مسلمانوں کے منافع خور سیاستداں

مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) ایک ایسی تنظیم ہے جو سنگھ پریوار کیلئے کام کرتی ہے۔ ہندوتوا طاقتوں نے منظم طریقہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو گمراہ کرنے کیلئے اپنی محاذی تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔ مذہب اور مندر کے نام پر اکھٹا کردہ فنڈس کو اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنے کی ناپاک سازش کے حصہ کے طور پر اگر مسلم راشٹریہ منچ کو قائم کرکے اسے مسلم طبقہ کو ورغلانے، اکسانے یا تبدیلی مذہب کی ترغیب دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ تباہ کن عمل ہوگا۔ مسلم راشٹریہ منچ کا کام مسلم خواتین کیلئے مہارت پیدا کرنے والے پروگراموں کو ترتیب دینا اور شادی سے متعلق زندگی کے تنازعات و امور میں قانونی امداد فراہم کرنا ہے۔ اس تنظیم کو سنگھ پریوار نے 2002ء میں قائم کیا تھا۔ آر ایس ایس کے اس وقت کے سربراہ کے ایس سدرشن کے ذہن کی اختراع والی اس تنظیم نے ایک ویب سائیٹ قائم کیا ہے جس کو ابتداء میں راشٹر وادی مسلم اندولن کے نام سے چلایا جاتا تھا لیکن 2005ء میں اس کا نام تبدیل کرکے مسلم راشٹریہ منچ رکھا گیا۔ سنگھ پریوار کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کیلئے محاذی تنظیموں اور کارکنوں کی ضرورت ہے۔

مسلم راشٹریہ منچ بھی اس کا ایک حصہ ہے جس کا کام مسلمانوں میں اپنے نظریہ و فکر کے مطابق مہم چلانا ہے۔ ہندوتوا نظریہ کو فروغ دینے اور گھر واپسی جیسے پروگراموں کے انعقاد کے ذریعہ ہندوتوا طاقتوں نے اپنے کاموں کو پہلے سے زیادہ وسعت دیا ہے۔ ایک چھوٹی سی دیا سلائی یا ایک معمولی سی چنگاری پورے جنگل، پوری ریاست یا پورے شہر کو جلا کر خاکستر کرنے کیلئے کافی ہے۔ آر ایس ایس نے اپنی سوچ کی چھوٹی سی دیا سلائی جلا کر مسلم طبقہ کو گمراہ کرنے کی سازش رچائی ہے تو اس سے چوکنا رہنا امت مسلمہ کا کام ہے۔ مسلمانوں کی تنظیموں کے لئے سنگھ پریوار کی سازشیں تشویشناک اور غوروفکر کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کی رہبری کیلئے علماء و مفکرین اسلام کی کوئی کمی نہیں ہے صرف کمی جذبہ عمل اور مسلمانوں کو بیدار رکھنے والی کوششوں کی ہے۔ ہندوتوا کی ملحق تنظیمیں ہندوستان کے دیہی علاقوں، قبائیلی اور پسماندہ مقامات میں سرگرم ہیں ناخواندہ، غریب اور پسماندگی کا شکار مسلم طبقہ کے افراد کو آسانی سے گمراہ کیا جاسکے۔ شہروں اور ٹاؤنس میں بھی یہ تنظیمیں مسلم بستیوں میں رہنے والے مسلمانوں، روزمرہ کی مزدوری کرنے والے مسلم خاندانوں کو راغب کرنے والے پروگراموں کے ذریعہ گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ آر ایس ایس کی ذہنی اختراع اس کی سوچنے کی صلاحیتوں کے مطابق محدود ہے۔

وہ یہ ہرگز تصور نہیں کرسکتی کہ امت مسلمہ کو گمراہ کرنا مشکل نہیں ہیں ناممکن بھی ہے مگر چند ایسے افراد جو دینی معلومات سے ناواقف اور ناخواندہ ہونے کے علاوہ غربت کا شکار ہوئے ہیں، انہیں لالچ دے کر تبدیلی مذہب کی ترغیب دی جاسکتی ہے مگر مسلم گھرانے ایسے بھی ان دنوں جوکھم بھرے حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ قومی سطح پر بی جے پی کے اقتدار کے بعد سنگھ پریوار اور دیگر فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت آنے والے دنوں کی سنگینیوں سے بے خبر ہوکر اپنے مذہبی امور کے حوالے سے فضول خرچیوں، دھوم دھام اور ہنگامہ خیز تقاریب میں مصروف ہیں۔ ان کے پیچھے آنے والے فرقہ پرستوں کے طوفان سے یہ بے خبر ہیں۔ مسلم طبقے کے مفاد پرست لیڈرس بھی لفاظی کی سیاست میں ہی ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شہرت اور امت مسلمہ کی حمایت کے ذریعہ کی جانے والی سیاست کو ایک منافع بخش کاروبار بنا رکھا ہے۔ ان میں سے بعض نے اپنے سیاسی نظریات کو سنگھ پریوار کے مقابلہ سخت کرلیا ہے جن کو سیکولر ہندوستان کے دیگر سیاستدانوں نے ایک سکہ کے دو رخ قرار دیا ہے۔

ہندوستان میں ہندو فرقہ پرستوں اور مسلم فرقہ پرستوں کی اصلاح میں جب باتیں ہونے لگتی ہیں تو ایسے میں مسلمانوں کا مزید خسارہ ہوگا کیونکہ مسلمان فرقہ پرست ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کے بعض لیڈروں کی سیاسی منافع خوری کی لالچ کے باعث آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کے ذہنی خطوط پر جوابی بیان بازی کرنے میں تو یہ ان کا ذاتی فعل ہوسکتا ہے۔ اس سے سیکولر ہند کے مسلمانوں کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ فرقہ پرستوں کی واحد پالیسی یہ ہوتی ہیکہ معاشرہ میں پھوٹ ڈال کر اپنے مقاصد بروئے کار لائیں اور اب یہ کام دھڑلے سے انجام دیا جارہا ہے کیونکہ مرکز میں فرقہ پرستوں کو طاقت حاصل ہوچکی ہے تو علاقائی سطح کی یا شہر کی گلی میں فروغ پانے والے مسلم لیڈروں کے فرقہ وارانہ تیور سے مسلم طبقہ کی یکسر ترجمانی نہیں ہوتی۔ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کو سمجھداری ، سوچ بوجھ اور حکمت سے کام لینا ہے ان کے لیڈروں کی طرح جوشیلی یا اشتعال انگیز کو ہوا دینے والی تقاریر کی ضرورت نہیں ہے۔ میلادالنبیؐ کے جلسوں میں تقاریر کے دوران مذہب و عقیدہ کے ساتھ سیاست کی منافع خوری کو جوڑنے سے ہندوتوا کے علمبرداروں کو مزید تقویت حاصل ہورہی ہے۔