مسلمانوں کے کاروبار پر فرقہ پرستوں کی نظریں

محمد فیاض الدین
ریاست راجستھان میں بی جے پی کا اقتدار ہے اور وہاں فرقہ پرست درندے گاؤ رکھشا جیسے موضوعات کا سہارا لے کر مسلمانوں کو ہراساں و پریشان کررہے ہیں۔ ان کے کاروبار کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جئے پور میں جہاں کثیر ہندو آبادی ہے اور کاروبار پر بھی ہندو چھائے ہوئے ہیں۔ گاؤ رکھشکوں نے گائے کا گوشت استعمال کرنے کے الزام میں ایک مسلم تاجر کی مشہور ہوٹل کو بند کروادیا۔ گاو رکھشکوں نے جئے پور میں واقع 28 کمروں پر مشتمل ہوٹل کے مالک پر ہوٹل میں گائے کا گوشت استعمال کرنے کا الزام عائد کیا اور پولیس نے بھی ایک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے ہوٹل حیات ربانی کو مہر بند کردیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک مسلم تاجر کے کاروبار کو متاثر کرتے ہوئے اس کی جائیداد ہڑپنے کے لئے کوئی اور طاقت گاو رکھشکوں کو استعمال کررہی ہے۔ جئے پور بلدیہ نے گاو رکھشکوں کے احتجاجی مظاہروں کے باعث ہوٹل کے خلاف بہت ہی سرعت کے سے کارروائی کی جس کی مثال نہیں ملتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گاو رکھشکوں کو پولیس اور متعلقہ انتظامیہ کا بھرپور تعاون حاصل ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی اور مقصد کے تحت جھوٹے الزامات بھی عائد کرتے ہیں تو پولیس ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی بلکہ بے بس و لاچار مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کرکے انہیں سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتی ہے۔ حیات ربانی ہوٹل کا شمار جئے پور کی مشہور ہوٹلوں میں ہوتا ہے اور صارفین کو بہتر خدمات کی فراہمی کے لئے اس ہوٹل کو ہوٹل والوں کی اسوسی ایشنوں کی جانب سے متعدد ایوارڈس حاصل ہوچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غنڈہ عناصر مذہب کی آڑ میں گائے کے تحفظ کا بہانہ بناتے ہوئے اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں۔ اس بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے خود کہا تھا کہ گاو رکھشکوں کے بھیس میں غنڈے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے۔ اگر ایسا ہے تو پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں تحفظ گاو کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں یہاں تک کہ مسلم نوجوانوں کو قتل کرنے، انہیں گائے کا گوبر اور پیشاب پینے پر مجبور کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کررہی ہے؟ نفاذ قانون کی ایجنسیوں بالخصوص پولیس کی خاموشی کے دو مطلب نکالے جاسکتے ہیں ایک یہ کہ وہ بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہوئی ہے یا پھر اس میں تحفظ گائے کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں سے نمٹنے کی ہمت نہیں ہے۔ گاو رکھشک اس معاملہ میں خواتین کا استعمال بھی کررہے ہیں جیسے حیات ربانی ہوٹل کے کیس میں کیا گیا کمل دی دی نامی خاتون کو جس کا تعلق راشٹریہ مہیلا گاو رکھشک سیوا منڈل سے بتایا گیا ہے استعمال کیا گیا پہلے اس نے حیات ربانی ہوٹل کے ایک ملازم قاسم سے جھگڑا کیا اور پھر دس تا 15 گاو رکھشکوں کو لے  کر ہوٹل پہنچ گئی۔ منصوبہ کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے کثیر تعداد میں لوگ ان نام نہاد گاو رکھشکوں میں شامل ہوگئے اور ہوٹل کے مالک ربانی کو ہوٹل کے باہر نکالنے پر زور دیا۔ یہ کہتے ہوئے پولیس کو بھی طلب کرلیا گیا کہ ہوٹل میں گائے کے گوشت کی ڈشس تیار کرتے ہوئے صارفین کو سربراہ کی جارہی ہے۔ پولیس اور میڈیا ساتھ ساتھ پہنچے۔ بہرحال پولیس نے گاو رکھشکوں کے الزام پر کارروائی کرتے ہوئے حیات ربانی ہوٹل کے مالک اور چند ملازمین کے خلاف تعزیرات ہند کی فوجداری دفعہ 151 کے تحت مقدمات درج کرکے انہیں حراست میں لے لیا۔ پولیس نے ہوٹل کی تلاشی بھی لی جہاں اسے بی جے پی کے حامی مولانا وحید الدین کی کتب اور جماعت اسلامی کا لٹریچر دستیاب ہوا۔ ہوٹل کے مالک نعیم ربانی کا کہنا ہے کہ ان کی ہوٹل علاقہ میں کافی مشہور ہے اور وہ اپنے صارفین کی بہتر انداز میں خدمت کرتی ہے۔ صاف صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کی ہوٹل میں گائے کا گوشت استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ کسی سازش کا حصہ ہے اور گائے کے گوشت کی ڈشش کی تیاری کے بہانے اس سازش پر عمل کیا جارہا ہے۔ جئے پور میں مسلمان اس بات پر صدمہ میں ہیں کہ جھوٹے الزامات کے باوجود پولیس نعیم ربانی اور ان کی ہوٹل کے دیگر ارکان عملہ کو کس طرح بُک کرسکتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق گاو رکھشکوں اور پولیس کا یہ ڈرامہ شام 6 بجے سے رات 10 بجے تک جاری رہا۔ راجستھان میں گائے کے گوشت سے متعلق یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 30 مئی 2015ء کو ضلع ناگپور کی کھیمسار تحصیل کے موضع برلوکا میں ایک 60 سالہ شخص عبدالغفار قریشی کو گائے ذبحہ کرنے کے جھوٹی افواہوں پر ہجوم نے بھرے بازار میں آہنی سلاخوں سے مار مار کر شہید کردیا تھا۔ اس سے پہلے گایوں کے ڈھانچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلائی گئیں۔ ساتھ ہی لوگوں کو غلط طور پر یہ باور کرایا گیا کہ مسلمانوں نے 200 گائے ذبحہ کرڈالے حالانکہ حقیقت یہ تھی جس کھیت میں گائے کے ڈھانچے پڑے ہوئے تھے اسے بلدیہ نے کرایہ پر حاصل کیا تھا تاکہ مردہ گایوں کی باقیات کو وہاں پھینکا جاسکے۔ بے قصور عبدالغفار قریشی کی مدد کرنے کی ان کے ہندو پڑوسیوں نے کوشش کی لیکن تحفظ گائے کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والے قاتلوں کے ٹولے کو روک نہ سکے۔ اس طرح ظالم قاتلوں کے ہاتھ ایک ضعیف شخص شہید ہوگیا۔ اب تو ایسا بھی ہونے لگا ہے کہ اگر کسی کو گاوں سے نکالنا ہوتو اس پر ذبیحہ گاو کا الزام عائد کردیا جاتا ہے اور اس کے لئے نفرت پر مبنی تقاریر کرتے ہوئے گاوں والوں کو بھڑکایا جاتا ہے۔