مسلم ، دلت اتحاد ، مودی کی راہ میں رکاوٹ

ظفر آغا
آخر کون روک سکتا ہے نریندر مودی کا رتھ ؟ یہ وہ سوال ہے جو سیاسی گلیاروں میں ان دنوں گونج رہا ہے ۔ اس کا جواب بھی اکثر میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سنائی پڑتا ہے ۔ پچھلے دو ہفتوں سے تو اکثر یہ سننے میں آرہا ہے کہ مودی کے رتھ کو آپ پارٹی کے صدر اروند کیجریوال نے لگام لگادی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اروند کیجریوال نے گجرات کا دورہ کرکے جس طرح مودی کو سیدھا چیلنج کیا ویسا اب تک کسی سیاسی شخصیت یا لیڈر کی مودی کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں پڑی ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اروند کیجریوال نے مودی کے گجرات ماڈل پر جو سوالات کھڑے کئے ہیں وہ کوئی اور نہیں کرسکا ۔ یہ بھی سچ ہے کہ کیجریوال نے مودی اور ہندوستانی سرمایہ داروں کے درمیان چل رہی ملی بھگت کے تعلق سے جو الزام لگایا ہے اسکا جواب مودی یا بی جے پی نے ابھی تک نہیں دیا ۔ لب لباب یہ کہ پچھلے دو ہفتوں میں کیجریوال نے مودی رتھ پر لگام لگانے کی کچھ کوشش کی ہے ،لیکن کیا مودی رتھ کو واقعی کیجریوال روک پائیں گے ؟ یہ سوال اپنے میں نہ صرف قابل بحث ہے بلکہ صحیح جواب کا بھی متقاضی ہے ۔

راقم الحروف کی ادنی رائے میں نہ کیجریوال اپنی ذات سے اور نہ ہی دوسری کوئی سیاسی جماعت فی الحال مودی رتھ کو روکنے میں کارگر ہوسکتی ہے ۔ کیونکہ نہ صرف سنگھ پریوار اور ملک کے سب سے بڑے سرمایہ داروں نے مودی کو ملک کا وزیراعظم بنانے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے ۔ آزاد ہندوستان کے کسی بھی چناؤ میں اس طرح کھل کر میڈیا ، سنگھ اور سرمایہ داروں نے کسی کی حمایت نہیں کی تھی جیسے کہ وہ اس بار لوک سبھا چناؤ کے لئے مودی کی حمایت کررہے ہیں ۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ مودی کو کسی بھی طرح سے ملک کا اگلا وزیراعظم بننے سے نہیں روکا جاسکتا ہے ۔ یقیناً روکا جاسکتا ہے اور دو قوتیں ایسی ہیں جو سنگھ اور سرمایہ داروں کی پوری قوت کو ناکام بنا کر مودی کو روک سکتی ہیں ۔ آخر وہ دو قوتیں کون ہیں جو مودی رتھ کو روک سکتی ہیں ؟ ۔ وہ دو قوتیں ہیں ہندوستانی مسلمان اور پسماندہ دلت ذاتیں ۔ تب ہی تو مودی کیا پورا سنگھ پریوار اور ملک کے سرمایہ دار سب مسلمانوں اور پسماندہ دلت ذاتوں سے خائف ہیں ۔

پورے ملک میں 100 لوک سبھا سیٹیں ایسی ہیں ، جن پر محض مسلم حمایت کے بغیر کوئی سیاسی جماعت چناؤ نہیں جیت سکتی ہے ۔ پھر دلت اور پسماندہ ذاتوں کو ملا کر دو ڈھائی سیٹیں ایسی ہیں جہاں انکی حمایت کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ چناؤ سے قبل نریندر مودی کے حامی مسلمانوں ، دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کے ووٹ بینک میں انتشار پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔ اسکا سبب یہ ہے کہ وہ خواہ مسلمان ہوں یا پھر دلت و پسماندہ ذاتیں یہ دونوں ہی 1990 کی دہائی سے منڈل کمیشن سفارشات لاگوہونے کے بعد سے عموماً متحدہ ووٹنگ کرتے ہیں ، اس ووٹنگ کے سبب ہی ہندوستان پر سنگھ کا باقاعدہ قبضہ نہیں ہوسکا ہے ۔ اسی لئے اس بار ہر وہ ممکن کوشش ہورہی ہے جس کے ذریعہ مسلمان ، دلت و پسماندہ ذاتیں منقسم ہوجائیں اور ان کا ایک حصہ یا تو بی جے پی کو ووٹ ڈالے یا پھر انکا ووٹ متحد نہ رہ کر اس طرح بنٹ جائے کہ بی جے پی کو چناؤ میں فائدہ ہوجائے ۔

