان بنایا جائے گا۔ اوقافی جائیدادوں کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔ ہر شعبہ میں مسلمانوں کے لئے خصوصی اسکیمات متعارف کراتے ہوئے روزگار کے بڑے پیمانے پر مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ ہر گھر سے کم از کم ایک فرد کو ملازمت فراہم کی جائے گی۔ لیکن 4 سال کے دوران اگر حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت صرف کانوں کو خوش کرنے میں مصروف رہی۔ عملی اعتبار سے مسلمانوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اقلیتی اقامتی اسکولس کا قیام خوش آئند اقدام کہا جاسکتا ہے جس کے ذریعہ حکومت نے اقلیتوں کی تعلیم کو بہتر اور معیاری بنانے میں اہم پیشرفت کی ہے جو ناقابل ستائش ہے۔ لیکن اس بات کو بھی ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اقلیتی اقامتی اسکولس میں داخلہ حاصل کرنے والی اکثریت اُن طلبہ کی ہے جو اردو میڈیم سرکاری اسکولس میں زیرتعلیم ہیں اور اردو میڈیم اسکولس میں طلبہ کی اچانک تعداد گھٹ گئی ہے۔ جو تشویش کا باعث ہے۔ حکومت طلبہ کی کمی کا بہانہ کرتے ہوئے اردو میڈیم اسکولس کو بند کرسکتی ہے یا دوسرے اسکولس میں ضم کرسکتی ہے۔ شادی مبارک اسکیم بھی قابل ستائش ہے۔ کئی غریب لڑکیوں کے والدین کے لئے یہ اسکیم بہت بڑی راحت ثابت ہورہی ہے۔ لیکن چیکس کی تقسیم میں کافی تاخیر ہورہی ہے۔ اس پر توجہ دی جائے تو بہتر ہوگا۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ٹی آر ایس قیادت یا حکومت نے اپنی پارٹی میں قیادت کو اُبھارنے کے بجائے ہمیشہ دوسروں پر انحصار کیا ہے۔ اقلیتوں کی فلاح و بہبود سے متعلق جائزہ اجلاس میں ٹی آر ایس کے منتخب عوامی نمائندوں کو مدعو کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ان کی رائے حاصل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ٹی آر ایس کے اقلیتی بالخصوص مسلم قائدین میں بھی یہ کمزوری دیکھی گئی کہ انھوں نے قوم کے مسائل کو پارٹی قیادت اور چیف منسٹر کے سامنے پیش کرنے کے لئے کبھی جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ٹی آر ایس کے مسلم قائدین میں تال میل اور رابطہ کا فقدان بھی دیکھا گیا ہے جو بہت بڑا المیہ ہے۔ پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ ٹی آر ایس کے دو مسلم قائدین نے عہدے نہ ملنے پر خودسوزی کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی ہے۔ اس پر بھی ٹی آر ایس کے مسلم قائدین کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ ٹی آر ایس کے مسلم قائدین چیف منسٹر اور دوسرے قائدین کو امام ضامن باندھنا فیشن بنالئے ہیں۔ چیف منسٹر کی تصویر کو دودھ سے دھونے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔ چند لوگوں کی کارستانی سے ساری قوم شرمسار ہورہی ہے اور اس کا وقار مجروح ہورہا ہے۔ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کے لئے بڑے پیمانے پر نوٹیفکیشن جاری کئے جارہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات مل جاتے تو صرف تحفظات میں 12 تا 15 ہزار جائیدادوں پر مسلمانوں کو فائدہ ہوجاتا۔ چیف منسٹر نے جنتر منتر پر دھرنا دینے اور مسئلہ کو سپریم کورٹ تک لیجانے کا اعلان کیا مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ تھرڈ فرنٹ و فیڈرل فرنٹ کی تشکیل میں مصروف ہوگئے۔ یہ کوشش بی جے پی کو مستحکم کرنے میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ سارے ملک میں اپوزیشن متحد ہورہی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج حوصلہ افزاء ہیں، عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