مسلمان ہونے کا حق ادا کیسے کریں

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں رمضان المبارک کے دوران غربت اور غریب بھی کیا چیز ہے اس کا مشاہدہ کرنے والے مسلمانوں نے دل کھول کر رضائے الہٰی کے لیے خیرات کا عملی اقدام کیا ۔ واقعی غربت انسان سے اس کی انسانیت چھین لیتی ہے ۔ غریب کی نہ کوئی عزت ہے نہ کسی کو اس کی پرواہ ہوتی ہے ۔ عام دنوں میں غریب کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ رمضان جیسے مقدس ماہ میں دکھائی نہیں دیتا ۔ اہل خیر حضرات اور صاحب استطاعت کی جانب سے زکواۃ ، صدقہ ، خیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد ہوتی ہے ۔ حیدرآباد میں ہی اس سال کروڑہا روپئے کی زکواۃ دی گئی ۔ غریبوں تک امداد پہونچانے والے ادارے ہر سال اپنے جذبہ انسانیت کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں ۔ غریبوں کی خوشیاں پورا کرتے ہوئے خدمت خلق کے جذبے سے سرشار حیدرآباد کے معروف ادارے ہر سال تلنگانہ کے اضلاع میں غریبی کا شکار یتیموں اور نادار افراد کے لئے خوشیوں کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔ رمضان المبارک سے جہاں غریبوں کو راحت ملتی ہے وہیں تجارت پیشہ افراد کو بھی منافع خوری کے ذریعہ عوام کی جیب ہلکی کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ ایک طرف مسلمان ماہ رمضان کی رحمتیں اور برکتوں سے استفادہ کرتے ہیں تو دوسری طرف سرکاری محکموں بلکہ حکومت کی نا اہلی و ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے مسلمانوں کو رمضان کے فرائض کی ادائیگی میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد سے ریاست میں حکومت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بناسکی اور ان ذخیرہ اندوزوں کو آج تک لگام نہیں لگائی جاسکی ۔ اس ریاست کے عوام کی یہ بدنصیبی ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والی حکومتیں ہی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ حکومت کی توجہ صرف اپنی سیاسی مفاد پرستی پر رہتی ہے ۔ ہر دفعہ رمضان میں منافع خور گروہ سرگرم ہوجاتا ہے جو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہوئے منافع کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ شہر حیدرآباد میں رمضان کے موقع پر ہی اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں غریب افراد مسلمانوں کی زکواۃ ، صدقات ، خیرات حاصل کرنے پہونچتے ہیں ۔ اب ان غریبوں میں مانیمار کے مسلمان بھی نظر آرہے ہیں ۔ جو پناہ گزینوں کے طور پر شہر کے علاقوں میں مقیم ہیں ۔ شہر میں کشمیری باشندے بھی رمضان کی برکتوں اور رحمتوں سے مایوس نہیں ہوتے کیوں کہ مقامی مسلمانوں کی فراخدلی اور بندہ پروری قابل فخر بنتی جارہی ہے ۔ غریب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس لیے انسانیت کو ہی تمام مذاہب کی ماں سمجھا جاتا ہے ۔ کیوں کہ تمام مذاہب میں انسانیت ہی ایک واحد و منفرد جز ہے جو اپنے ماننے والوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ انسانوں کے حقوق کی نگہداشت اور ان کی جان و مال و عزت کی پاسداری کرنا اس کا کائنات کے ہر انسان کا اولین اور بنیادی فریضہ ہے ۔

لیکن بعض ممالک اور بعض شہروں میں انسانیت کی آزادی اور حقوق کی پامالی کا دور دورہ ہے ۔ ساری دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم زیادتیوں پر مسلم ممالک اس مسئلہ پر اندھے گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت کے لیے دولت مند مسلمان ، حکمراں مسلمان اور عالم اسلام کے شاہ و شہزادے کہلانے والے افراد ذمہ دار ہیں ۔ مسلمانوں کی اجتماعی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا ۔ صرف ذاتی تسکین کے لیے فلاحی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ۔ آج مسلم کردار پر اٹھنے والی انگلیوں کے درمیان یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ آیا انسانی زندگی کے تمام معاشرتی معاملات کیسے ہونے چاہئے ۔ شہر حیدرآباد یا ریاست تلنگانہ کے مسلمانوں نے ماہ رمضان میں بلاشبہ اپنے دینی معاملات اور کردار کے دائرہ کو بہت وسیع کیا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ زکواۃ صدقات کی مد میں دی جانے والی رقم انفرادی طور پر صرف چند ایک کو وقتی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہے ۔ اس سے مسلمانوں کی اجتماعی بہبود یا مستقل استحکام ، کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی شرح خواندگی افسوسناک حد تک کم ہے ۔ وہاں تعلیم کی بہتری کے لیے اجتماعی کوششوں کا فقدان ہے چند مسلمانوں نے تعلیم کے لیے کام کیا ہے ۔ اس سے صرف محدود حد تک ہی فائدہ ہورہا ہے ۔

