مسلمان ماں ، بیٹا اور بہو

محمدمصطفے علی سروری
عبدالرزاق ہائی ٹیک سٹی میں واقع اپنے آفس پر نائیٹ ڈیوٹی انجام دے رہا تھا ۔ رزاق پروفیشن سے ایک سافٹ ویر انجنیئر ہے ، رات گیارہ بجے رزاق کو بیوی کا فون آتا ہے ، رزاق نے سوچا کہ سونے سے پہلے بیوی بات کرنا چاہتی ہے لیکن بیوی نے بتلایا کہ ابا آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ رزاق کو تعجب ہوا کہ رات گیارہ بجے سسرے صاحب اس سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں ۔ خیر جب بات ہوئی تو پتہ چلا کہ رزاق کے سسرے صاحب اگلے دن رزاق کے والد صاحب سے مل کر بات کرنا چاہتے ہیں۔
رزاق کی شادی کوایک سال سے زائد عرصہ ہوگیا تھا ، اس دوران اللہ رب العزت نے رزاق کو ایک لڑکے کی نعمت سے بھی نوازا تھا اور رزاق کی بیوی فی الحال ڈیلیوری کے بعد اپنے مائیکے میں ہی تھی ۔ رزاق نے اگلے کچھ دنوں میں بیوی بچے کو اپنے گھر واپس لانے کا پروگرام بنا رکھا تھا اور بیوی کو بھی بتلا دیا تھا ، قارئین یہ رزاق کون ہے تو جان لیجئے کہ رزاق کا اصل نام ہم نے تبدیل کردیا ہے ۔ مگر رزاق کی زندگی کے اس واقعہ کو بیان کرنے کا اہم مقصد مسلمانوں کو ایک اہم سماجی مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے ۔ خیر سے رزاق نے جے این ٹی یو سے انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی اور کیمپس پلسمنٹ کے دوران ہی اس کو نوکری مل گئی تھی ، رزاق چونکہ اپنے ماں باپ کا لاڈلا تھا ، اس لئے ایک دن اس کے ماں باپ نے اس سے پوچھ بھی لیا کہ بیٹا ہم تمہاری شادی طئے کرنے جارہے ہیں ، اگر تمہاری کوئی پسند ہو تو بتلا دو جواب میں رزاق نے منع کردیا اور بتلا دیا کہ وہ اپنی پسند سے یا اپنے ساتھ پڑھی کسی بھی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا ہے ۔ اس کی پہلی ترجیح دینداری ہوگی ، اس کی بیوی چاہے کوئی ڈگری نہ رکھتی ہو لیکن دین سے واقفیت ضروری ہے ۔ آخر کار رزاق کے ماں باپ نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک اچھے گھرانے میں شادی کردی۔ جن صاحب نے رشتہ لگایا تھا ان کے مطابق ایسا دیندار اور شریعت کا پاس دار گھر میں نے تو نہیں دیکھا لڑکیاں عصری تعلیم بھی جانتی ہیں اور دین پر بھی چلتی ہیں۔ رزاق کے گھر میں والد این آر آئی تھے ، اب وطن میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے، تین بیٹیاں شادی کے بعدا پنے گھروں کی تھی ایک بیٹا شادی کے بعد بیوی کے ساتھ الگ رہتا تھا اور رزاق یہی دیکھ کر کہتا تھا کہ ایک بہو ہے مگر وہ ساس سسر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہے ، رزاق کے بڑے بھائی نے اپنی پسند سے اپنے کالج کی لڑکی سے شادی کی تھی اور ان کی بھاوج بڑی ماڈرن تھی ، ان حالات کو دیکھ کر رزاق نے ضروری سمجھا تھا کہ اگر اس کی بیوی دیندار رہے گی تو ساس سسرے کے ساتھ رہنے میں اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا مگر کیا ہوا ؟ اگلے دن جب رزاق کے سسرے صاحب اس کے گھر آئے تو ان کے ساتھ ماموں سسرے بھی تھے ، ان لوگوں نے واضح کردیا کہ رزاق کی بیوی اب رزاق کے ساتھ الگ گھر میں رہے گی اور رزاق الگ گھر لیکر ہی اپنی بیوی کو مائیکے سے لیجا سکتا ہے ۔ رزاق کے سسرے صاحب اور ان کے ماموں جو ایک دینی تنظیم سے جڑے تھے ، واضح کردیا کہ دین اسلام کی روشنی میں ساس سسرے کی خدمت کرنا یا ان کے ساتھ رہنا نہ تو بہو کی ذمہ داری ہے اور نہ فرض ہے۔ رزاق کو اپنے سسرے اور ماموں سسرے پر تو بڑا غصہ آرہا تھا لیکن اس سے زیادہ شکایت اپنی بیوی سے تھی اس نے اس شرط کے متعلق بتلایا ہی نہیں کہ وہ الگ ہونا چاہتی ہے ، رزاق نے بھی کہہ دیا کہ اگر اس کی بیوی کو اس کے ساتھ رہنا ہے تو ساس سسرے کے ساتھ ہی رہنا ہوگا ۔ دونوں گھروں کے بڑوں کے درمیان بات چیت چلتی رہی اور زاق کی بیوی نے بھی واضح کردیا کہ اس کا الگ گھر میں شوہر کے ساتھ رہنے کا مطالبہ شریعت کی روشنی میں بالکل درست ہے ۔ اب وہ ایک بچے کی ماں ہے اور ساس سسرے کی خدمت نہیں کرسکتی ۔ جب رزاق نے بھی کہہ دیا کہ وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو ساس سسرے بھی ساتھ ہی رہیںگے ۔ تین مہینے گزر گئے ، رزاق کی بیوی نے ایک اسکول میں پڑھانا شروع کردیا اور رزاق کو کہتی ہے کہ میں اپنا اور بچے کا خرچہ خود اٹھا رہی ہوں اور تم جو میری ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہو اس کے متعلق خدائے تعالیٰ روز محشر تم سے پوچھے گا ضرور ؟ رزاق یہ سوچ کر پریشان ہے کہ وہ اپنے بچے سے دور ہے مگر وہ اپنے ماں باپ کو بھی چھوڑنے تیار نہیں ہے۔ وہ اس بات کو لیکر پریشان ہے کہ اگر بڑی بھاوج کی طرح اس کی بیوی بھی ساس سسرے کے ساتھ نہیں رہے گی تو اس کے والدین اکیلے کیسے رہیں گے اور سب سے بڑا تعجب تو رزاق کو یہ سن کر ہورہا ہے جس شریعت مطہرہ کی روشنی میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ ساس سسرے کی خدمت بہو پر فرض نہیں ہے اسی اسلام نے بزرگوں، ضرورت مندوں ، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی مدد کرنے کی بھی ترغیب دلائی ہے۔
ہر ساس سسر کو ظالم اور خراب تو نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ اگر ساس سسر کی خدمت کرتے ہوئے لڑکیاں اپنی زندگی کو سنوار سکتی ہیں تو اور خدائے تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر عظیم پاسکتی ہیں تو لڑکیوں کو اس کام کی ترغیب دلائی جانی چاہئے اوران کو تربیت دی جانی چاہئے ۔ ایسی ہی تربیت تو غیر لوگ بھی کر رہے اور اپنی زندگیوں کو بظاہر خوشحال بھی بنارہے ہیں، ایسی ہی ایک مثال بی بی سی ورلڈ سرویس کی ایک رپورٹ سے ملتی ہے ۔

Rocket women: How to cook curry and get a space craft in to mars اس سرخی کے تحت 2 ستمبر 2018 ء کو گیتا پانڈے نے لکھا ہندوستان نے مریخ پر اپنا راکٹ چار سال پہلے بھیجا تھا تب اسرو (ISRO) کے اس مشن کی سربراہی ایک خاتون سائنس داں بی پی دکشانی کر رہی تھی ۔ ذرا اندازہ لگائے کہ انڈیا کے اتنے بڑے سائنسی تحقیقاتی ادارے سے وابستہ اتنی بڑی خاتون عہدیدار کے پاس کیا کچھ نہیں ہوگا ، عہدہ، رتبہ ، مال و دولت نوکر چاکر گاڑی بنگلہ مگر آج بھی بی پی دکشیانی بڑی سادہ اور سیدھی زندگی گزار رہی ہیں اور اپنے گھر کا سارا کام کاج خود کرتی ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹر گیتا پانڈے جب اس سائنس داں کے گھر جاتی ہیں تو بنگلور میں یہ سائنس داں خاتون خود اپنے طور پر چائے اور اسناکس بناکر کھلاتی ہیں، ہندوستان کی راکٹ خاتون کے نام سے مشہور پی پی دکشیانی نے بتلایا کہ وہ اپنے گھر کے کام سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹتی ہیں۔ شادی کے بعد جب اس خاتون کو (ISRO) میں نوکری مل گئی تو وہ روزانہ صبح پانچ بجے بیدار ہوجاتی تھی اور سیدھے چولہے کے کاموں میں لگ جاتی تھی ۔ بی پی دکشیانی کی شادی ایک ڈاکٹر کے ساتھ ہوئی تھی اور سسرال میں شوہر کے علاوہ ساس سسر تو تھے ہی ان کے ساتھ اور بھی لوگ تھے جن کی جملہ تعداد سات تا آٹھ افراد پر مشتمل تھی ۔ اتنے بڑے سسرال کی کمائی پوت بہو بھی صبح اٹھ کر سب گھر والوں کے لئے کھانا پکاتی تھی اور بی پی دکشیانی نے اپنے انٹرویو میں اس بات کی بھی وضاحت کردی کہ کھانا پکانے میں گھر کے سب لوگوں کیلئے روٹیاں پکانا شامل تھا ۔ سب کو کھانا پکاکر اپنے دو بچوںکو اسکول کو بھیجنا اور خود تیار ہوکر آفس جانا ۔ 1984 ء سے اسرو میں کام کرنے والی خاتون سائنسداں نے اپنے والد کی تربیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھے ہمیشہ کوشش کرنے کی ترغیب دلائی تھی اور میں نے اپنی زندگی میں کبھی ہار ماننا نہیں سیکھا ۔ پھر چاہے گھر کا کام ہو یا آفس کا اور بطور خاتون مجھے گھر میں پکوان کی ذمہ داری تھی تو وہ میں اچھے طورپر نبھانے کی کوشش کرتی ہوں اور میرے دفتر کا کام تو سب کے سامنے ہے۔ ہماری ٹیم نے کامیابی کے ساتھ انڈیا کے راکٹ کو مریخ (Mars) تک پہونچادیا ۔ ایک سوال کے جواب میں بی پی دکشیانی نے بتلایا کہ میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو غور سے دیکھتی ہوں ، ان میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے دیکھتی ہوں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔ سائنس کے میدان میں ایک چھوٹے سے (Code) کو بدلنے سے قطعی نتیجہ بدل جاتا ہے ۔ ایسے ہی چولہے میں کام کرتے ہوئے پکوان کی ترکیب میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کرتے ہوئے میں ذائقہ کو بہترین بنانے کی کوشش کرتی ہوں۔

پی پی دکشیانی کسی اور دنیا سے تعلق نہیں رکھتی ہیں ، وہ کرناٹک کے علاقے بھدراوتی کی ہیں، اپنے علاقے اور خاندان میں انجنیئرنگ کرنے والی پہلی لڑکی پی پی دکشیانی کہتی ہیں کہ جب وہ انجنیئرنگ کر رہی تھی تو تب کمپیوٹر عام نہیں تھا اور بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا تھا ۔ اپنی تعلیم کے دوران اور پھر ملازمت کے وقت دکشیانی کو کمپیوٹر کے متعلق کتابیں پڑھنا رہتا تھا۔ تب بھی یہ خاتون اپنی روزانہ کی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرتی تھی ۔ گھر کا کام پورا کرنے کے بعد جب سب لوگ سوجاتے تھے ، تب دکشیانی کتابیں پڑھا کرتی تھی اور پھر دیر رات تک جاگ کر پڑھنے کا اثر اگلے دن کے ٹائم ٹیبل پر نہیں پڑنے دیتی تھی ۔ سخت محنت اور کام سے محبت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دکشیانی کے دونوں بچے پڑھ کر آج امریکہ میں ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹر نے جب اپنے شوہر کے متعلق بی پی دکشیانی سے پوچھا تو اس خاتون سائنس داں نے کسی طرح کا شکوہ اور شکایت نہیں کی ، یہ نہیں کہا کہ نوکری کر کے کمانے کے باوجود اس کو گھر کے کاموں سے اور پکوان سے چھٹی نہیں ملتی تھی اور نہ اس بات کا رونا رویا کہ سسرال میں بچے ہونے کے بعد بھی پورے گھر کے لوگوں کے لئے روٹیاں پکانی پڑتی تھی ۔ پی پی دکشیانی نے اپنے شوہر کے خلاف یہ بھی نہیں کہا کہ وہ ڈاکٹر ہونے کے باوجود گھر میں پکوان کیلئے نوکرانی نہیں رکھتی۔
