مسلمان لڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں اور لڑکے …

محمدمصطفے علی سروری
اتوار 12 اگست کی شام ہوتے ہوتے آندھراپردیش کے ضلع چتور سے یہ خبر عام ہوگئی ہے کہ وہاں کے سری وینکٹیشورا میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس سال دوم کی طالبہ 19 سالہ پی گیتکا نے پھانسی لیکر خودکشی کرلی ۔ اخبار انڈین اکسپریس نے 13 اگست 2018 ء کو خبر شائع کی کہ 12 اگست کو جب دوپہر میں کافی دیر تک گیتکا اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تو اس کی ماں نے دیکھا تو پتہ چلا کہ گیتکا نے اپنے کمرے میں چھت سے لٹک کر خودکشی کرلی ہے ۔ اخبار نے گیتکا کی خودکشی کے متعلق لکھا ہے کہ ایم بی بی ایس کی یہ 19 سالہ طالبہ نے ایک سال قبل اپنے ایک دوست کے ساتھ شادی کرلی تھی لیکن گیتکا کے والدین اس رشتے سے خوش نہیں تھے ، کچھ ہی دن قبل گیتکا کے والدین نے زبردستی اس کو شوہر کے گھر سے واپس لاکر اپنے گھر میں رکھا تھا ۔ اپنے انہی شخصی مسائل کے سبب گیتکا نے پھانسی لیکر خودکشی کرلی ۔ تعلیم کے میدان میں بدلتے ہوئے منظر نامہ کو آج کے کالم میں موضوع بناتے ہوئے قارئین میں آپ حضرات کی توجہ مسلم سماج میں ایک مسئلہ کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں۔
سمیہ خاتون (نام تبدیل) نے 17 برس کی عمر انٹرمیڈیٹ بی پی سی سے پاس کرلیا تھا ۔ اپنے والدین کی خواہش اور تھوڑی سہی مگر خود کی دلچسپی کے سبب سال 2012 ء میں ہی سمیہ نے ایمسٹ کا امتحان لکھا دراصل سمیہ ایم بی بی ایس کرنا چاہتی تھی لیکن پہلی مرتبہ اس کو ایمسٹ میں اچھا رینک نہیں آیا اور میڈیکل کورس میں اس کو داخلہ نہیں ملا۔ سمیہ کی ہمت بھی ٹوٹ گئی تھی لیکن گھر والوں نے دلاسہ دیا کہ اگلے برس لانگ ٹرم کوچنگ لیکر میڈیکل میں داخلہ کیلئے دوبارہ کوشش کرو سال 2012 ء سے لیکر 2018 ء تک سمیہ خاتون نے ہر سال میڈیکل میں داخلہ کیلئے انٹرنس لکھا ۔ حالانکہ اس لڑکی کو این سی سی زمرہ میں ریزرویشن بھی تھا لیکن چھ برسوں کے بعد بھی اس لڑکی کومیڈیکل میں داخلہ نہیں مل سکا۔ یہ ایک اکیلی لڑکی نہیں بلکہ ہر سال ایسے سینکڑوں ہزاروں طلباء ہیں جو میڈیکل کورس خاص کر ایم بی بی ایس میں داخلہ کیلئے انٹرنس کا امتحان لکھتے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ملتی اور ایم بی بی ایس میں داخلہ کی خواہش لئے یہ لوگ دو سے لیکر پانچ پانچ سال تک صرف اس انتظار میں گذار دیتے ہیںکہ اس مرتبہ نہیں تو اگلے برس ضرور انہیں اچھا رینک ملے گا اور ایم بی بی ایس میں داخلہ بھی۔
قارئین ایک اور تشویش ناک رجحان یہ ہے کہ مسلم سماج میں لڑکوں کے مقابل لڑکیوں کی اکثریت ہے جو میڈیکل کورس کر رہی ہیں۔ جی ہاں میں نے تشویش ناک جیسے الفاظ کا استعمال کیا ہے ، وہ اس لئے کہ تعلیم کے ہر میدان کی طرح میڈیکل کورس کی فیلڈ میں مسلمان لڑکیاں آگے آرہی ہیں اور مسلم لڑکے پیچھے ہیں۔
یہ کوئی فرضی بات نہیں ، اپنے اس کالم کی تحریر کو مستند بنانے کیلئے ہم نے ریاست تلنگانہ کی کالو جی نارائن راؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کی وہ فہرست حاصل کی جو یونیورسٹی نے این سی سی کے تحفظات کے زمرہ میں ایم بی بی ایس میں داخلہ کیلئے اہل امیدواروں کی تیار کی۔ 11 اگست 2018 ء کو جاری کردہ اس فہرست میں تقریباً (334) امیدواروں کے نام درج تھے ۔ ان میں سے (40) امیدوار مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں میں سے بھی صرف (14) لڑکے ہیں اور 36 لڑکیاں ہیں۔ صرف (NCC) کوٹے کے تحت نہیں بلکہ کالوجی نارائن راؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ نے سال 2018-19 ء کے دوران جن (1224) امیدواروں کو ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس میں داخلوں کے لئے منتخب کیا ، اس میں ایم بی بی ایس کیلئے (172) مسلم امیدواروں کے نام مینجمنٹ کوٹہ کے تحت شامل کئے گئے ۔ ان (172) مسلم امیدواروں کی تعداد کو الگ الگ کر کے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں بھی لڑکیوں کی اکثریت ہے اور لڑکے اقلیت میں ہے۔ مینجمنٹ کوٹہ کے تحت (103) مسلم لڑکیوں کو ایم بی بی ایس میں داخلہ مل رہا ہے اور اس زمرے کے تحت لڑکوں کی تعداد صرف (69) ہے۔