اجتماعی طور پر مسلمانوں کا تعلیمی و معاشرتی دائرہ تنگ ہے ۔ حکومت سے تحفظات طلب کرنے میں ناکام مسلمان اپنے مستقبل کو صرف حکومت کی اسکیمات کی آس کے دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے رہیں گے تو ان کی کوئی فلاح نہیں ہوسکے گی ۔ مسلمانوں میں اگر غور و فکر پیدا ہوجائے تو سالانہ صرف ماہ مقدس کے موقع پر خرچ کیے جانے والے روپیہ زکواۃ ، صدقات ، خیرات اور دیگر حوالوں سے ہونے والے مصارف کو ایک مرکزیت دی جائے تو اس کے ذریعہ مسلمانوں کے مستقبل کے لیے بہترین صنعتی ، تجاتی اور تعلیمی اداروں کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔ موجودہ متمول مسلمانوں نے باہمی اجتماعی طور پر رابطہ کاری کے ذریعہ روپیہ جمع کر کے اس سے صنعتوں کے قیام اور سائنس و ٹکنالوجی کے حصول کے ادارے قائم کرنے پر توجہ دیں تو اس سے مسلمانوں کے نوجوانوں کو دنیا کی عصری ٹکنالوجی سے آراستہ کرنے اور ان کے لیے ایک طاقتور مرکز بنانے میں مدد ملے گی ۔ ماضی کے مسلم حکمرانوں نے بلا شبہ بلند عمارتیں کھڑی کی جو آج تاریخی اثاثہ بن کر تنازعہ کا شکار ہوئیں۔ تاج محل ، قطب مینار ، چارمینار ، جیسی عمارتیں مسلم حکمرانوں کی یاد دلاتی ضرور ہیں لیکن آج ان پر فرقہ پرستوں کی چھاپ پڑ رہی ہے ۔ اگر اس دور میں ہی مسلم حکمرانوں نے صنعت و تجارت کو فروغ دینے مسلمانوں کے اندر تحریک پیدا کی ہوتی تو آج کے مسلمانوں کی صورتحال مختلف ہوتی ۔ ماضی کے مسلم حکمرانوں کا مسئلہ تو گذر چکا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ موجودہ مسلم حکمرانوں نے بھی یہی عمل جاری رکھا ہے ۔ برج خلیفہ کے نام پر روپیہ بہایا گیا تو نئے شہر بنانے کے لیے ریال بہایا جارہا ہے ۔ کسی بھی مسلم ملک میں صنعتی ، سائنسی و خلائی ٹکنالوجی کے ادارے قائم کرکے ان میں مسلم طلباء کی تربیت و علم پر توجہ نہیں دی گئی آگے چل کر یہ بلند عمارتیں ڈھیر ہوجائیں گی اور مسلمانوں کا مستقبل بھی زمین بوس ہوجائے گا ۔ اگر ان بلند عمارتوں کے بجائے اگر مسلمانوں کے کردار ، فن ، صلاحیتوں اور سائنس و خلائی ٹکنالوجی ہتھیار سازی فلاح و بہبود کے فنی امور میں بلند کردیا جائے تو رہتی دنیا تک مسلمانوں پر کوئی آنچ آنے کا سوال کم پیدا ہوگا ۔ شروعات کر کے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں اس کی شروعات چھوٹے طریقہ سے ہی ہوسکتی ہے ۔ شہر حیدرآباد میں فکر مند مسلمانوں اور صاحب سوچ شخصیتوں ، وسعت پذیر اور وسائل کے حامل اداروں کی کوئی کمی نہیں لیکن ہر ادارہ اور شخصیت اپنے اپنے انا کے دائرے میں محدود ہے ۔

جب زکواۃ صدقات کے بہانے اپنے نام و نہاد کی فکر رکھنے والے لوگ ہوں تو اجتماعی طور پر قوم کی ترقی ممکن نہیں ۔ شہر کے ایک بزرگ سیاستداں کے اہل خانہ نے غریبوں میں خیرات تقسیم کرنے کے لیے بھی چاول کے تھیلے پر والد بزرگ گوار کی تصویر شائع کر کے تشہیر کا مظاہرہ کیا تو اس سے جذبہ خیرات صدقہ کا مفہوم ہی فوت ہوجاتا ہے ۔ جب ایسے کردار مسلمانوں کے درمیان ہوں تو اجتماعی فلاح و بہبود کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا ۔ لوگ خواب دیکھتے ہیں اور پھر اس کی تکمیل کے لیے دوسروں سے آس باندھتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ کچھ بھی نہیں کرپاتے ۔ زندگی کے مسائل بڑے لگتے ہیں مگر بڑی ترقی بڑے مسائل کے بغیر نہیں ملا کرتی ۔ مسلمانوں میں خیر کا جذبہ بہت ہے مگر اس خیر کے جذبہ کو ریزہ ریزہ ہونے سے بچا کر اجتماعی قوت دی جائے تو ایک مستحکم طاقت وجود میں آئے گی ۔ خیر کی روشنی مسلمانوں کے ہر فرد تک پہونچانے کے دو ہی راستے ہیں یا تو سورج بن کر چمکیں یا پھر چاند کی طرح سورج کی روشنی دوسروں تک پہونچائیں ۔