اب سوال یہ ہے کہ مسلمان ، دلت و پسماندہ ذاتوں کو بانٹنے کے لئے کیا کیا کوششیں ہورہی ہیں ۔ پسماندہ ذاتوں کے درمیان تو یہ پروپگنڈہ ہورہا ہے کہ مودی خود پسماندہ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ مودی کو ووٹ دے کر ملک میں ایک مضبوط ہندو پسماندہ ذات کا وزیراعظم بنائیں ۔ کچھ خبروں کے مطابق پسماندہ ذاتوں میں یہ پروپگنڈہ کام بھی کررہا ہے ۔ اب بچے مسلمان اور دلت تو ظاہر ہے کہ انکے لئے بھی کوئی نہ کوئی حکمت عملی تو ہوگی ہی ۔ مسلمانوں کا جہاں تک تعلق ہے تو ان کو جھانسے میں لینے کے لئے عموماً جذباتی ہتھکنڈے ہی استعمال ہوتے ہیں ۔

مثلاً ان دنوں مسلمانوں میں ایک بات بہت شدت سے گشت کررہی ہے وہ یہ ہے : بھائی کیجریوال نے مودی کو جس طرح للکارا ہے ویسے کسی اور نے مودی کو نہیں للکارا ! یقیناً یہ سچ ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا محض مودی کو للکارنے سے کیا آپ پارٹی مودی کو ہرا بھی پائے گی ۔ کیونکہ اگر مسلم ووٹ بنٹ جائے اور مودی جیت جائیں تو اروند کیجریوال کے مودی کو للکارنے کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ سچ پوچھئے تو راقم الحروف کو اروند کیجریوال کی نیت پر شک ہے ۔ آخر اروند کیجریوال کی پارٹی محض مسلم حلقوں پر ہی کیوں زور دے رہی ہے اور وہ بھی جہاں مسلم بڑی کثیر تعداد میں ہیں وہاں آپ مسلم نمائندے ہی کیوں کھڑے کررہی ہے ۔ مثلاً مرادآباد ، امروہہ ، رام پور ، گونڈا ، بہرائچ میں ان سیٹوں پر جہاں مسلم ووٹ کثیر تعداد میں ہیں وہاں آپ پارٹی نے مسلم نمائندے ہی کیوں کھڑے کئے ہیں ؟

پھر اروند کیجریوال جب ممبئی جیسے شہر میں روڈ شو کرتے ہیں تو وہ مسلم اکثریتی حلقوں میں کیوں جاتے ہیں ۔ اگر اروند کیجریوال کی مودی مخالفت صحیح ہے تو وہ ایسے ہندو نمائندے کیوں نہیں کھڑے کررہے ہیں جو مودی کا ووٹ کاٹ کر بی جے پی کو نقصان پہنچائیں ۔ ظاہر ہے کہ امروہہ ، مرادآباد ، رامپور جیسی سیٹوں پر آپ کا مسلم نمائندہ مسلم ووٹ میں انتشار پیدا کرکے بی جے پی کے لئے ہی کارگر ثابت ہوگا ! پھر آج تک اروند کیجریوال سنگھ کی ہندو راشٹرا پر کوئی بیان کیوں نہیں دیتے ہیں ۔ آخر بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانا چاہئے یا نہیں اس سلسلے میں کیجریوال صاحب کیوں خاموش ہیں ؟ محض مودی کو سرمایہ داروں کا ایجنٹ کہہ دینے سے اور پھر مسلم اکثریتی حلقوں میں مسلم نمائندے کھڑے کرنے سے تو مودی رتھ رک نہیں سکتا ۔ ایسے ہی جھاڑ کا نشان لے کر بالمکیوں کو مایاوتی سے الگ کرنے کی سازش نظر آتی ہے ۔

اس لئے اگر مودی رتھ کو روکنا ہے تو کسی بھی لیڈر یا مذہبی علماء کے جذباتی ہتھکنڈوں میں آئے بغیر سیکولر قوتوں کو متحد ہو کر اپنے ووٹ میں انتشار پیدا کئے بغیر اس کو ہی کامیاب بنانا چاہئے جو نمائندہ بی جے پی کو ہرانے میں کارگر ثابت ہو ۔