نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری کی جانب سے مسلمانوں کے حالات اور حکومت کی ذمہ داریوں پر توجہ دلائی گئی تو حسب توقع اس ملک کی فرقہ پرست طاقتوں نے تنقیدوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ انھوں نے مسلمانوں کو درپیش مسائل جیسے ان کی شناخت اور صیانت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مستحکم حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا تو وشوا ہندو پریشد آگ بگولہ ہوگئی اور اس تقریر کو سیاسی اور فرقہ وارانہ بیان قرار دیا جو دستوری عہدہ کی حامل شخصیت کے لئے زیب نہیں دیتا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں جب کوئی ذمہ دار شخص حقائق کو بیان کرتے ہوئے حکومت کو خبردار کرتا ہے تو اس پر ایسے گوشوں سے نکتہ چینی کی جاتی ہے جن کا وجود سیکولر ہندوستان کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے۔ وی ایچ پی کے علاوہ دیگر ہندوتوا تنظیموں نے بھی حامد انصاری کے بیان کا سخت نوٹ لیتے ہوئے اپنی رائے ظاہر کی کہ اس طرح کے بیانات مسلمانوں کو مزید تاریکی میں ڈھکیل دیں گے۔ مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت میں مسلمانوں کے حق میں آواز اُٹھانے کی کوشش کرنا اگر ایک جرم متصور کیا جاتا ہے تو یہ افسوسناک واقعہ ہوگا۔ حامد انصاری نے مسلمانوں کے حقوق کے تعلق سے حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے تو ان کی تجویز اور مشورے کو غنیمت جان کر اس پر عمل آوری کرنی چاہئے۔ مودی حکومت کو بدنامی کی کھائی میں لے جانے والی تنظیمیں ہندوتوا نظریہ کو حکومت کا نظریہ بناکر پیش کررہی ہیں جو ایک سیکولر ہندوستان کے نہایت ہی خطرناک عمل ہے۔ حامد انصاری نے حکومت کی کوتاہیوں کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ مودی حکومت نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو نعرہ ’’سب کی ترقی‘‘ لگایا تھا اس کے عین مطابق ہی حکومت کو مسلمانوں کے لئے بھی اقدامات کرتے ہوئے سب کی ترقی کے نعرے کو درست اور یادگار بنانا چاہئے۔ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازات کی وجہ سے ہی آج یہ طبقہ احساس محرومی کا شکار ہے۔ مسلمانوں کے سامنے کئی مسائل ہیں
اور انھیں درپیش محرومیوں سے باہر نکالنا ضروری ہے۔ امتیازی رویہ انھیں اول سماجی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی کوشش کے خراب نتائج برآمد ہوں گے۔ مسلمانوں کی آبادی کے تعلق سے حالیہ مردم شماری کے ڈاٹا کو جس چالبازی سے جاری کیا گیا اس میں حکومت کی تعصب پسندی واضح نظر آرہی تھی۔ اس مخالف مسلم سوچ والی حکومت کے سامنے نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری نے بے باکانہ طور پر اظہار خیال کیا ہے۔ ہندوستان میں 14 فیصد مسلمانوں کی آبادی اس ملک کی جملہ آبادی 180 ملین کا حصہ ہیں اور ترقی کے شعبہ میں بھی انھیں برابر کا حق ملنا چاہئے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس اس وقت سچ ثابت ہوگا جب مسلمانوں کو بھی یکساں ترقی دی جائے۔ مسلمانوں کی سلامتی اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت انھیں مؤثر سکیوریٹی فراہم کرے۔ اس کی ترقی کے لئے دیانتدارانہ پالیسیاں بناکر ان پر فوری عمل آوری کو یقینی بنایا جائے۔ ان کے بیان کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کے پیچھے یہی ہندوتوا نظریہ کارفرما ہے جو ہندوستانیوں کے اندر نفرت کا زہر پھیلانے کی مہم پر ہے۔ اس طرح سرکاری سرپرستی والی مخالف مسلم یا مسلم دشمن مہم کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ لہذا مسلمانوں کو اپنی سلامتی اور ترقی کا معاملہ ازخود نمٹنا ہوگا۔ مسلمانوں کے لئے اس وقت سب سے اہم بات ان کی اپنی خود اعتمادی ہے۔ خود اعتمادی وہ جذبہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنادیتا ہے۔ نائب صدرجمہوریہ کی تقریر اور ہندوتوا تنظیموں کے شدید ردعمل کے درمیان مسلمانوں کے سامنے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے اور آگے چل کر ان کی سلامتی کو خطرہ ہے لہذا مسلمانان ہند کو مستقل مزاجی اور محنت کو اولیت دینے پر ایماندارانہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مرکز کی حکومت کو اپنے سامنے رکھ کر اس کی پالیسیوں کو سمجھتے ہوئے موجودہ حالات اور وقت کو غنیمت جان کر اپنے لئے کچھ کرنے کی جستجو کریں۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ وقت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اسے آگے سے پکڑو۔ مولانا روم کے مطابق اگر وقت کی قدر نہ کی جائے تو یہ سب کچھ چھین لیتا ہے۔ اس لئے آج نائب صدرجمہوریہ کے خیالات ہندوستان کے مفکر مسلم دانشوروں کے خیالات سے ہم آہنگ ہیں اور ایک عام مسلمان بھی انہی خیالات اور احساسات کے ساتھ وقت کی بہتری کا انتظار کررہا ہے مگر مسلمانوں کو اب مزید انتظار کرنے اور حکومت کے جھوٹے وعدوں سے اکتفا کرنے کے بجائے اس کی نفرت پر مبنی پالیسیوں اور کارروائیوں سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومتیں ہندوستان کے مسلمانوں کو یکا و تنہا کرکے ان کے ساتھ امتیاز کی پالیسی ختم نہیں کریں گی تو آنے والے دنوں میں مسلمانوں کو خود اعتمادی کے قوی ہونے کے بعد کے حالات فرقہ پرستوں اور ہندوتوا نظریہ کی طاقتوں پر بھاری پڑجائیں گی۔