راکٹ سائنس میںمہارت رکھنے والی اس خاتون سائنس داں کیلئے آج نوکر رکھنا کوئی بات یا مسئلہ نہیں لیکن اس خاتون کی سادگی اور اپنے کام خود کرنے کی عادت دیکھئے کہ بی بی سی کی رپورٹر جب اس کے گھر پر آتی ہیں تو خود ہی چائے اور اسناکس بناکر اس سے تواضع کرتی ہیں۔ قارئین اکرام میں اور کیا لکھوں ۔ میرے علم میں کیسے کیسے واقعات ہیں کہ ہماری لڑکیاں آج کل ساس سسر تو دور کی بات ہے ، اپنے ہی بچوں کیلئے صبح جلد اُٹھ کر ناشتہ اور ٹفن تیار کرنے تیار نہیں۔

کماتے تو ایک روپیہ بھی نہیں لیکن کام کرنے کیلئے دو دو نوکرانیاں چاہئے، ایک کا کام برتن دھونا تو دوسری نوکرانی پکوان کا کام کرے۔ آخر کو کس بات کا زعم ہے ، کیا ہے ان کے پاس بس کسی یونیورسٹی کی ڈگری اور ماں باپ کا بیجا لارڈ پیار جو ان کو کام کرنے کیلئے تیار نہیں کرتا ۔ جی ہاں شریعت اسلام میں ساس سسر کی خدمت بہو پر فرض نہیں لیکن میرا سوال ہے کہ کیا مذہب اسلام نے بہو کو یہ نہیں بتلایا کہ بڑے بزرگوں کی خدمت کرنے پر خدائے تعالیٰ انہیں سزا نہیں بلکہ بہترین جزا دے گا۔ آج مائیں ساس سسر تو دور خود اپنے ہی بچوں کے پکوان کیلئے چولہے میں جانے سے کترانے لگی ہیں۔ اگر ماں ہی اپنے ہاتھوں کے بنے کھانے اپنے بچوں کے لئے نہیں بناتی تو میں کس کو الزام دوں ؟ کیا یہ بھی یہودیوں اور اسلام دشمن عناصر کی سازش ہے ؟ میں کب تک خواب خرگوش کے مزے لیتا رہوں گا ۔ شکوے شکایت کے دربار سجانا میں کب بند کروں گا ۔ میرے اندر شکر گزاری کا جذبہ کب بیدار ہوگا۔ مجھے یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ کامیابی صرف پیسہ کمانے میں نہیں ، کامیابی بڑی بڑی سندیں حاصل کرنے کا بھی نام نہیں، کامیاب لوگ وہ نہیں جو بڑے بڑے عہدوں پرفائز ہوجاتے ہیں ؟ میری اولاد کی تربیت میری ذمہ داری ہے۔ مجھے اپنے بچوں کو اس بات کی تعلیم و تربیت دینی ہوگی ، وہ مذہب اسلام جس نے خدمت خلق کو عبادت کا درجہ دیا ہے ، کیا وہ اپنے بچوں کی بھلائی ، صحت ، تعلیم اور طعام کا انتظام کرنے پر ماؤں کو اجر عظیم نہیں عطا کرے گا ؟
وہ مذہب اسلام جس نے پڑوسیوں کے حقوق کو واضح کیا ہے ، کیا وہ ایک بہو کواپنے بوڑھے ساس سسر کی خدمت یا ان کو کھانا پکاکر کھلانے پر کسی طرح کا بدل نہیں دے گا؟
سوچئے گا اور طئے کرلیجئے گا ، اتنا ہی نہیں بلکہ پکا ارادہ کرلیجئے گا ، آپ ضرور بدل دیں گے ۔ کسی اور کو نہیں بلکہ اپنی سوچ کو اور یہ بات ذہن نشین رکھئے کہ کامیابی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہی چھپی ہے ۔ آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دنیا بھر میں سامان عبرت بننے سے بچالے اور ہمیں دونوں جہاں کی کامیابی و سرخری عطا فرما ۔ آمین یا رب العالمین ۔
sarwari829@yahoo.com