مسلم تحفظات ، عملی اقدامات ندارد

محمد نعیم وجاہت

دونوں تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے بجٹ اجلاس عوام کے لئے مایوس کن رہے۔ تلنگانہ اسمبلی سے تلگودیشم کے ارکان کو سیشن کے اختتام تک معطل کردیا گیا، دوسری طرف وائی ایس آر کانگریس نے اسپیکر اسمبلی آندھرا پردیش کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی نوٹس پیش کرتے ہوئے اس نوٹس پر مباحث طلب کرنے تک اسمبلی سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے، جب کہ اسپیکر تلنگانہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لئے تلگودیشم مشاورت کر رہی ہے۔ تقسیم ریاست کے بعد تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے پہلے مکمل بجٹ سیشن کے اجلاس ایک ساتھ ایک ہی احاطہ میں منعقد ہو رہے ہیں۔ تلنگانہ اسمبلی میں گورنر کے خطبہ کے دوران تلگودیشم اور کانگریس ارکان کی گڑبڑ اور قومی ترانہ پڑھتے وقت احتجاج پر تلگودیشم ارکان کو اسمبلی سیشن کے اختتام تک معطل کردیا گیا، جب کہ کانگریس کے ایک رکن کو معذرت خواہی کے بعد معاف کردیا گیا۔ اپنی معطلی کے خلاف تلنگانہ تلگودیشم کے ارکان اسمبلی نے گورنر نرسمہن اور صدر جمہوریہ پرنب مکرجی سے شکایت کی اور اسپیکر اسمبلی مدھو سدن چاری کے خلاف 23 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے اسپیکر اسمبلی سے تلگودیشم ارکان کی معطلی برخاست کرنے کی اپیل کی ہے۔

آندھرا پردیش اسمبلی کی صورت حال دگرگوں ہے، حکمراں تلگودیشم اور اصل اپوزیشن وائی ایس آر کانگریس کے ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف تلخ کلامی کی، بلکہ غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال بھی کیا۔ وائی ایس آر کانگریس کے ارکان نے اسپیکر کے خلاف نعرے لگائے، جس کی وجہ سے 8 ارکان کو 23 مارچ تک کے لئے معطل کردیا گیا۔ قائد اپوزیشن جگن موہن ریڈی نے ارکان کی معطلی اور انھیں ایوان میں بات نہ کرنے دینے پر اسمبلی سے واک آؤٹ کیا اور اپنی پارٹی کے ارکان کے ہمراہ راج بھون پہنچ کر گورنر سے اسپیکر اسمبلی کی شکایت کی۔ انھوں نے اسپیکر اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے تحریک پر مباحث طلب کرنے تک اسمبلی میں قدم نہ رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
دونوں اسمبلیوں کی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو آندھرا پردیش کی بہ نسبت تلنگانہ اسمبلی کے اجلاس کو پُرسکون اور تشفی بخش قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اسپیکر اسمبلی تلنگانہ نے فلور لیڈرس کا اجلاس طلب کرکے دو معاملات کا خوشگوار حل نکالا۔ قومی ترانہ کے مسئلہ پر کانگریس رکن اسمبلی نے معذرت خواہی کرلی، جب کہ معذرت خواہی سے انکار پر تلگودیشم کے ارکان کو سیشن کے اختتام تک معطل کردیا گیا۔ اسی طرح جب کانگریس رکن اسمبلی ڈی کے ارونا اور ریاستی وزیر پنچایت راج کے ٹی آر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تو چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی مداخلت پر دونوں ارکان نے ایک دوسرے سے معذرت خواہی کرتے ہوئے مسئلہ کو رفع دفع کرلیا۔

آندھرا پردیش میں حکمراں جماعت تلگودیشم ہے اور اپوزیشن وائی ایس آر کانگریس ہے۔ وہاں بی جے پی بھی ہے، مگر وہ حکومت میں شامل ہے۔ اس ریاست میں ٹی ڈی پی اور وائی ایس آر سی پی میں وقار کی جنگ چل رہی ہے۔ چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو اور قائد اپوزیشن جگن موہن ریڈی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ عوامی مسائل پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے۔ اپوزیشن جماعت عوامی مسائل پر جب بھی حکومت کو گھیرنے کی کوشش کرتی ہے تو حکمراں جماعت سابق چیف منسٹر ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے کارناموں، جگن کے غیر محسوب اثاثہ جات اور جگن کی محروسی کو موضوع بحث بناکر اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے، جس کی وجہ سے عوامی مسائل پر بحث نہیں ہو رہی ہے۔ اسمبلی میں جنگ جیسا ماحول دیکھ کر عوام مایوسی کا شکار ہیں۔
عوام اپنے مسائل کی یکسوئی کے لئے بڑی امیدوں سے اپنے پسند کے قائدین کو اسمبلی روانہ کرتے ہیں، تاکہ وہ ان کے مسائل کو حل کرسکیں، مگر منتخب عوامی نمائندوں کی کار کردگی مایوس کن ہے۔ اسمبلی کو ذاتی و سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے پلیٹ فارم کے طورپر استعمال کیا جا رہا ہے، تنقید اور جوابی تنقید پر اسمبلی کا قیمتی وقت اور عوامی فنڈس کا ضیاع ہو رہا ہے۔ اس طرح تلنگانہ اسمبلی کی کار کردگی آندھرا پردیش کی بہ نسبت بہتر کہی جا سکتی ہے، جہاں اپوزیشن جماعتوں کو عوامی مسائل اور تجاویز پیش کرنے کی اجازت ہے اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ان کا خیرمقدم بھی کر رہے ہیں۔