ہاں قارئین اکرام اب میں وہ اہم نکتہ بتلاتا ہوں کہ لڑکیوں کی بڑی تعداد ایم بی بی ایس کر رہی ہے تو اس میں تشویش کی بات کیا ہے ۔ دراصل لڑکیوں کے متعلق یہ حقیقت ہے کہ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلینے کے باوجود لڑکیوں کی بڑی تعداد شادی اور بچوں کی پیدائش کے بعد پروفیشن چھوڑ دیتی ہیں۔

پڑوسی ملک پاکستان کی صورتحال جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ وہاں پر یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ اگر کوئی لڑکی ایم بی بی ایس کرلیتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس کیلئے اچھا رشتہ پکا ہے اور ڈاکٹر لڑکی کسی بڑے اور اچھے گھر میں بیاہ کر جائے گی ۔ پاکستان میں یہ مسئلہ کس قدر سنگین ہے کہ سال 2014 ء میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے لڑکیوں کے میڈیکل کورس میں داخلوں کو روکنے کیلئے کوٹہ سسٹم متعارف کروایا تھا تاکہ لڑکیوں کی تعداد کو میڈیکل کی فیلڈ میں 50 فیصد تک محدود کیا جائے ۔ بعد میں لاہور ہائیکورٹ نے اس فیصد کو کالعدم قرار دیا تھا ۔ اخبار ڈان میں عائشہ مسعود نے لکھا تھا کہ پاکستان کے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے والی 80 فیصدی تعداد لڑکیوں کی ہے اور ان میں سے 50 فیصدی خاتون ڈاکٹرس کام نہیں کرتی ہیں۔ (بحوالہ ڈان 16 اکتوبر 2017 ئ)
قارئین اکرم پاکستان کی مثال دیکر لڑکیوں کی میڈیکل تعلیم پر تشویش کا اظہار شائد مناسب نہیں لیکن یہ صرف پاکستان اور ہندوستان کی بات نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ مسئلہ اٹھتا ہے۔ اب میں جو مثال دینا چاہوں گا وہ زیادہ پرانی نہیں ہے اور ہندوستان پاکستان کی بھی نہیں ہے۔ جی ہاں اب میں آپ حضرات کو جاپان کی مثال دینا چاہوں گا ، وہی جاپان جس کا شمار دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر ہوتا ہے۔ ٹوکیو میڈیکل یونیورسٹی نے لڑکیوں کو میڈیسن میں داخلے سے روکنے کیلئے ان کے مارکس کم کردیئے تھے ۔ ٹوکیو میڈیکل یونیورسٹی میں رشوت ستانی کے حوالے سے برطانیہ کے اخبار دی ٹیلیگراف نے 7 اگست 2018 ء کو لکھا کہ با اثر سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کے بچوں کو رشوت کے عوض میڈیکل میں داخلہ دیا جاتا تھا اور خاص کر لڑکیوں کے میڈیکل میںداخلہ کو محدود کرنے ان کے ما رکس کم کردیئے جاتے تھے تاکہ لڑکیوں کے داخلوں کو 30 فیصد تک محدود کیا جاسکے۔ یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام کے مطابق لڑکیاں شادی اور بچوں کی پیدائش کے بعد پروفیشن چھوڑ دینے کا خدشہ رہتا ہے جبکہ لڑکے میڈیسن کی تعلیم حاصل کریں گے تو پروفیشن میں کام کریں گے ۔ ٹوکیو یونیورسٹی سے attach دواخانوں میں بھی اگر لڑکیاں زیادہ تعداد میں بطور ڈاکٹر کام کریں گے تو دواخانوں کو ان کے ہاں بچوں کی پیدائش پر چھٹی بھی دینی پڑے گی اور اگر وہ کام کے دوران ملازمت چھوڑ دیتی ہیں تب بھی دواخانے کیلئے مسائل پیدا ہوں گے ۔ ٹوکیو میڈیکل یونیورسٹی میں اخبار دی ٹیلیگراف کے مطابق سال 2006 ء سے اس طرح کے واقعات کا پتہ چلا ہے ۔ جب لڑکیوں کے ما رکس کم کر کے ان کے میڈیکل میں داخلہ کو روکے جانے کے واقعات شروع ہوئے تھے، مسلم سماج میں لڑکیوں کی زیادہ تعداد میڈیکل کورس کر رہی ہے۔ بڑی اچھی بات ہے مگر اصل مسئلہ تو ان لڑ کیوں کیلئے اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کی شادیوں کیلئے مسلم ڈاکٹر لڑکے نہیں ملتے ہیں ۔ خیر سے ہمیں کیا کرنا ہے تو میں بتلاتا ہوں کہ ہمیں ز یادہ سے زیادہ لڑکوں کو میڈیکل کی تعلیم کیلئے رغبت دلانی ہوگی کیونکہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے ۔ ہمارے وسائل محدود ہیں ، ہمارے تعلیمی ادارے محدود ہیں۔ مسلمانوں کو اسکالرشپس دینے والے ادارے کم ہیں، ایسے میں اگر ایسا خدشہ ہو کہ لڑکیاں میڈیکل کورس مکمل کرنے کے بعد پریکٹس نہیں کریں گی تو زیادہ سے زیادہ لڑکوں کو اس جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے اور لڑکیوں کی میڈیکل کی تعلیم ان کے لئے اچھے رشتوں کی ضرورت نہ بن جائے اس کے متعلق بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔

لڑکیوں پر ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرنے کس قدر دباؤ ہے اس کا اندازہ ایک اور خبر سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔اس برس فروری کی ایک خبر ہے ۔ اترکھنڈ کی ایک لڑ کی جو ایم بی بی ایس کے چوتھے سال کی تعلیم حاصل کر رہی تھی ، نے پھانسی لیکر خودکشی کرلی ۔ اپنے مرنے سے پہلے ایک نوٹ تحریر کرتے ہوئے شیوانی بنسل نے لکھا کہ ’’میں تھک گئی ہوں ، میں کبھی بھی ایم بی بی ایس نہیں کرنا چاہتی تھی ، میں تو کرکٹ کھیلنا چاہتی تھی ‘‘ بنسل کی سہیلیوں نے بتلایا کہ بنسل ایم بی بی ایس کے امتحانات میں خراب مظاہرہ سے پریشان تھی اور امتحانات سے ڈر رہی تھی ۔ (انڈین اکسپریس 27 فروری 2018 )
یہ بھی سچ ہے کہ ایم بی بی ایس کی تعلیم ہندوستان میں صرف امیروں کے بس کی بات ہوگئی ہے ۔ ایم بی بی ایس کی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا Status کی نشانی بن گیا ہے ۔ جن کے ہاں مال و دولت ہے وہ تو دولت کے بل پر اپنے بچوں کو میڈیکل کی تعلیم دلوا لیتے ہیں لیکن جن کے ہاں میڈیکل کورس کی فیس نہیں ہے ، وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے قرضہ لینے پر مجبور ہیں۔ ایم بی بی ایس کی تعلیم پوری کرنے کے بعد ڈاکٹر صرف سند ہی نہیں لے رہے ہیں بلکہ قرضوں کے دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔ یہ میں نہیں بلکہ انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے 22 جولائی 2018 ء کو شائع ایک رپورٹ میں لکھا ہے۔ High MBBS Fees leaving many doctors in dept trap کی سرخی کے تحت رپورٹ میں لکھا ہے کہ میڈیکل کورس کی فیس جس قدر بڑھ گئی ہے ، اس کے پیش نظر جو طلبہ تعلیمی قرضے لے رہے ہیں ، ان کو ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد بھی اتنی تنخواہ نہیں مل رہی ہے کہ وہ اپنا تعلیمی قرضہ آسانی سے چکا سکیں۔ اخبار نے لکھا ہے کہ ایم بی بی ایس کے لئے اگر کوئی طالب علم 50 لاکھ کا بھی قرضہ لیتا ہے تو اس کے لئے EMI کی ماہانہ قسط 60 ہزار ہوتی ہے اور ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر کو اگر سر کاری ملازمت بھی مل جاتی ہے تو اس کو وہاں 45 ہزار سے 60 ہزار کے درمیان ہی تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ خانگی دواخانوں میں ڈاکٹرس کو اور بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے ۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ سال 2017 ء کے دوران انڈیا کے پرائیویٹ میڈیکل کالجس میں اوسطاً سالانہ ٹیوشن فیس 10 لاکھ تھی۔ اس طرح پورے ایم بی بی ایس کیلئے 50 لاکھ کی فیس ہوگی ۔ اس میں ہاسٹل میس لائبریری و غیر کے خرچے بھی شامل ہیں۔
مسلمانوں کو اس سارے پس منظر میں کیا کرنا چاہئے ؟ زیادہ سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو میڈیسن کیلئے راغب کیا جائے اور لڑکیاں ایم بی بی ایس کرتی ہیں تو انہیں شادی اور بچوں کی پیدائش کے بعد بھی پریکٹس کیلئے آمادہ کیا جائے اور صرف ایم بی بی ایس میں داخلہ کیلئے بچوں کے چار چار ، پانچ پانچ سال انتظار نہ کروایا جائے اور باصلاحیت مسلم بچوں کو میڈیسن کے علاوہ لاء ، جرنلزم اور سیول سرویس کیلئے بھی تیار کروایا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نفع والا علم عطا فرمائے (آمین) ۔
sarwari829@yahoo.com