مسلمانوں کے ووٹوں کی ممنون و مشکور پارٹی …

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے رائے دہندوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جن کو ووٹ نہیں ملیں گے وہ کھل کر ہنسنا تو کجا خود سے لپٹ کر بھی رو نہیں سکیں گے ۔ ان کے چہرے گر کر چٹخ جائیں گے اور دل غموں سے تڑخ جائیں گے ۔ جب انہیں رائے دہندوں کے فیصلہ کا علم ہوجائے گا تو ان کا غرور عہد جمال بھی بکھر جائے گا اور آئینہ بھی ٹوٹ کر رہ جائے گا ۔ ہر پانچ سال بعد عوام کو اپنا لیڈر منتخب کرنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن تلنگانہ کی حکمراں ٹی آر ایس نے اپنی حکومت کی میعاد پوری ہونے سے 9 ماہ قبل ہی اسمبلی تحلیل کر کے خود پر اور عوام پر قبل از وقت انتخابات مسلط کردئیے تھے تاکہ دوبارہ اقتدار کی دوڑ میں وہ سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے اس سے پیچھے پیچھے وہ پارٹیاں دوڑ لگاتی رہیں اور پھر تھک کر کسی موڑ پر رک گئی ہیں ۔ ٹی آر ایس کو یقین ہے کہ اسے دوبارہ اقتدار حاصل ہوگا ۔ کانگریس زیر قیادت مہا کوٹمی کو توقع ہے کہ اس کا اتحاد طوفان بن کر ٹی آر ایس کو بہا لے جائے گا ۔ تلنگانہ میں اس مرتبہ مسلمانوں کا ووٹ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ یہ ووٹ جس پارٹی کے حق میں ڈالا گیا ہے ۔ اس کی کامیابی کی صد فیصد امید کی جاسکتی ہے ۔ ٹی آر ایس کی قیادت کے چندر شیکھر راؤ کو مسلمانوں کے ووٹوں کی فکر شاید نہیں رہی ۔ اس لیے ان کا رویہ بھی تلخ بن گیا تھا ۔ انتخابی جلسوں میں ان کے چڑچڑے پن کو عوام نے صبر کے ساتھ برداشت کیا کیوں کہ وہ گذشتہ ساڑھے چار سال سے انہیں برداشت کرنے کے عادی ہوگئے تھے اب چند دن اور برداشت کرنے میں کیا حرج ہے ۔ جن لوگوں کو ٹی آر ایس سے محبت ہے وہ اس کے حق میں تعریف کے پل باندھتے ہوئے نہیں تھکتے اور جن کو ٹی آر ایس سے ناراضگی ہے انہیں یہ احساس ہے کہ تلنگانہ میں اب ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار نہیں ملنا چاہئے ۔ ٹی آر ایس حکومت کی لاکھ وعدہ خلافیوں اور جھوٹے دعوؤں کے باوجود تلنگانہ کا رائے دہندہ خاص کر مسلم ووٹر ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار پر لانے کے لیے ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو انہیں 11 ڈسمبر کے نتائج کے دن کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہوگا ۔ تلنگانہ تحریک سے ہی ٹی آر ایس کو اپنا آئیڈیل بنانے والوں نے اس کی ترقی کے لیے کافی محنت کی ہے ۔ مسلمانوں کی بڑی جماعتوں نے اس کا ساتھ دیا ہے ۔ جماعت اسلامی نے ساڑھے چار سال قبل بھی اس کی حمایت کی تھی ۔ اب بھی تائید ہی کررہی ہے ۔ ان انتخابات نے مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کو بھی منتشر کردیا ہے ۔

ایک مسلم گروپ کانگریس زیر قیادت مہا کوٹمی کی تائید کررہا ہے تو دوسرا گروپ بی جے پی ، ٹی آر ایس سے ساجھے داری کرنے والی مقامی جماعت کو دوست سمجھ کر رائے دہی کو متحرک کردیا ۔ ٹی آر ایس کی حمایت کرنی چاہئے یا نہیں ؟ مہا کوٹمی کا ساتھ دینا چاہئے یا نہ دیا جائے یہی فیصلہ کرتے رائے دہی کا دن بھی آگیا اور گذر گیا ۔ ریاست کی تقریبا 3.51 کروڑ آبادی میں مسلمانوں کی آبادی کا 12 فیصد ہے اور یہ 12 فیصد آبادی اپنے لیے 12 فیصد تحفظات کے انتظار میں ساڑھے چار سال گذار دئیے ۔ اس کے باوجود انہوں نے کے سی آر کو ووٹ دیا ہے تو ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار ملے گا اگر قسمت سے یا اتفاق سے کے سی آر کو دوبارہ حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے تو اس عطائے اقتدار کے لیے انہیں مسلمانوں کا مرہون منت ہونا چاہئے اور یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ ان کی لاکھ دھوکہ دہی کے باوجود مسلمانوں نے انہیں ووٹ دیا جس کے نتیجہ میں آج وہ اقتدار کے مزے برقرار رکھنے کے قابل ہوئے ہیں ۔ وہ چیف منسٹر کی کرسی کے مزے ضرور لوٹیں گے مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے وعدہ کو پورا کرنے پر بھی ایمانداری سے کام کرنا چاہئے ۔ مسلمانوں کے اہم ترین ووٹوں کا توازن ٹی آر ایس کی جانب جھکا ہوا نظر آئے تو سمجھ لیجئے کہ تلنگانہ کے مسلمانوں نے تحفظات کے مسئلہ کو پس پشت ڈالدیا اور ترقیات و بہتر نظم و نسق کی امید میں اپنا ترجیحی ووٹ کا استعمال کیا ہے ۔ ٹی آر ایس کو ووٹ دینے والوں کا کہنا ہے کہ اس حکومت میں ریاست کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہی ۔ برقی کا مسئلہ ہرگز پیدا نہیں ہوا ۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات بھلے ہی نہ دئیے ہوں لیکن مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کی گئی ۔ شادی مبارک اسکیم کا بہت زیادہ اثر دکھائی دیا ۔ ٹی آر ایس حکومت کی خرابیوں کے باوجود عوام کا ووٹ مل رہا ہے تو اس پر کے سی آر کو مسلمانوں کے ووٹوں کا مرہون منت ہوتے ہوئے ان کا ممنون و مشکور ہونا ہوگا ۔ مسلمان جو تحفظات کے حصول میں ناکام ہوکر بھی زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینے میں بھی ناکام ہوں تو ان کے بعد آنے والے ووٹرس کا اس سے زیادہ برا حال ہوگا ۔ ٹی آر ایس قائدین خود کو شاباشی دیتے ہوئے جھوٹے وعدے کرنے کے عادی ہوجائیں گے ۔ اس حکمراں پارٹی کے جھوٹے وعدوں سے ہی عوام کو واقف کروانے کی خاطر تشکیل کردہ مہا کوٹمی بھی یہ امید باندھے ہوئے ہے کہ اس کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملے گی کیوں کہ تلنگانہ عوام ٹی آر ایس سے بیزار ہوچکے ہیں ۔ کانگریس زیر قیادت تلگودیشم اتحاد کو بلا شبہ مخالف حکمرانی لہر کا فائدہ ہوتا ہے تو کانگریس کو اپنا چیف منسٹر نامزد کرنے کے لیے دہلی کی دوڑ لگانی پڑے گی ۔ مسلمانوں کے ووٹوں کو حاصل کر کے اقتدار پر فائز ہونے والی کانگریس کا عظیم اتحاد بھی مسلم رائے دہندوں کا ممنون و مشکور ہوگا اور اس کے عوض وہ مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے کس حد تک ایمانداری کا مظاہرہ کرے گی ۔ یہ اقتدار کے حصول کے بعد کے دنوں میں واضح ہوگا ۔ سب سے پہلے یہ غور کرنا ہے کہ آیا یہ مہا کوٹمی واقعی ٹی آر ایس کو شکست دے کر رہے گا ۔ عظیم اتحاد کی کامیابی کے چرچے کرنے والوں کو یہ بھی یقین ہے کہ ٹی آر ایس کو اپوزیشن میں بیٹھنے کا ذہن بنالینا چاہئے کیوں کہ ایک متحدہ اپوزیشن نے تلنگانہ کی ابتر صورتحال کو بہتر بنانے کا عہد کیا ہے تو ٹی آر ایس کی غلط حکمرانی اور اس کی وعدہ خلافیوں کی سزا ضرور دیں گے ۔ کارگزار چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر نے اپوزیشن قائدین کے ساتھ انتقامی رویہ اختیار کر کے بھی اپنی پارٹی کے کامیابی کے امکانات کو نقصان پہونچایا ہے ۔ اس کے علاوہ کے سی آر نے اپنے جلسوں میں تلخ کلامی سے بھی کام لیا ۔ عوام کو چپ کرانے کی کوشش کی مسلم تحفظات پر سوال کرنے والوں کو ڈرایا دھمکایا یہ تبدیلیاں ٹی آر ایس کی کار کو پنکچر کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ ٹی آر ایس نے 2014 کے انتخابات میں جس شان سے حکومت بنائی تھی اس صورتحال کا احیاء ہونا مشکل ہے ۔ شروع میں ٹی آر ایس نے ریاست کی سیاست پر غلبہ حاصل کرلیا تھا اب کانگریس کے عظیم اتحاد نے اس ریاست کی سیاسی فضا کو اپنے بس میں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پھر بھی یہ عظیم اتحاد تلنگانہ کے دیہی علاقوں میں مقبول نہیں ہوسکا ۔ جہاں آج بھی ٹی آر ایس کا غلبہ ہے ۔ یہاں کانگریس کے امیدواروں نے سخت محنت کی ہوتی تو وہ ٹی آر ایس کا ووٹ فیصد کاٹنے میں کامیاب ہوتے ۔ بہر حال 11 دسمبر کو ٹی آر ایس یا کانگریس عظیم اتحاد دونوں میں سے کسی ایک کو اقتدار ملتا ہے تو یہ کامیابی سراسر مسلمانوں کے ووٹوں کے مرہون منت ہوگی اور کامیاب پارٹی کو مسلمانوں کا ممنون و مشکور ہونا ہوگا ۔ رائے دہی کے بعد آنے والے اوپنین پول یا اگزٹ پول سے تو ظاہر ہورہا ہے کہ ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار مل رہا ہے اور بعض نے مہاکوٹمی کو سبقت حاصل ہونے کا اشارہ دیا ہے ۔ اصل نتائج سے ان اوپنین یا اگزٹ پول کا پورا ہونا بھی ممکن ہے مگر الکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بند قسمت کا فیصلہ تو منگل کے دن ہی سامنے آئے گا ۔۔
kbaig92@gmail.com