چیف منسٹر تلنگانہ نے اقلیتوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے سال برائے 2015-16ء کے لئے 1105 کروڑ روپئے کا اقلیتی بجٹ منظور کیا، جو گزشتہ کے مقابل 71 کروڑ زیادہ اور قابل ستائش ہے، تاہم سال 2014-15ء کے لئے منظورہ بجٹ 1030 کروڑ روپئے میں سے صرف 438 کروڑ روپئے جاری کئے گئے، جب کہ ماباقی رقم حکومت کے خزانے میں واپس چلی گئی۔ صرف بجٹ کے ہندسوں میں اضافہ کافی نہیں ہے، کیونکہ منظورہ بجٹ کی مکمل اجرائی سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی زندگی میں سدھار آسکتا ہے۔ اسی طرح ایس سی، ایس ٹی، بی سی اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے 6907 کروڑ روپئے منظور کئے گئے، مگر صرف 3774 کروڑ روپئے جاری کئے گئے، تاہم ایس سی، ایس ٹی طبقات کے لئے سب پلان ہونے کی وجہ سے ان کا بجٹ محفوظ ہے۔ اس طرح کا سب پلان اقلیتوں کے لئے بھی تیار کرنے ضرورت ہے، تاکہ اقلیتوں کے لئے مختص بجٹ کا پورا پورا استعمال ہوسکے۔ ٹی آر ایس حکومت نے اقلیتی بجٹ میں فیس باز ادائیگی کے لئے 425 کروڑ اور اسکالر شپس کے لئے 100 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ علاوہ ازیں شادی مبارک اسکیم کے لئے 100 کروڑ، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے بطور قرض 25 کروڑ، ہاسٹلس اور اقامتی اسکولوں کی تعمیر کے لئے 71 کروڑ، اقلیتی اقامتی اسکولس (اناث) کے لئے 20 کروڑ، سبسیڈی کی فراہمی کے لئے 95 کروڑ، وقف بورڈ کے لئے 53 کروڑ، اردو اکیڈمی کے لئے 12 کروڑ، تلنگانہ اسٹڈی سرکل کے قیام کے لئے 6 کروڑ، سی سی ڈی ایم کے لئے 3 کروڑ، حج کمیٹی کے لئے 2 کروڑ، دائرۃ المعارف کے لئے 2 کروڑ، مرکزی اسکیمات کے لئے 105 کروڑ اور اقلیتی کمیشن کے لئے 70 لاکھ روپئے منظور کئے گئے ہیں۔ بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو قرض کی فراہمی مستحسن اقدام ہے، تاہم بیروزگار نوجوانوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ اسی طرح اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے راست قرض دینے کی کوئی اسکیم نہیں رکھی گئی اور نہ ہی اس کے لئے کوئی منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔

حکومت نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعد کیا ہے، مگر اب تک عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ اگر حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے تو دو بیڈ روم والے مکانات کی اسکیم میں بھی مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں۔ ایس سی، ایس ٹی طبقات کو تین ایکڑ اراضی فراہم کی جا رہی ہے، اس اسکیم میں بھی مسلمانوں کو شامل کیا جائے۔ آسرا اسکیم میں بھی مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں، یعنی حکومت کی تمام ترقیاتی و فلاحی اسکیموں میں مسلمانوں کو حصہ دار بناکر ان کی ترقی کو ممکن بنایا جائے۔

اسمبلی میں چیف منسٹر نے پہاڑی شریف میں عالمی طرز کا حج ہاؤس بنانے کا اعلان کیا ہے، جس کے لئے کانگریس حکومت 3 کروڑ روپئے پہلے ہی جاری کرچکی ہے، لیکن یہ رقم کہاں گئی؟ ٹی آر ایس حکومت کو اس کا پتہ لگانا چاہئے۔ سرکاری اردو میڈیم اسکولوں اور کالجوں میں کئی جائدادیں مخلوعہ ہیں، جب کہ کئی منظورہ جائدادوں پر دیگر میڈیم کے اساتذہ کا تقرر کیا گیا ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ چیف منسٹر نے 3000 اُردو ٹیچرس کے تقررات کا اعلان کیا ہے، جس پر جلد از جلد عمل آوری ضروری ہے۔ اردو کو برائے نام دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہ دیا جائے، بلکہ اس پر عمل آوری بھی ہونی چاہئے۔ اسی طرح طب یونانی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ سابقہ حکومت کی عدم توجہی کے باعث طب یونانی نازک دور سے گزر رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے خاطر خواہ بجٹ نہ فراہم کرنے کے سبب نئے ریسرچ پروگرامس ختم ہوچکے ہیں، ادویات کی قلت ہے، لہذا اس جانب چیف منسٹر تلنگانہ کو خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ہر ضلع میں کم از کم 30 بستروں پر مشتمل ایک یونانی ہاسپٹل قائم کیا جائے، ڈاکٹرس اور دیگر عملہ کی مخلوعہ جائدادوں پر تقررات کئے جائیں۔ کانگریس دور حکومت میں نارائن گوڑہ میں 120 بستروں پر مشتمل ہاسپٹل کے قیام کے لئے عمارت کی تعمیر شروع کی گئی، لیکن اب تک اس کی تعمیر اَدھوری ہے۔ اگر حکومت مذکورہ مسائل پر توجہ مرکوز کرتی ہے تو اقلیتوں میں ٹی آر ایس حکومت کا اعتماد بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